کہاجاتاہے کہ ظالم بادشاہ بخت نصرکی طوفانی فوج بنی اسرائیل کی پوری سلطنت کو تہس نہس کرنے کیلئے پہنچنے والی تھی۔ قریب تھا کہ لاکھوں یہودیوں کو تہہ تیغ اوران کے شہروں کو مسمار کیاجائے لیکن اس غافل قوم کے حکام اس وقت بھی عیش کوشی میں محو تھے جبکہ علما اس بات پر مناظرے کر رہے تھے کہ ''ایک سوئی کے ناکے پر کتنے فرشتے بیٹھ سکتے ہیں''؟ ہم بیشک اسرائیل تو نہیں لیکن لایعنی باتوں اور فروعی مسائل میں ٹانگ اڑانے کی عادتیں بنی اسرائیل کی طرح ہماری بھی گھٹی میں پڑی ہیں۔ گوکہ ترقی کی دوڑ میں پیچھے رہ جانے کی ہماری ایک بڑی وجہ یہی معمولی اختلافات ہیں۔عباسی سلطنت کا زمانہ تھا اور خلیفہ مامون رشید تھے ۔ایک شرارتی عالم قاضی احمد بن ابودائود نے ایک دن خلیفہ کو یہ پٹی پڑھائی کہ قرآن قدیم کلام نہیں ہے بلکہ یہ حادث ہے اللہ کی مخلوق ہے ۔اس مسئلے کو علما وقت سے تسلیم کروانے کیلئے خلیفہ نے اتنا زور لگایا کہ بے شمار علما سے جبراً قرآن کی مخلوق ہونے کا اقرار کروایا گیا۔امام احمد بن حنبلؒ اسی دور کے سب سے بڑے امام، مجتہد اور محدث تھے یوں انہوں نے خلیفہ کے اس دعوے کو شدت سے رد کیا ۔اسی جرم کی پاداش میں امامؒ کو اپنی زندگی میں بدترین صعوبتیں اٹھانا پڑیں۔ مامون کی وفات کے بعد معتصم بااللہ خلیفہ بنے تو اپنے پیشرو کی وصیت کے مطابق وہ بھی امام احمدبن حنبلؒ اور دوسرے علما ء سے اس بات کو منوانے پرمصر رہے۔امام حنبلؒ کو آخر تک اپنے صحیح موقف پر برقرار پاکر معتصم نے بھی ان کے اوپر مظالم کی حدکر دی۔معتصم کے بعد واثق بااللہ مسند خلافت سنبھالی تو معتصم کے مقابلے میں انہوں نے اس مسئلے کے بارے میں کچھ نرمی دکھائی۔ واثق کے بعد متوکل بااللہ نے خلیفہ بنے تو انہوں نے اس فتنے کو ختم کیا اور علما کو درس وتدریس کی طرف راغب کیا۔ اسی طرح حرف’’ ضاد ‘‘کے تلفظ کی ادائیگی کو بھی ہم نے اتنا متنازعہ بنایا کہ باقاعدہ لوگ ایک دوسرے کے خلاف صف آرا ہونے لگے۔بعض فقہی اور فروعی مسائل پر بھی ہم نے اپنا قیمتی وقت ضائع کیا۔ پچھلے دنوں ضلع ژوب میں اسی نوعیت کا ایک عام سا مسئلہ سامنے آیا جس کو ہمارے بعض صاحبان نے خوب ہوا دی ۔ مسئلہ ایک ہندو مندر سے متعلق تھا جس کوچیف جسٹس بلوچستان کے حکم پرژوب سرکارنے لگ بھگ سترسال کے بعد اپنے اصل مالکان (ہندوئوں)کے حوالے کردیا ۔ یاد رہے کہ ژوب کے بابو محلے میں ہندووں کا ایک پرانا مندر تھا جس کو اسی وقت کی حکومت نے مال غنیمت سمجھ کر اس کی جگہ اسپیشل اسکول کے نام سے ایک تعلیمی ادارہ تعمیر کیاتھا۔ بدھ کے روز اسی مندر کے اندر ڈپٹی کمشنر طہٰ سلیم کی صدارت میں ایک تقریب منعقد ہوئی جس میں شہر کے علما اور عمائدین کے علاوہ ہندو برادری اورمسیحی برادری کے لوگ بھی شریک ہوئے۔ تقریب میں اقلیتوں کے حقوق کے بارے میں تقریریں ہوئیں اور پھرمرکزی جامع مسجد ژوب کے خطیب مولوی اللہ داد کاکڑ نے اس کے افتتاح کیلئے باقاعدہ فیتا کاٹ کر تقریب کو اجتماعی دعا پر برخاست کردیا ۔ چند گھنٹے بعد سوشل میڈیا پر ایک طوفان سا بپا ہوا جس کا گرد یہ سطور لکھنے تک ہنوز نہیں بیٹھا ہے۔