ریاست جموں و کشمیر کی ملی، دینی ،عسکری ، سیاسی، علمی اور روحانی تاریخ میں ایسے گوہر نایاب نظر آتے ہیں جن کے تب وتاب سے ہر کشمیری کا سر فخر سے بلند ہو جاتا ہے۔عصرموجودمیں کشمیرکے سیاسی افق پرچھائی ہوئی ،کشمیرکازکے ساتھ والہانہ عقیدت اوربے پناہ محبت کی حامل ،شخصیات کا جب ذکرکیاجاتاہے تودیگرحضرات کے ساتھ ساتھ محمداشرف خان المعروف اشرف صحرائی اپنے جاندار کردار ، کشمیرکازسے نظریاتی پختگی ، علم و تجربہ ، فکر و دانش کی بنا پرانکی شخصیت ابھرکرسامنے آجاتی ہے۔ کشمیرکاز کے ساتھ بھرپورکمٹمنٹ ان کا مقصد حیات رہا ہے۔ خود ایک کارکن کی حیثیت سے عملی جدوجہد میںمظلوم کشمیریوں کی آوازبن گئے۔ مجموعی طورپر وہ ایک فرد نہیں بلکہ انجمن اور ادارہ کی حیثیت رکھتے تھے۔وہ اپنی سادگی ، ہمدردی ، اخلاص، مروت، معاف کرنے کے جذبے اور علم دوستی و نظریاتی تعلیم و تربیت میں یکتائے روزگار مرد کوہستانی تھے۔ ایک ہمہ جہت بلکہ شش جہت پہلو شخصیت تھے جن کے خمیر میں اسلام کا جذبہ صادق کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا تھا ۔ اشرف صحرائی کی فکر میں (Clarity)عمل میں( Maturity) خطابت میں سیف زبانی اور عقیدے میں مدحت نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تھی۔وہ کشمیرکے ان پاکبازاورپاک نفوس میں سے تھے کہ جن کے رگ و ریشے میں کازکی فکراس قدر حلول کرچکی تھی کہ جوانہیں ہمہ وقت بے چین، بے قرار اور برسر پیکار رکھتی تھی،وہ صف اول کے ان قائدین میں سے تھے کہ جنہیں انقلاب کے مفہوم، ماہیت، نفسیات، حدود اربعہ، اہمیت، اختتام، ثمرات اور اسکے تقاضوں کا ادراک تھا،بلاشبہ ان کی ساری کاوشیں، کوششیں اور جدوجہدخالص اور فی سبیل اللہ تھی۔محمداشرف صحرائی اپنے سکون کو تج کر اپنی قوم کی بھلائی کو مقدم رکھنے کے روادارتھے۔ وہ اپنے اندر ایک انجمن اورنوجوانان کشمیرکے دلوں کی دھڑکن تھا۔ ان کی آواز تکبیر مسلسل ہوتی تھی ۔کسی لیپاپوتی کے بجائے ہمہ جہت اور ہر محاذ پر جدوجہد اور ہمہ گیر تبدیلی ان کامطمع نظرتھا ۔وہ مشکلات کو سینے سے لگانے کا ہنر جانتے تھے۔اشرف صحرائی مقبوضہ کشمیر کے آبائی علاقہ ٹکی پورہ وادی لولاب ضلع کپوارہ سے تعلق رکھتے تھے اور وہ اپنے عہدشباب سے ہی سیدعلی گیلانی کے معتمداورمتحرک ساتھی رہے اورسیدعلی گیلانی پیارکے ساتھ انہیں ’’عشہ لالہ ‘‘کے نام سے پکاراکرتے تھے۔ اشرف صحرائی وہ پہلے کشمیری قائد تھے کہ جن کے اعلیٰ تعلیم یافتہ فرزندجنیدصحرائی 2019ء میںمجاہدین کی صف میں شامل ہوئے اور19مئی2020ء میں سری نگرکے علاقے ڈائون ٹائون میں قابض بھارتی فوج کے ساتھ ہوئے ایک طویل معرکے میںشہادت کارتبہ پاکرسرخروہوئے ۔اپنے بیٹے کی شہادت کے بعدصحرائی ابوشہید کہلاتے تھے۔