اگرچہ اس میں کوئی ابہام نہیں کہ بھارت نت نئے زہریلے حربے استعمال کررہاہے جو اہل کشمیر کا دردبڑھانے اوران کی جبیں ہمت کوشکست دینے کے لئے سوچی سمجھی سازش کا حصہ ہے۔لیکن کشمیرکی تاریخ شاہدو عادل ہے کہ ملت اسلامیہ کشمیر نے آج تک اپنے خلاف کئے جانے والے بہت سارے خون آشام آپریشنز کے درمیان خود کو نہایت صبروثبات کے ساتھ حالات سے سمجھوتہ کر نے کے مظاہرہ کیا۔کشمیر کے جبیں ہمت اوربہادرعوام کوقدم قدم پہ قابض بھارت کی جانب سے یکے بعد دیگرے لاینحل بحرانوں اور ٹھوکروں کاسامنا ہے کہ جو ختم ہونے کانام نہیں لے رہے ۔ مگرچٹان کی طرح اپنے موقف پرڈٹے ہوئے کشمیری بھارت کے چانکیہ پالیسی سازوں کوسرپیٹنے پرمجبورکررہے ہیں۔ اس لئے ظالم وجابربھارت کی طرف سے جیلوں کے اندرقید جبیں ہمت کوجھکایا نہیں جاسکتا۔بلاشبہ تہاڑ جیل سے جموں کی مختلف جیلوںمیں قیدکشمیری اسیران کے ساتھ جوانسانیت سوزسلوک روارکھاجارہاہے مظالم کی دنیا کی یہ کر یہہ صورت داستان ہے کہ جو آزادی کی تحریک جاری رکھے ہوئے کشمیری عوام کا سکھ چین چھین رہی ہے۔ بھارتی جیلوں میں دردوالم کی تصویربنے ہوئے کشمیری اسیران کودیکھ کرگمان گذرتاہے کہ یہ اکیسویں صدی میں نہیں بلکہ پتھرکا زمانہ ہے ۔ یہ بھارت کے جمہوری چہرے پہ طمانچہ ہے۔اگرچہ گوانتاناموبے میں قائم بدترین امریکی تعذیب خانے کانام ہے کہ جو 2001 میں امریکہ کی طرف سے افغانستان پر جارحیت کے بعدقائم کیاگیااوردنیاپھر سے مسلمانوں کولالاکے یہاں شرمناک طریقوں سے بدترین تشدد کانشانہ بنایا جاتارہاجس پرپوری دنیامیں ایک ہلچل پیداہوئی اوراس کوبندکرنے کے لئے زوردارصدائیں بلندہوئیں۔تاہم بھارت کی طرف سے گوانتاناموبے کی طرزپر دہلی کی تہاڑجیل سے لیکرجموں کی امپھالہ جیل ،ہیرانگرجیل ،کوٹ بلوال جیل اورکٹھوعہ جیل اورکئی تعذیب خانوں کی طرف کسی کی کوئی توجہ ہے اورنہ کوئی شنوائی ۔دہلی اوربھارت کی مختلف ریاستوں اور مقبوضہ جموں وکشمیر میںقائم ایسی جیلوں میں کشمیری اسیران کوبرس ہابرس زیرتعذیب رکھا جاتاہے اوران کے ساتھ انسانیت سوزسلوک روا رکھا جارہاہے۔ گوانتا ناموبے کی طرز پر ان جیلوں میں پابندسلاسل کشمیری نوجوان کی روح فرسا اور شرمناک کہانیاں عالمی ضمیرکی توجہ اپنی طرف مبذول کرانے کے لئے پیچ وتاب کھارہی ہے۔اسیران کشمیری کی تشدد زدہ دردناک کہانیوں کے اقتباسات انسانیت کو شرمسار کررہے ہیں اور ہرصاحب ضمیر کے ضمیرپردستک دے رہے ہیں۔ بدنام زمانہ دہلی کی تہاڑ جیل،بھارتی ریاستوں میں قائم اذیت خانے اورسرزمین جموں و کشمیر پر موجودبھارتی عقوبت خانوں میں لاتعدادکشمیری نوجوان مقیدہیںکہ جن کے ساتھ جانوروں سے بھی بدترسلوک روارکھاجارہاہے ۔