آئی ایم ایف کی سربراہ سے کامیاب مذاکرات کر کے وزیر اعظم فاتحانہ وطن لوٹے تو حاسدین تکلیف میں مبتلا ہو گئے اور اس بات پر تنقید شروع کر دی کہ وزیر اعظم کیوں ملے، آج تک کوئی وزیر اعظم ایسے مذاکرات کے لیے نہیں گیا، خان صاحب نے جا کر اس طرح ملاقات کر کے ملک کی سبکی کرا دی ہے۔ سبکی کہاں بھلے لوگوں، وطن کی شان بلند کرائی ہے۔ دیکھتے ہیں دنیا بھر میں ہمارے وطن کی کیسی مشہوری ہوئی ہے۔ کم و بیش سارے ہی عالمی اخبارات نے ’’مانو یا نہ مانو‘‘(Believe it not)کے انداز میں یہ خبر چھاپی کہ پہلی بار کوئی وزیر اعظم آئی ایم ایف کے سربراہ سے ملنے پہنچا۔ اگر مذاکرات معمول کے مطابق ہوتے تو بھلا یہ خبر اس طرح عالمگیر بنتی؟ ملک کی اتنی مشہوری ہو پاتی؟ ٭٭٭٭٭ یہ مذاکرات دبئی میں ہوئے جہاں عالمی گورنمنٹ سمٹ ہوئی تھی۔ سمٹ سے خطاب کرتے ہوئے وزیر اعظم نے عالمی برادری کو بتایا کہ کرکٹ کیا ہوتی ہے اور کرکٹ میں آسٹریلیا کو کیا مقام حاصل ہے۔ انہوں نے 92کے ورلڈ کپ کا ذکر بھی کیا اور حاضرین کو یقین دلایا کہ وہ(یعنی خان صاحب) کرکٹ کے اسرارورموز، علیہ و ماعلیہ کو خوب اچھی طرح سمجھتے ہیں۔ عالمی سمٹ کے شرکاء اس بصیرت افروز تجزئیے سے بے حد متاثر ہوئے۔ یوں پاکستان کی شان بڑھانے کی ایک اور مثال قائم ہوئی۔ وزیر اعظم پاکستان لبنان کے وزیر اعظم سعد الحریری سے بھی ملے اور انہیں انتباہی قسم کا شکوہ کیا کہ ہمارے ملک میں ایک بار پھر شریف فیملی سے این آر او کی بازگشت سنی جا رہی ہے۔ حریری خان صاحب کا ایمانیہ سمجھ گئے اور کانوں کو ہاتھ لگا کر بولے، اب کی بار ایسی غلطی نہیں ہو گی۔ وزیر اعظم نے بعد ازاں بتایا کہ حریری اس سے پہلے والے این آر او پر ابھی تک پچھتا رہے ہیں۔ یہ ملک کی خدمت تھی۔ وزیر اعظم حریری سے یہ انتباہی ملاقات نہ کرتے تو کیا پتہ اس دوران کوئی این آر او ہو ہی جاتا۔ ملک کو یوں ایک بڑی تباہی سے بچا لیا۔ دور اندیش وزیر اعظم نے یوں ملک کی بہتری خدمت بھی اس ایک روزہ کانفرنس میں کر ڈالی۔ دن ایک، خدمات تین تین۔ ٭٭٭٭٭ یہ پہلے والا این آر او سعد الحریری نے نہیں کرایا تھا، ہاں ان کے والد مرحوم کا سعودی عرب سے رابطہ ضرور تھا جس پر این آر او ہوا۔ چنانچہ سعد الحریری کو پچھتانے کی ضرورت نہیں تھی، پھر بھی وہ پچھتائے تو یہ ان کی فراخدلی ہے۔ یہ این آر او کسی مالی معاملے پر نہیں ہوا تھا البتہ اس کے بدلے میں پاکستان کو سعودی عرب سے خطیر مالی امداد ضرور ملی، نقد بھی اور تیل کی شکل میں بھی۔ اب اگر سعودی عرب کو احساس ہوا ہے کہ یہ رقم ضائع گئی۔ شریف خاندان اس قابل نہیں تھا کہ اس پر اتنا سرمایہ لگایا جاتا تو پچھتاوا سعودی عرب کو ہونا چاہیے تھا۔ ہو سکتا ہے، یمن اور دیگر امور میں مصروف رہنے کی وجہ سے اس نے پچھتانے کی ذمہ داری حریری کے سپرد کر دی ہو اور حریری سعودی عرب کے ’’بی ھاف‘‘ پر پچھتائے ہوں۔ یوں اسے پراکسی پچھتاوا بھی کہا جا سکتا ہے۔ اس این آر او کا قصہ تھا کہ نواز شریف نے بطور وزیر اعظم ایک مسافر طیارہ اغوا کیا تھا جس میں مشرف بھی سوار تھے۔ ہائی جیکر کو عدالت نے ’’آزادانہ‘‘ سماعت کے بعد عمر قید کی سزا سنا دی۔ سعودی عرب نے نقدی بڑھائی اور عمر قید کے قیدی کو چھڑا کر لے گیا۔ اس سارے قصے کا حاصل وصول بس یہی تھا کہ پاکستان کی خالی جھولی ارب ھا ریال سے بھر گئی۔ خان صاحب کو اس کا برحق رنج ہے۔ ٭٭٭٭٭ ہفتہ بھر پہلے جب گیس کے چار چار پانچ پانچ بلکہ بہتوں کے ہاں تو دس دس گنا بل آئے تو سبھی ’’بل بلا‘‘ اٹھے۔ غل کی لے زیادہ ہی اونچی ہوئی تو مصاحبین نے خان صاحب کو بھی آگاہ کیا۔ اس پر یہ خبر آئی کہ خان صاحب نے گیس کی ’’اووربلنگ‘‘ کا نوٹس لے لیا ہے اور امید ہے داد رسی ہوئی۔ پھر ہفتہ یونہی گزر گیا اور نوٹس یا دادرسی کے حوالے سے کوئی خبر نہ آئی۔ دبئی سے واپسی پر خان صاحب نے یہ نوٹس والا اجلاس طلب کر لیا۔ سب کی نظریں ٹی وی پر لگ گئیں، دیکھئے، کیا خبر آتی ہے اور خبر آ گئی، رات کی شروعات ہی میں ٹکر چلے کہ وزیر اعظم نے کہا ہے، سابقہ حکومت نے اتنی لوٹ مار کر دی تھی کہ گیس مہنگی نہ کرتے تو گیس کمپنیاں بند ہو جاتیں۔ لیجئے صاحب، قصبہ ہی تمام۔ گویا یہ اجلاس بس اس بات کو بتانے کے لیے بلایا گیا تھا کہ گیس کے نرخ بڑھانے کا فیصلہ برحق ہے۔ اس پر عمل واجب ہے۔ اتنی بات تو اجلاس بلائے بغیر بھی بتائی جا سکتی تھی۔ ویسے جس روز نوٹس لیا گیا تھا، کئی لوگ حیرت سے پوچھ رہے تھے کہ نرخ بڑھانے کا فیصلہ خود وزیر اعظم کے حکم پر ہوا تھا، پھر نوٹس کس کے خلاف لیا جائے گا۔ تحقیقات کی زد میں کون آئے گا۔ چلئے، یہ الجھن بھی دور ہو گئی۔ ایسا نہیں ہے کہ وزیر اعظم کو ’’غریبوں‘‘ کے دکھ تکلیف کا احساس نہیں ہے اور وہ انہیں کوئی ریلیف دینا نہیں چاہتے۔ دیکھئے، چند ایک غریب صنعت کاروں کے ذمے 2کھرب 5ارب روپے کے واجبات بمہ گیس بل یکسر معاف کر دیئے گئے ہیں۔ اس رقم کو دوسو پندرہ ارب بھی لکھا جا سکتا ہے اور عمرانی گنتی میں دو ہزار ڈیڑھ سو کروڑ بھی۔ معافی میں آٹھ سو پچاس کروڑ روپے شامل کر دیئے جاتے تو یہ پورے تین ہزار کروڑ روپے ہو جاتے یعنی بالکل اتنے ہی جتنے کہ نواز شریف نے چوری کی تھی۔ اس معاف کی گئی رقم کو ’’چوری معافی‘‘ نہیں کہا جا سکتا۔ گیس کی چوری تو بالکل نہیں کر سکتے، ہاں ’’بل‘‘ کی چوری کہنا ٹھیک ہے لیکن اب یہ ’’ریگولرائز‘‘ ہو گئی ہے، چوری نہیں رہی، عین قانونی بن گئی ہے۔ تبدیلی کا ایک نام ’’ریگولرائز‘‘ کرنا بھی ہے۔