12جولائی 2020ء میںانہیں بھارتی کالے قانون کے تحت گرفتارکیاگیااورادھم پور جیل جموں میں اسیربنادیاگیا۔صحت کوکئی عوارض لاحق ہونے کے باعث وہ جیل میں علیل رہے۔ 3مئی 2021ئب کوجیل حکام نے انہیں اسپتال منتقل کیا لیکن 5مئی 2021ء بدھ کو وہ 77 برس کی عمرمیںجموں کے اسپتال میں خودبھی شہیدہوگئے اوریوں اس حراستی قتل سے وہ ’’شہیدا سیر‘‘ کہلائے۔ عظیم کاروان کے عظیم راہی کا شہید بیٹا گھرسے بہت دوردفن تھاجبکہ عظیم والدبھی گھرسے سینکڑوں کلومیٹر دورشہیدہوئے۔انکے جسد خاکی کو5 مئی بدھ کی شام کوان کے آبائی گھرواقع ٹکی پورہ لولاب لایا گیا جسے بھارتی فوج نے پہلے سے ہی گھیرے میں لیاہواتھا۔علاقے کوفوجی حصار اورگھیرائوکے باعث خاندان اورچندقریبی رشتہ داروں علاوہ کسی کوبھی بھی ان کی نماز جنازہ اورتدفین میں شرکت کی اجازت نہیں دی گئی۔اناللہ واناالیہ راجعون۔ایک تحریک ،ایک تاریخ کاباب اختتام ہوا۔تاریخ لکھے گی کہ تحریک آزادی کشمیرکے یہ واحد قائدتھے کہ جن کابیٹا راہ حق میں شہیدہواپھرباپ بھی اسی راہ کی کلفتیں برداشت کرتے کرتے شہید ہوگئے۔ ایسانہیں اس دورمیں فقط نمرودکی چلتی ہے خلیل واسماعیل کی سنت بھی توزندہ ہے جن لوگوں کی زندگی کشمیرکازکے خارزار میں آبلہ پائی کرتے ہوئے گزری اشرف صحرائی ان میں صف اول کے مسافراورمنزل کے اولین راہی تھے۔محمد اشرف خان عرف صحرائی جماعت اسلامی کے سینئر ترین لیڈروں میں سے تھے اور سید گیلانی کے ساتھ انکی رفاقت عشروںپرمحیط تھی۔جہاد کشمیراورمجاہدین کابرملااورڈنکے کی چوٹ پرساتھ دینے کے معاملے پردونوں کا جماعت اسلامی جموں وکشمیر کی قیادت کے ساتھ اختلاف ہوا۔جماعت اسلامی جموں وکشمیر کی قیادت کوجہاد کشمیراورمجاہدین کا عملی ساتھ نبھانے میں تامل تھا۔جماعت اسلامی جموں وکشمیر کی قیادت دلیل پیش کررہی تھی کہ جہادکشمیرکاساتھ دے کرجماعت اسلامی کے اراکین چن چن کر شہیدکئے جارہے ہیں۔ اشرف صحرائی تحریک حریت کے سکریٹری جنرل منتخب ہوتے رہے جبکہ ایک انتخاب کے نتیجے میں بزرگ قائد سید علی شاہ گیلانی اس تنظیم کے تاحیات چیئرمین منتخب ہوئے ۔ 18مارچ 2018ء اتوارکو بزرگ قائدسیدعلی شاہ گیلانی نے ایک بڑے اور اچانک اٹھائے گئے اقدام کے تحت اپنے دیرینہ ساتھی اور اپنے معتمدخاص محمد اشرف صحرائی کواپنی جماعت’’تحریک حریت‘‘کا قائم مقام سربراہ بنادیا ۔اس فیصلے کی مذید تشریح کرتے ہوئے تاہم کہاگیاکہ تحریک حریت میں کمان تبدیل کرنے کے بعدبھی سیدعلی گیلانی حریت کانفرنس گیلانی کے بدستور چیئرمین رہیں گے۔ کمان کی تبدیلی کا اعلان ایک خاص تقریب پر کیا جانے والا تھا تاہم پولیس کی طرف سے سید گیلانی کے گھر اور دفتر کو گھیر لئے جانے اور بیشتر تنظیمی اراکین کے نظربند ہونے کی وجہ سے کمان کی تبدیلی ایک سادہ تقریب میں انجام دی گئی۔