جارج آرول کی سیاست کے بارے میں کہی ہوئی یہ بات بہت مشہور ہے کہ: political language is designed to make lies sound truthful and murder respectable. سیاست کی زبان کو اس طرح سے اختراع کیا جاتا ہے کہ جھوٹ پر سچ کا گمان گزرے اور قتل معتبر لگے‘ اسی طرح ایک صاحب امریکی دانشور ہیں انہوں نے بھی کمال بات کی اور کہا ’’اگر عوام حکومت سے جھوٹ بولیں تو یہ مس کنڈیکٹ اور جرم ہو گا تاہم اگر حکومت عوام سے جھوٹ بولے اسے ’’سیاست‘‘ کہا جائے گا‘‘ امریکی دانش گاہ سے درآمد کی گئی یہ دونوں باتیں‘ وطن عزیز کی سیاست کے حوالے سے کتنا بڑا سچ ہیں اگرچہ دنیا کے ہر مہذب ملک میں بھی‘ سیاست اور جھوٹ لازم و ملزوم ہیں لیکن یہاں پاکستان میں تو کاروبار سیاست جھوٹ پر ہی چلتا ہے۔وہ ترقی یافتہ ممالک جہاں عوام روٹی‘ کپڑا مکان ‘ تعلیم دوا اور امن عامہ کے بنیادی مسئلوں میں نہیں الجھے ہوئے۔ جہاں ادارے مضبوط ہیں قانون کی چھتری کے نیچے سب برابر اپنے حصے کا کام اپنے دائرہ کار میں کر رہے ہیں‘ وہاں سیاست کے محاذ پر بولا جانے والا جھوٹ عوام کو متاثر بھی نہیں کرتا۔ ہمارے ہاں مگر معاملہ اس کے برعکس ہے۔ یہاں جھوٹ در جھوٹ سیاست کا براہ راست نشانہ عوام بنتے ہیں۔ بنیادی مسئلے عوام کے ابھی حل طلب ہیں۔ سو اپنے مسئلوں کے حل کے لئے عوام سیاستدانوں کے جھوٹے وعدوں اور کھوکھلے دعوئوں پر یقین کر لیتے ہیں صرف اس آس میں کہ شاید حالات بدل جائیں۔ الیکشن مہم میں سیاستدان عوامی جلسوں میں اپنی تقریروں میں صرف جھوٹ بولتے اور عوام بے چارے اس جھوٹ اور اس فریب پر یقین لے آتے ہیں: آواز دے کہ چھپ گئی ہر بار زندگی ہم ایسے سادہ دل تھے ہر بار آ گئے الیکشن کے بعد حکومتیں بنتی ہیں۔ عوام کی امیدیں سر اٹھانے لگتی ہیں تو کبھی انہیں یہ کہہ کر بہلایا جاتا ہے کہ بس ہمیں 3ماہ کا وقت دے دیں۔ کبھی چھ ماہ کا وقت مانگ کر عوام کی حالت بدلنے کے دعوے کئے جاتے ہیں۔ مگر یہ دعوے محض دعوے ہی رہتے ہیں اور حقیقت اس کے برعکس ہوتی ہے۔ مہنگائی کے جن کو عوام کا خون پینے کے لئے کھلا چھوڑ دیا جاتا ہے گیس ‘بجلی ‘ پٹرول کی قیمتیں بڑھا کر عوام کو ادھ موا کرنے والے وہی لوگ ہیں جو اپوزیشن میں تھے تو عوام کے مسائل پر کڑھتے اور عوام کے دکھ میں گھلتے تھے۔ کم از کم ان کی تقریروں اور نعروں سے تو یہی لگتا تھا۔ لیکن اب کھلا کہ بابا وہ سب کہانیاں تھیں! اور کہانیاں ہی جھوٹ! سرشام ہی ٹی وی چینلوں کے تھڑوں پر تینوں بڑی سیاسی جماعتوں کے تعلق رکھنے والے سیاستدان ٹی وی سکرینوں پر آ کر اپنے اپنے مفاد کے مطابق جھوٹ بولتے ہیں۔ جس روانی ‘ سہولت اور ڈھٹائی کے ساتھ پیپلز پارٹی والے جھوٹ بولتے نظر آتے ہیں اس کی تو مثال ہی نہیں ملتی ابھی کل ایک پروگرام میں شہلا رضا فرما رہی تھیں کہ پیپلز پارٹی کے دور میں سندھ میں مثالی ترقی ہوئی۔‘‘ اس پر مزید جھوٹ کا تڑکا یوں لگایا کہ پیپلز پارٹی نے تھر کی خوشحالی اور ترقی کے لئے کئی منصوبے مکمل کئے۔ پھر جب اس جھوٹ سے بھی ان کی تسلی نہیں ہوئی تو محترمہ بڑی دور کی کوڑی لائیں اور بے مثال ڈھٹائی سے بولیں۔ تھر میں مٹھی ہسپتال ایک مثالی ہسپتال ہے علاج معالجہ کی جدید سہولتوں سے آراستہ! اب ایسے سفید جھوٹ سن کر آپ کو ہنسی آئے رونا آئے یا پھر دکھ ہو۔ یہ آپ کی اپنی مرضی ہے۔ جو جی چاہے حسب توفیق کیجیے! تھر ‘ قحط موت اور بیماری کا گھر ہے۔ ’’جدید سہولتوں سے آراستہ‘‘ مٹھی کے ہسپتال میں روزانہ کی بنیاد پر بچے مر رہے ہیں۔ یہ محض اتفاق ہے کہ ادھر شہلا رضا تھر اور مٹھی کی مثالی ترقی پر گل افشانی کرتی ہیں اور ادھر سپریم کورٹ کے جج جسٹس گلزار احمد سندھ حکومت پر برہمی کا اظہار کرتے ہیں کہ 105ارب روپے خرچ کر دیے گئے مگر تھر والوں کو ایک گلاس صاف پانی کا نہیں ملا۔ تھر کول اتھارٹی تھر سپیشل انیشیٹوڈیپارٹمنٹ اور موبائل پر ایمرجنسی یونٹ کے نام پر سندھ حکومت نے اربوں روپے کی کرپشن کی۔ یہ سارے پراجیکٹ جھوٹ کے پلندے صرف فائلوں تک محدود رہے اور حقیقت میں تھری قحط زدہ‘ پیاسے‘ ان کے بچے صحت اور غذائیت سے محروم ان کی نحیف اور کمزور مائیں۔ قبریں بھرنے کے لئے بیمار اور نحیف بچے پیدا کرتی ہیں جبکہ اس بڑے انسانی المیے پر سندھ سرکار کی بے حسی اور لاپرواہی ساری دنیا کو دکھائی دے جاتی ہے۔ نہیں نظر آتی تو شہلا بی بی کو نظر نہیں آتی جنہیں مٹھی کا ہسپتال مثالی دکھائی دیتا ہے۔ ناجانے ہمارے سیاستدان اتنے بڑے بڑے سفید جھوٹ بائی ڈیفالٹ بولتے ہیں یا ان کی کوئی خاص ٹریننگ کی جاتی ہے۔ سیاہ کو سفید کہتے۔ غربت اور بدحالی کو مثالی ترقی اور خوشحالی سے تعبیر کرتے ہیں۔ نہ جانے اتنا جھوٹ بول کر ان کے ضمیر پر کوئی بوجھ بھی پڑتا ہے یا نہیں۔ ویسے جس ڈھٹائی سے سیاستدان جھوٹ بولتے ہیں اس سے تو اندازہ ہوتا ہے کہ ضمیر نامی کوئی شے ان کے احساس میں نہیں پائی جاتی۔ واشنگٹن پوسٹ میں ایک مضمون پڑھا جس میں مضمون نگار نے لکھا کہ ہیلری کلنٹن نے ایک بار تسلیم کیا تھا کہ انہیں کئی بار اپنے ضمیر کے برخلاف سیاست میں جھوٹ بولنا پڑا کہ موقع محل کی مناسبت سے جھوٹ بولنا سیاستدانوں کی مجبوری ہوتی ہے۔ چلیے مان لیجیے کبھی کسی سیاسی اور سماجی مجبوری کی وجہ سے جھوٹ بھی بولنا پڑ سکتا ہے۔ پورا سچ تو شاید کوئی بھی نہیں بول پاتا لیکن اس کا مطلب یہ بھی نہیں پورا جھوٹ بولا جائے۔ ہماری سیاست اس لئے بدبودار ہوتی جا رہی ہے کہ یہاں سیاست سے ہی جھوٹ کا دوسرا نام! انتخابات میں پینتیس پنکچر کا الزام لگا کر دھرنے دینے والے ہمارے وزیر اعظم نے بعدمیں بڑی سہولت سے کہہ دیا تھا کہ یہ ایک سیاسی بیان تھا۔ یعنی سیدھے سیدھے الفاظ میں یہ ایک سیاسی جھوٹ تھا۔ خیر ان کے کریڈٹ پر تو ایک طویل فہرست موجود ہے جسے آپ جھوٹے بیانات کہیں۔ یوٹرن کہہ لیں یا پھر طرز سیاست کہہ لیں۔ آپ کی اپنی مرضی اور منشا ہے۔ سیاست یہی ہے کہ بیانات کچھ ہوں۔ عمل کچھ ہو۔ شور مچاتے رہیں کہ این آر او نہیں دیں گے۔ ڈیل نہیں ہو گی لیکن عملی طور پر اس کے برعکس ہوتا رہے۔ ملک ریاض 460ارب روپے کی ڈیل کر کے کلین چٹ حاصل کر لیں۔ بے گناہوں کا قاتل عابد باکسر مقدمات میں بری ہو جائے۔ شہباز شریف کا نام ای سی ایل سے خارج ہو جائے اور نواز شریف پہلے مرحلے میں ضمانت پر رہا ہو جائیں۔ بیانات میں آپ شور مچاتے رہیں کہ قانون سب کے لئے برابر ہے۔ کسی صورت ڈیل نہیں ہو گی۔ اسی جھوٹ کا نام سیاست ہے۔