ان اوچھے ہتھکنڈوں اورمختلف الجہات کی زور و زبردستی کاواحد مقصد نفسیاتی طور پر اسیران کشمیرکوہراسان کیاجاناہے تاکہ وہ ہمت ہاربیٹھیں اورکشمیرپرجابرانہ تسلط کوبسروچشم قبول کرنے پرآمادہ ہوجائیں۔لیکن تاریخ بتاتی ہے کہ دور وحشت کی آغوش میں جنم لینے والا انسان اپنی بقا کی جنگ میں طاقتور ہوتا ہے۔ سچ پوچھیں اسیران کشمیر،زندہ لاشیں ہیں اور انہیں حاصل حقوق کے حوالے سے عالمی قوانین کی دھجیاں بکھیرکررکھ دی جاتی ہیں۔سری نگرہائی کورٹ بارکے صدر میاں عبدا لقیوم ،حقوق البشرکی مقامی تنظیم اور (APDP)کے صدر پرویز امروز کے دفاترمیں فائلیں اٹی پڑی ہیں کہ جن میں درج ہے کہ کشمیرکے کتنے نوجوان بے جرمی کی پاداش میں مختلف عقوبت خانوں میںمسلسل پڑے ہوئے ہیں اورانکی رہائی کی طرف کوئی التفات ہی نہیں۔ وادی کشمیرسے سینکڑوں میل دور جموں کی جیلوں،دہلی کی تہاڑ جیل اوربھارت کی مختلف ریاستوں میں قائم تعذیب خانوں میں رکھے گئے کشمیری نوجوانوں کی ایک بڑی تعدادہے۔ ایسے بھی ہیںکہ جن کے تمام فرضی کیسوں کی ضمانت ہوچکی ہے، البتہ انہیں پھر بھی رہا نہیں کیا جارہا ہے اور انہیں نظربندی کے نام پر حبسِ بے جا میں رکھا گیا ہے۔ جن قیدیوں کے کیس عدالتوں میں زیرِ سماعت ہیں، انہیں اکثر اوقات تاریخ پیشی پر حاضر نہیں کیا جاتا ہے اور اس طرح سے ان کی غیر قانونی نظربندی کو طول دیا جارہا ہے۔اسے قبل بھی میں شہادتوں کی بنیادپرمیں یہ لکھ چکاہوں کہ بھارتی جیلوں میں ایسے کشمیری بزرگ بھی بلاجرم مقید ہیں، جن کی عمر 60سے 70سال ہے اور وہ پیرانہ سالی کی وجہ سے اکثر بیمار رہتے ہیں۔ قیدی بنائے جانے والوں میں ایسے بھی ہیں کہ جن کی عمریں ابھی 25برس سے زائد نہیں ۔بلالحاظ عمروجنس ان تمام کشمیری قیدیوں کو حراست کے دوران انتقام گیری کا نشانہ بنایا جارہا ہے اور انہیں ہر ممکن طریقے سے تنگ اور ہراساں کیا جاتا ہے۔ جیلوں میں قیدیوں کو جو غذائیں فراہم کی جاتی ہیں، وہ غیر معیاری ہوتی ہیں۔ بیمار قیدیوں کے علاج ومعالجے کے لیے بھی کوئی مناسب انتظام دستیاب نہیں ہے اور معیاری ادویات بھی میسر نہیں ہیں۔ المیہ یہ ہے کہ کشمیرکی صنف نازک پرکوئی رحم نہیں کھایاجاتا۔دختران ملت کی چیئرپرسن آسیہ اندرابی اورانکی ساتھی خواتین ناہیدہ نصرین اورفہمیدہ صوفی بھی جیل میں زیرتعذیب ہیں اورانکی صحت کے حوالے سے تشویشناک خبریں موصول ہورہی ہیں۔واضح رہے کہ جولائی 2018کو دختران ملت کی سربراہ محترمہ آسیہ اندرابی کو اپنی تنظیمی رفقا ناہیدہ نسرین اور فہمیدہ صوفی کے ہمراہ بھارتی ایجنسی( NIA)نے ایک فرضی اورجھوٹے کیس میں گرفتارکیاہے جبکہ اس سے قبل بھی انہیں گرفتار کیاگیاتھااورمئی 2018میںانہیں رہائی مل گئی تھی ۔ بھارتی جیلوں میں پابندسلاسل اورپابہ زنجیرکشمیری قیدیوںکے ساتھ روارکھے جانے والے انسانیت سوزسلوک جہاں بھارتی استبدادی چہرے کوبے نقاب کرتاہے،وہیںبھارت کی جیلوں میں بند کشمیریوں کے ساتھ روا رکھے جارہے جابرانہ ،ظالمانہ اورپرتشدانہ سلوک دنیامیں انسانی حقوق کے لئے کام کرنے والے اداروں کے لیے ایک لمحہ فکریہ ہے۔بین الاقوامی تنظیموں خاص کر اقوامِ متحدہ انسانی حقوق کمیشن، ایشیا واچ اور ایمنسٹی انٹرنیشنل کی یہ منصبی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ مختلف جیلوں میںبندکشمیری محبوسین کی زندگیوں کی سلامتی کو یقینی بنائیں اور زخمیوں کے خاطرخواہ علاج ومعالجے کے لیے انتظامیہ کوپابند بنائیں۔کشمیری قیدیوں کو محض سیاسی انتقام گیری کے تحت سری نگرسے نکال کرجموں اور بھارت کی جیلوں میں منتقل کیا جاتا ہے۔اس میں کوئی دورائے نہیں کہ بھارت کے حکمران اخلاقی اقدار کھو چکے ہیں اور اسی لیے وہ نہتے محبوسین اور تحریک آزادی کشمیرکے متوالوں پر اوچھے اور غیر انسانی سلوک روارکھتے ہیں۔ اسیران کشمیرکے حوالے روارکھے جانے والے سلوک سے ہر سنجیدہ فکر شہری کو دہلا کے رکھ دیا، کہ اکیسویں صدی کے اس دور میں ، جب ہم تہذیب و ترقی کے ساتویں آسمان کو چھونے کے دعوے کر رہے ہیں، کیا ایسا ممکن ہوسکتا ہے؟۔ یہ بات بتانے کی شاید ہی ضرورت ہو کہ کسی کے قید ہونے سے اسکے شہری اور بنیادی حقوق متاثر نہیں ہوتے ۔عالمی قوانین کی مختلف دفعات کے تحت عام لوگوں کو جو حقوق حاصل ہیں وہ نظر بندوں، زیر سماعت قیدیوں اور سزا یافتہ افراد کو بھی میسر رہتے ہیں اور اس میں کسی قسم کا دست و برد حقوق انسانی کی پامالیوں میں شمار ہوتا ہے۔ قیدیوں کے حقوق کے حوالے سے بین الاقوامی کنوینشن اور اقوام متحدہ کی ہدایات بھی یہی ہیں۔ ان قوانین کے تحت اس بات کی وضاحت موجود ہے کہ جیل خانہ جات میں قیدیوں کے سدھار اور بحالی پر توجہ مرکوز رہنی چاہئے نہ کہ سزا و تشدد کا وطیرہ اختیار کیا جائے۔ لیکن جب کشمیری اسیران کامعاملہ درپیش ہوتو یہاں الٹی گنگابہتی ہے۔ اگر چہ سری نگرہائی کورٹ نے متعدد مرتبہ جھوٹے مقدمات کی سماعت کے دوران حکومت پر نہ صرف جیلوں کے اندر انسانی حقوق کے احترام کو ممکن بنانے پر زور دیا بلکہ اس حوالے سے پامالیوں کے مرتکب اہلکاروںکے خلا ف کاروائی کرنے پربھی زور دیاہے ۔ جبکہ جیلوں کے صورتحال اور قیدیوں کے حالات پر نظر رکھنے کے لئے کہا ہے۔لیکن اس کے باوجودکشمیرکے اندراوربیرون کشمیربھارتی جیلوں میںکشمیری قیدیوں پرظلم وستم جاری ہے ۔آئے روز جیلوں کے اندراسیران کشمیرکو ذہنی اور جسمانی تشدد سے گزاراجارہاہے لیکن عالمی سطح پرکبھی بھی زورداراندازمیںان کا سنجیدہ نوٹس نہیں لیا گیا۔