سابق چیئرمین فیڈرل بورڈ آف ریونیو،شبّر زیدی عرصہ ہوا خبروں سے دور ہو گئے تھے، لیکن جناب فضل الرحمٰن صاحب ، حال مقیم عہدۂ صدارت پی ڈی ایم، انہیں کھینچ کھانچ کر خبروں میں لے آئے ہیں۔ پڑھنے والے کواس بات پر حیرت ہوئی ہو گی کہ میں نے فضل الرحمٰن صاحب کو’’ مولانا‘‘ کیوں نہیں لکھا۔ جو پروفیسر نوکری چھوڑ کر کاروبار میں کامیاب ہوجائے ، جو ڈاکٹر ی کا امتحان دے کر سول سروس میں آجائے اور جو جرنیل فوج سے ریٹائرمنٹ کے بعد سیاست کرنے لگے تو صاحبانِ غیرت و حمیت اپنے نام کے ساتھ گذشتہ سابقے اور لاحقے استعمال نہیں کیا کرتے ، جیسے صاحبزادہ یعقوب علی خان نے کبھی نام کے ساتھ لیفٹیننٹ جنرل نہیں لکھا۔ ایک تو اب ان کا اس شعبہ سے دور کا بھی واسطہ نہیں رہتا اور دوسرا وہ جس نئے شعبہ میں اب اپنی کارکردگی دکھا رہے ہوتے ہیں، اس کی داد و تحسین اور ذلت و رسوائی کا حق دار بھی ان کا موجودہ پیشہ اور شغل ہی ہوناچاہیے۔ چند سال پروفیسری کرنے والا اگر رسہ گیر اور اٹھائی گیرا بن جائے تو اسے پروفیسر اپنے نام کے ساتھ لکھ کر اس نیک شعبے کی بدنامی کرنے کا کوئی حق نہیں۔ فضل الرحمٰن صاحب یقینا اعلی دینی مدارس سے فارغ التحصیل ہیں اور ان جیسے ہزاروں ایسے ہیں جو مختلف نوکریوں اور کاروبار میں مصروف ہیں اور کبھی اس کا تذکرہ بھی نہیں کرتے ۔ اس لیئے کہ وہ خوب جانتے ہیں کہ ان کے کاروبار ی افعال و اعمال، ان کی دینی تعلیم کے لیئے بدنامی کا باعث بھی بن سکتے ہیں۔ فضل الرحمٰن صاحب کی بھی عمر بھر کی جدوجہد جمہوری پارلیمانی سیاست سے عبارت ہے، اور اس سیاست کا ان کے سابقہ علم اور اس علم کی اہم ذمہ داری اور اقامتِ دین سے دور کا واسطہ نہیںہے۔ فضل الرحمٰن صاحب کے ساتھ ’’مولانا‘‘ نہ لکھنے کی تازہ وجہ شبّر زیدی کے بارے میں انکا بیان ہے۔ انہوں نے شبّر زیدی سے ایک ایسی بات منسوب کر دی جو انہوں نے کی ہی نہیں تھی۔ لیکن چونکہ فضل الرحمٰن صاحب ’’کاروبارِ سیاست‘‘ کے دھنی ہیں،اس لیئے انہوں نے حسبِ منشاء و مرضی شبّر زیدی کے منہ میں پہلے یہ الفاظ ڈالے کہ شبّر زیدی نے کہا ہے کہ ’’وہ جب کسی بڑے پر ہاتھ ڈالنے لگتے تو عمران خان انہیں روک دیتے‘‘۔ یوں انہوں نے اپنی شعلہ بیانی سے شبّر زیدی صاحب کے بیان کو حکومت کے خلاف ایک چارج شیٹ بنا کر پیش کیا۔ ’’وہ بات سارے فسانے میں جس کا ذکر نہ تھا‘‘ زبان زدِ عام ہوئی تو شبّر زیدی کو براہِ راست آکر وضاحت کرنا پڑی۔ ایف بی آر کے اس سابقہ چیئرمین کی یہ گفتگو اس مملکتِ خداداد ِ پاکستان کے ’’نظام ہائے کار‘‘ پر ایک بسیط اور عمیق تبصرہ ہے اور اس بات کا اعلان بھی کہ پاکستان کوگذشتہ تیس سالوں کی حکومتوں نے پوری کوشش کر کے ایسے طاقتور طبقات ہاتھ میں یرغمال بنا دیا ہے، جن سے نجات بقول شبّر زیدی عمران خان جیسا ایماندار اور عدم مداخلت کا قائل وزیر اعظم ، فوج کے سربراہ کی مکمل تائید اور شبّر زیدی جیسے تجربہ کار اور کہنہ مشق شخص کی سربراہی بھی نہیں دلا سکی۔شبّر زیدی نے اپنے اس انٹرویو میں پاکستان کے متعلق ایک اصطلاح استعمال کی، "Elite Capture" یعنی اشرافیہ کا یرغمال۔ پاکستان ان طبقات کے ہاتھوں میں ایک بے بس اور مجبور شکار کی طرح مسلسل تڑپ رہا ہے اور یہ اس ملک کا خون نچوڑ کر اسے مزید تڑپتا ہوا دیکھتے ہیں اور اپنی اس کامیابی پر جشن مناتے ہیں۔ یہ اشرافیہ "Elite" کون ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جن میں سے ہر ایک شخص کے کئی چہرے اور کردار ہیں۔ان کے آکٹوپس کی طرح کئی ہاتھ ہیں۔ ایک شخص بیک وقت ممبر اسمبلی بھی ہے، بہت بڑے زرعی رقبے کامالک بھی ، کسی کاروبار کا تنہا مالک یا حصہ دار بھی ہے۔ وہ انجمنِ تاجران کا صدر یا کوئی عہدے دار بھی ہو سکتا ہے ۔ایسا ’’وسیع المشرب‘‘ کوئی ایک فرد نہیںبلکہ اس ملک میں ایسے چند ہزار اشخاص ہیں، جو مل کر اس ملک کی اشرافیہ بنتے ہیں۔ یہ اشرافیہ گذشتہ تیس سالوں میں پل کر ایک تنومند بیل کی طرح بن چکی ہے جو اپنے سینگوں پر ہر اس شخص کو اچھال کر رنگ سے باہر پھینک دیتی ہے جو اسے قابو کرنے آتا ہے۔ یہ وہ بدمست ہاتھی ہے کہ جب شبّر زیدی نے ان پر ایک معمولی سی شرط عائد کی کہ جو شخص بھی پچاس ہزار سے زیادہ کی شاپنگ کرے گا وہ شناختی کارڈ کی نقل فراہم کرے گا، تواس بدمست ہاتھی نے ساری حکومتی مشینری کو بے بس کر کے رکھ دیا۔ یہ وہی اشرافیہ ہے کہ جب پرویز مشرف نے فوج کے ذریعے 2001ء میں تمام کاروبار کو کتابی صورت (Bookish) بنانے کے لیئے سروے شروع کر دیا تو با وردی افسران کو ایسی مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا کہ سارا پروگرام واپس ہو گیا۔ یہ وہ اشرافیہ ہے کہ جب اور جس وقت چاہے پوری کی پوری حکومتی مشینری کو یرغمال بنا لیتی ہے۔ ایک دن کی آئل ٹینکروں کی ہڑتال ، چند دنوں کی فیکٹری کی بندش اور مارکیٹوں کی تالہ بندی پورے ملک کو بے بس کر کے رکھ دیتی ہے۔ اگرمعاملہ ہڑتالوں تک رہے تو شاید حکومتی مشینری عوام کے ساتھ مل کر اس اشرافیہ کا زور توڑ بھی سکے۔ لیکن انہوں نے چونکہ ایک خوفناک منصوبے کے تحت اس ملک کو یرغمال بنایا ہوا ہے اس لیئے ان کے سرمائے پر پلنے والی اس وقت کی اپوزیشن کی سیاسی پارٹیاں ان کی حمایت میں میدان میں اترتی ہیں اور انہی کے اپنے ملکیتی میڈیاہاوسز، دن رات حالات کی ایسی خوفناک منظر کشی کرتے ہیں کہ حکومتی مشینری کے پاؤں اکھڑ جاتے ہیں۔شبّر زیدی نے اسی بات کا ماتم کرتے ہوئے کہاکہ اخلاق سے تہی یہ سیاسی قیادتیں اور میڈیا ہاوسز ہی تو ہیں جنہوں نے مل کر ان کی ذات پر الزامات کا کیچڑ اچھالا،وہ پریشان حال رہنے لگے تو ان کی والدہ نے جب انہیں اسقدر پریشان دیکھا تو کہا کہ تم یہ سب چھوڑ کر واپس آجاؤ۔ پاکستان کا یہ اشرافیہ جسے گذشتہ تیس سالوں میں پال پوس کر موٹا کیا گیا ، اس نے اپنے مفادات کے لیئے پاکستان کی بیوروکریسی میں بھی اپنے پنجے مضبوط کیئے ہوئے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ جب بھی کوئی شخص عمران کی طرح مرّوجہ راستے کو بدلنا چاہتا ہے تو یہ ’’بابو‘‘ ذہنیت ’’بیوروکریسی‘‘ اس کے اس اقدام کے نتیجے میںپیدا ہونے والے حالات کی ایک ایسی خوفناک تصویر بنا کر پیش کرتی ہے کہ وہ شخص عوامی مشکلات کے طوفان سے ڈر جاتا ہے۔ یہ اشرافیہ مذہبی طبقے میں بھی اپنے راستے بنا چکا ہے۔ سود پر کاروبار کرکے یاسٹے بازی سے منافع کماکر تاجر اور صنعتکار بننے والے بیشتر حضرات مدارس کے بڑے بڑے فنانسر ہیں۔ ان کے ٹیکس چوری کے پیسوں سے مسجدوں میں ماربل کے فرش اور اے سی لگتے ہیں ،مدارس میں بچوں کے لنگر کا سلسلہ چلتا ہے،یہی وجہ ہے کہ جب کبھی بھی ضرورت آن پڑے تو منبر و محراب بھی ان کے حق میں آواز بلند کرتے ہیں اور وقت پڑے تو مذہبی جماعتیںایسی اپوزیشن کے بھان متی کے کنبے میں بھی شامل ہو جاتی ہیں جہاںسیکولر ، لبرل، ملحد اور کیمونسٹ سیاسی پارٹیاں شانہ بشانہ ہوں۔ شبّر زیدی تو عمران خان اور اسٹبلشمنٹ کی آشیرباد کے باوجود دلبرداشتہ اور خوفزدہ ہو کر ایف بی آر چھوڑ گیا۔ سوال یہ ہے کہ کیا یہ ملک زندگی بھر کے لیئے اشرافیہ کا یرغمال ہو چکا ہے۔ تاریخ کے تجربے کا جواب نفی میں ہے۔ تاریخ بتاتی ہے کہ جب بھی کوئی ملک اس طرح اشرافیہ کا یرغمال (Elite Capture) ہو جائے تو قدرت ستم رسیدوں کے کمزور ہاتھوں کو تلوار بنایا کرتی ہے۔ ایسی تلواریں جو ہر ایسے شخص کا بھی سر اڑا دیتی ہیں، جس نے کبھی اشرافیہ کے ان کے محلات کو ستائش کی نظر سے ہی دیکھا تھا۔ انقلابات کی تاریخ اٹھالیں، ہر اس ملک میں جو اشرافیہ کا یرغمال تھا، ایسا ہی ہوا تھا۔