مجھے سب سے زیادہ افسوس ان مولوی اور مفتی صاحبان پر ہوا جنہوں نے اس مندر کی دوبارہ بحالی کی مخالفت میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ پہلے سوشل میڈیا پر ایک نوجوان مفتی کا نقطہ نظر جاننے کو ملا۔اس بے چارے کو یہ بھی معلوم نہیں تھا کہ ژوب میں بندرگاہ کا نہیں بلکہ ہندووں کے ایک مندر کا افتتاح ہوا ہے ۔ اپنے پانچ دس منٹ کے بیان میں اس مفتی نے کوئی ایسا حوالہ پیش نہیں کیا جس میں اقلیتوں کے عبادت گاہیں مسمار کرنے اور اس کی جگہ مسجدیا تعلیمی ادارہ تعمیر کرنے کو جائزقرار دیاگیاہو۔ اگلے روز ایک بزرگ مولوی صاحب کی طرف سے باقاعدہ طور پرایک فتویٰ سوشل میڈیا پرنمودارہوا۔ ان مولوی صاحب کے فتوے کا عنوان تھا کہ’’مندر کے افتتاح میں جن مسلمانوں نے شرکت کی ہے وہ فوراً توبہ کرلیں ''۔ موصوف نے دلیل کے طور پر رسالت مآب ﷺ کے دور کا حوالہ دیا تھا کہ آپ ﷺ کے حکم پرحضرت جریر بن عبداللہ بجلی نے ڈیڑھ سو صحابہ کی معیت میں یمن کے قبیلہ خثعم کے بت خانے کو مسمار کیا تھا۔لیکن وہ یہ بھول گئے تھے کہ ذی الخلصہ یمن کے قبیلہ خثعم کی ایک عام عبادت گاہ نہیں تھی بلکہ یہ بیت اللہ کے مقابلے میں بنایاگیا ایک کعبہ تھا جو کعبۃ الیمانیہ کے نام سے مشہورتھا۔یعنی یہ مسلمانوں کو للکارنے اور ایک سازش کے طور پر لوگوں کو بت پرستی کی طرف مائل کرنے کا ایک حربہ تھا۔ورنہ اپنے عہدمبارک میں آپؐنے کبھی بھی غیر مسلموں کی عبادت گاہوں کو مسمار کرنے کے احکامات ثابت نہیں ہیں۔یاد رہے قبیلہ خثعم کے اس سازشی عبادت گاہ کو مسمار کرنے کے ساتھ ساتھ رسول اللہ ﷺ نے مدینہ میں مسجد ضرار کو بھی مسمار کرنے کا حکم دیا تھا۔یہ مسجد بھی دشمنان دین نے مسجد قبا کے مقابلے میں ایک سازش کے طور پر بنائی تھی ۔ان مولوی صاحب نے خلیفہ دوم سیدنا عمر فاروقؓ کے اُس تاریخی عہد نامے کا ذکر کرنا مناسب نہیں سمجھا جو انہوں نے 627ء میںشام اور یروشلم کوفتح کرنے کے بعد عیسائی اقلیت کیساتھ کیاتھا ۔اس تاریخی معاہدے کے چند نکات کا اردوترجمہ ملاحظہ فرمائے۔ ’’بسم اللہ الرحمن الرحیم ، یہ وہ امان نامہ ہے جو اللہ کے بندے عمرامیرالمومنین نے ایلیا (بیت المقدس) کے باشندوں کودیاہے ۔انہیں ان کی جانوں ، ان کے مال ، ان کے کلیسائوں ، ان کی صلیبوں کوتحفظ دیاہے۔ ان کے کلیسائوں میں کوئی نہیں رہے گا اور نہ ہی اس کو گرایا جائے گا ۔ ان کے کلیسائوں میں کوئی کمی کی جائے گی اور نہ ان کے مال میں کوئی کمی کی جائے گی ۔ان کے دین میں ان پر کوئی زبردستی نہیں کی جائے گی نہ ہی ان میں سے کسی کوتکلیف پہنچائی جائے گی۔اس تحریر پر گواہ ہیں خالد بن ولید، عمروبن العاص،عبدالرحمن بن عوف اور معاویہ بن ابی سفیان رضی اللہ عنہم ، جو کہ سنہ ۵۱ہجری میں لکھا گیا''۔اقلیتوں سے اس معاہدے میںسب سے مقدم امر یہ تھا کہ ان کی جان ، مال اور عزت کو مسلمانوں کی جان ومال کے برابر قرار دیاگیاتھا۔ یعنی اگر کوئی مسلمان کسی ذمی کوناحق قتل کرتا ہے تو حضرت عمرؓؓاس کے بدلے مسلمان قاتل سے قصاص لیتے تھے۔