یہ واقعہ بہت پرانا ہے۔ دھندلی دھندلی سی یادیں ہیں۔ کچھ حافظے میں محفوظ اور بہت کچھ نسیان کی نذر کہ یاد کروں بھی تو چند مناظر شعور کی سطح پر ابھر آتے ہیں، باقی دیگر تفصیلات کہاں گم ہو گئیں، عقل ان کے تجزیے سے عاجز و لاچار ہے۔ نصرت نصراللہ، بھاری جسم، بوٹا ساقد، گھنے بال سر پہ، گھنی بھنویں، یہ بڑی بڑی آنکھیں جو عینک کے عقب سے جھانکتی بے پروا لگتے تھے لیکن ایسا تھا نہیں۔زندگی نظم و ضبط اور پابندی اوقات سے عبارت تھی۔ لاپروائی کا تاثر اس لیے ملتا تھا کہ غیر روایتی اور غیر رسمی سے معاملات تھے۔ جن دنوں پی پی ایل میں منیجر تعلقات عامہ تھے، ان سے بغیر اطلاع دیئے ملنے جاتا تھا تو بے ساختہ پوچھ بیٹھتے تھے: ’’کیوں آئے ہو؟‘‘ بھلا اس کا کیا جواب دیتا۔ پہلی مرتبہ پوچھا تو ایک لمحے کے لیے تو میں سناٹے میں آ گیا۔ کیا کسی مہمان سے بھی یہ پوچھا جاتا ہے کہ وہ کیوں آیا ہے۔ بہت برا لگا، تہیہ کیا کہ اب آئندہ کبھی ان کے پاس نہ آئوں گا۔ لیکن پھر جو باتیں چھڑیں تو سارا گلہ جاتا رہا۔ اور پوچھنے کی وجہ یہ سمجھ میں آئی کہ اصل میں کہنا یہ چاہتے تھے کہ ’’آج کیوں آئے ہو، پہلے کیوں نہ آئے؟‘‘ ہاں وہ غیر رسمی مزاج رکھتے تھے۔ ایک ایسے آدمی کی طرح جس کی بابت کوئی پیش گوئی نہیں کی جا سکتی کہ کس وقت کیا کہہ بیٹھے گا۔ نصرت نصراللہ کراچی یونیورسٹی کے فرزند تھے۔انگریزی ادب میں ایم اے کیا، ساری زندگی انگریزی ہی کی روٹی توڑی۔ جب بھی لکھا انگریزی ہی میں لکھا لیکن انگریزی کو اپنے لیے فخر کا سرمایہ کبھی نہیں بنایا۔ گفتگو میں بھی انگریزی کے الفاظ کم کم ہی استعمال کرتے تھے۔ یہ ظاہر لبرل سے لگتے تھے لیکن مذہب اور دین کے معاملے میں سنجیدہ تھے اور مغرب زدہ گھرانے سے تعلق رکھنے کے باوجود خود اندر سے مذہبی تھے۔ ایک دن کہنے لگے: یہ سارے سیکولر اور لبرل لوگ ہیں، ان سب کو شوٹ کر دینا چاہیے۔ پھر سب کچھ ٹھیک ہو جائے گا ’’میں حیران ہوا، وہ اتنے کٹر ہوں گے، اندازہ نہ تھا، غالباً یونیورسٹی میں اسلامی جمعیت طلبہ سے متاثر تھے۔ طلبہ یونین کے انتخابات کے بعد یونین کونسل کے اسپیکر منتخب ہوئے تھے۔ بہ حیثیت اسپیکر کونسل کے اجلاس کی صدارت کرتے ایک تصویر یونین آفس میں آویزاں تھی اور میں بہت بعد میں یونیورسٹی آیا، تب تک یہ تصویر اسی طرح آویزاں رہی۔ سب کچھ ماضی بن گیا تھا۔ ان کے لیے صرف یادیں باقی رہ گئی تھیں۔ جنہوں نے یہاں اپنا وقت گزارا تھا۔ نصرت ماسٹرز کے بعد پیشۂ صحافت سے وابستہ ہو گئے۔ انگریزی ادب کی ڈگری کے بعد وہ یا تو کسی کالج یا یونیورسٹی میں استاد ہو جاتے یا پھر انگریزی صحافت کا رستہ دیکھتے۔ انہوں نے دوسرا شعبہ چنا۔ ’’مارننگ نیوز‘‘ میں لمبے عرصے تک کلچرل رپورٹر رہے۔ نئی فلموں، نئی کتابوں اور شہر کی ادبی علمی تقریبوں کو اپنی کلچرل ڈائری میں رقم کرتے رہے۔ میں جب ماسٹرز کر کے مجلاتی صحافت میں کچھ وقت گزار کر روزنامہ صحافت میں ’’جسارت‘‘ کے دروازے سے داخل ہوا اور محمد صلاح الدین صاحب کے اصرار پر مستقلاً کالم نویسی شروع کی تو یہ کالم نصرت نصراللہ کی نظروں سے بھی گزرے اور یوں ان سے رہ و رسم آشنائی کی صورت نکلی۔ انتقال سے بہت عرصہ پہلے ایک دن ٹی سی ایس سے ایک پیکٹ ملا۔ کھولا تو ایک چھوٹا سا رقعہ تھا اور میرے کالموں کے تراشے تھے۔ رقع میں لکھا تھا تمہارے یہ کالم جو مجھے پسند آئے تھے، میں نے انہیں محفوظ کر لیا تھا، اب تمہیں بھیج رہا ہوں شاید تمہارے کسی کام آ سکیں۔ ’’مارننگ نیوز‘‘ سے ان کی رفاقت کا زمانہ اچھا خاصا طویل رہا۔ پھر پاکستان پٹرولیم لمیٹڈ(پی پی ایل) میں منیجر تعلقات کی آسامی کا اشتہار آیا تو یہ امیدوار ہوئے اور اس عہدے کے لیے چن لیے گئے۔ کمپنی کو ایسا ہی لکھنے پڑھنے کا ذوق رکھنے والا ہینڈسم اور اسمارٹ آدمی چاہیے تھا۔ اس ملازمت سے زندگی میں آسانیاں پیدا ہو گئیں۔ موٹر سائیکل جسے وہ اپنی رپورٹنگ کے لیے سڑکوں پہ دوڑائے پھرتے تھے۔ بیچ ڈالی اور کار خرید لی۔ نیا اپارٹمنٹ رہائش کے لیے مل گیا۔بیوی ان کی ڈاکٹر تھیں۔ مزاج کی بہت اچھی، شوہر پر جان چھڑکنے والی۔ نصرت خود بھی بیگم پر فدا تھے۔ شاید اسی لیے پہلے بیگم دنیا سے گئیں اور سال بھر کی تنہائی کی اذیت سہہ کر خود بھی بیگم کے تعاقب میں روانہ ہو گئے۔ نصرت نصراللہ کا تذکرہ میرے لیے ایسا ہی ہے کہ ایک تیر میرے سینے میں مارا کہ ہائے ہائے۔ ہم جو کم و بیش پابندی سے ملتے تھے، ادب،سیاست، معاشرت اور جانے کن کن موضوعات پر باتیں کرتے تھے، میرے درس و تدریس سے وابستہ ہونے کے بعد ملاقاتوں میں کمی آتی گئی۔ میں اپنی دنیا میں اور وہ اپنی دنیا میں گم ہو گئے۔ رستے جدا ہو گئے تو پھر ملنا کہاں ہوتا اور کیسے ہوتا۔ انہوں نے بتایا کہ بہت شدید بیمار رہے، حملۂ قلب نے ہسپتال پہنچایا جہاں قلب آپریشن کے مرحلے سے گزرا۔ میں نے معذرت کی کہ علم نہ تھا ورنہ عیادت کے لیے ضرور حاضر ہوتا۔ آخری بار فون پہ ان سے بات ہوئی اور پھر ملنا نصیب نہ ہوسکا۔ اسے میں اپنی بدقسمتی نہ کہوں تو اور کیا کہوں کہ ان کے انتقال کا بروقت علم نہ ہو سکا۔ گزشتہ رات برادر مکرم نصیر احمد سلیمی صاحب نے ان کی رحلت کی افسوسناک اطلاع دی۔ یہ بھی بتایا کہ آپ کے اخبار میں سجاد میر صاحب ان پر تعزیتی کالم بھی لکھ چکے ہیں۔ نہ مجھے ان کی وفات کی خبر ملی اور نہ سجاد میر صاحب کا کالم ہی دیکھ سکا۔ سانحے کی اطلاع نے بے چین سا کر دیا۔ یہ ظاہر بے چینی اور افسوس کے کوئی معنی نہیں کہ ہم سب اسی کیو میں لگے منتظر ہیں کہ کب کس کا کس حال میں بلاوا آ جائے لیکن آدمی خداوند تعالیٰ سے کتنا ہی راضی بہ رضا ہو، وہ جو محبت کا ایک سمبندھ ہوتا ہے جس کے ساتھ یادوں کا میلہ لگا ہوتا ہے۔ وہ سب منظر بعد جدائی ایک ایک کر کے نگاہوں کے سامنے روشن ہوتے جاتے ہیں۔ سو یہ سانحہ بھی محبت میں بارہا گزرا کہ اس نے حال بھی پوچھا تو آنکھ بھر آئی آخری بات یہ کہ نصرت نصراللہ کو صحافت کی دنیا میں شہرت نہ مل سکی جس کے وہ بجا طور پر مستحق تھے۔ غالباً وجہ یہ تھی کہ وہ عمر بھر انگریزی میں لکھتے رہے اور انگریزی ہمارے ہاں طبقۂ اشرافیہ کی زبان ہے۔ بہت سے انگریزی کے عمدہ لکھنے والے مثلاً ابن الحسن، غازی صلاح الدین، ایاز امیر وغیرہ جنہوں نے انگریزی میں لکھا اور مشہور نہ ہو سکے اور جب وہ اردو اخبارات میں چھپنے لگے تو لوگوں میں پہچانے گئے۔ عزت بھی ملی شہرت بھی۔ نصرت نصراللہ اردو صحافت میں قسمت آزماتے تو صورت حال گمنامی کی ہرگز نہ ہوتی۔ البتہ انہیں اپنی گمنامی کا کوئی قلق نہ تھا ورنہ اس کا اظہار کبھی تو کرتے۔ وہ ان لوگوں میں سے تھے جنہیں اپنے لکھنے کے عمل ہی سے مسرت کشید کرنا آتا ہے۔ جو لکھ کر اور لکھنے کے بعد اپنے اندر طمانیت کا احساس پاتے ہیں اور اسی پر قانع ہو جاتے ہیں۔ اس معاملے میں وہ درویش صفت تھے۔ ایسے درویش اور صوفی مزاج لکھنے والے بھی ہمارے درمیان کہاں رہے؟ یہی بات افسردہ کر دینے والی ہے!