پاکستان کے غریب ،بے بس ،مظلوم لوگوں کے بال کی کھال بلکہ بال سمیت کھال نکالنے والی پاکستان کی پرائم سویلین انٹیلی جنس ایجنسی نے 25سال بعد انتہائی ڈھٹائی سے ایپکس کورٹ میں یہ اعترافی بیان جمع کرایا ہے کہ 25سال کی تفتیش کے بعد وہ اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ 1990ئکے انتخابات میں صدر غلام اسحاق خان کی ہدایت پر جنرل (ر)مرزا اسلم بیگ اور جنرل (ر) اسد درانی کے ’’سہولت کار‘‘ کے ذریعے جو کروڑوں روپے سیاستدانوں میں تقسیم کئے گئے ،اُس کے بارے میں وہ کسی قسم کا ثبوت حاصل کرنے میں ناکام رہی ہے اور اس بنا پر درخواست ہے کہ اس کیس کی فائل داخل دفتر کردی جائے ۔خیال تو یہی تھا اور یہ میں اس بنیاد پر کہہ رہا ہوںکہ اس عہدہ ٔ جلیلہ پر فائز ہونے کے بعد ہمارے محترم چیف جسٹس ثاقب نثار اور اُن کے برادر ججوں نے جس طرح بڑے بڑے مگر مچھوں کی چیخیں نکالی ہوئی ہیں اور جن کے سامنے جاتے ہوئے بڑے بڑے جغادری سویلین ،ملٹری بیوروکریٹس کپکپا رہے ہوتے ہیں۔ بد قسمتی سے وطن عزیز میں ہمارا حکمران طبقہ اور مقتدر ادارے ۔ ہمارے عوام ہی نہیں۔ سول سوسائٹی کے دانشوران کی بھی غریب یادداشت سے خوب خوب فائدہ اٹھا تے ہیں۔ ایف آئی اے کے افسران کا یہ کہنا کہ نہ کروڑوں روپے دینے والوں کے اعترافی بیان نہ لینے والوں ،کے معذرت کے ساتھ بازاری زبان میں دھول جھونکنے کے مترادف ہے۔بھلے اخباری فائلوں کو دیمک کھا گئی ہو ۔ پارلیمنٹ کے ریکارڈ میں تو یہ یقینا محفوظ ہوگا کہ پی پی کی دوسری حکومت میں اُس وقت کے وزیر داخلہ ریٹائرڈ جنرل نصیر اللہ خان بابر نے اُس وقت جرمنی میں پاکستان کے سفیر سابق آئی ایس آئی ،ایم آئی چیف کا دستاویزی بیان پیش کیا تھا جس میں انہوں نے اعتراف کیا تھا کہ انہیں اُس وقت کے آرمی چیف جنرل اسلم بیگ نے ذاتی حیثیت میں بُلا کر یہ حکم دیا تھا کہ اُس وقت کے صدر ِ مملکت غلام اسحاق خان کی یہ خواہش نہیں ،حکم ہے کہ پی پی مخالف اپوزیشن رہنماؤں میں اُن کی اہمیت اور حیثیت کے اعتبار سے اتنی خطیر رقم دی جائے کہ وہ پیپلز پارٹی کے نامز کردہ امیدوار وں کو شکست دے سکیں۔ مرحوم جنرل نصیر اللہ خان بابر کے اسمبلی فلور پر اس بیان نے سارے ملک میں ایک ہنگامہ برپا کردیا تھا کہ رقم وصول کرنے والے سیاستداں تو حسب روایت مُکر گئے ۔ مگر آرمی چیف ریٹائرڈ جنرل اسلم بیگ اور جنرل ریٹائر ڈ اسد درانی کے ساتھ ساتھ ہمارے انٹیلی جنس ایجنسیوں کے گاڈ فادر جنرل (ر) حمیدگل کے یہ اعترافی بیان اخبارات کی زینت بنے تھے۔کہ انہوں نے یہ سب قومی مفاد میںکیا تھا۔ کیوں کہ اُن کے مطابق پیپلز پارٹی کا بھاری اکثریت سے اقتدار میں آناسکیورٹی رسک کا باعث بنتا اورپھر اپنی دستاویز ات اور بیان کی بنیادپر poorریٹائرڈ ایئر مارشل اصغرخان نے اعلیٰ عدالت کے دروازے پر دستک دی۔ ریٹائرڈ ایئر مارشل اُس وقت بھی اپنی بزرگی اور بگڑتی صحت کے باوجود اسلام آباد کی اعلیٰ عدالت میں دھیمے دھیمے قدموں سے چلتے آئے۔اس کیس کو اپنے منطقی انجام تک پہنچانے کیلئے ہر پیشی پر حاضر ہوتے تھے۔مگر انہیں اور اُن کے وکلاء کو اگلی تاریخ دے دی جاتی۔مہینے اور برس نہیں دہائیاں گزر گئیں ۔مگر ایئر مارشل (ر) اصغر خان کی سنوائی نہیں ہوئی۔زیادہ دور نہیںجاؤں گا۔ ایئر مارشل (ر)اصغرخان کے گز ر جانے کے بعد جون 2018ئکے پہلے ہفتے میں جو اس کیس کی سماعت ہوئی اور سارے قومی اخبارات میں شہ سرخیوں سے جو خبریں شائع ہوئیں ذرا اس پر ایک نظر ڈال لیں۔ 15جون 2018ء کی خبر کے مطا بق اٹارنی جنرل سپریم کورٹ میں چیف جسٹس ثاقب نثار کی موجودگی میں 1990ئکے الیکشن میں آئی ایس آئی سے رقم وصول کرنے والوں کے نام بہ نام اور رقم کی وصولی کا بتارہے تھے ۔ اتنی سنگین نوعیت کے مقدمے کے بارے میں بینچ میں اس وقت صورتحال بڑی دلچسپ ہوجاتی جب اٹارنی جنرل اشتر اوصاف علی جب ایک نام لیتے تو فوراً ہی چیف جسٹس کے ریمارکس سامنے آتے۔اٹارنی جنرل نے پہلا نام وزیر اعظم میاں نواز شریف کا لیا ۔ جن پر 35لاکھ روپے لینے کا الزام ہے۔اور پھر خود ہی وضاحت کی کہ نیب کیس میں حاضری کے سبب غیر حاضر ہیں۔چیف جسٹس کا جواب تھا اگلی پیشی میں حاضری لازمی بنائی جائے۔جتوئی 50لاکھ ۔ اٹارنی جنرل نے آواز لگائی۔ چیف جسٹس نے استفسار کیا کون سے جتوئی ۔جواب آیا غلام مصطفی جتوئی جو مرحوم ہوچکے ہیں۔آواز لگی ، پیر صاحب پگاڑا ،50لاکھ ،فوت ہوچکے۔جام صادق علی ،30لاکھ ،فوت ہوچکے ہیں۔کاکڑ ،20لاکھ ،اٹارنی جنرل ،چیف جسٹس نے پوچھا،کون سا کاکڑ۔جواب آیا سرور کاکڑ ،رکن بلوچستان اسمبلی،فوت ہوچکے ہیں۔جمالی،30لاکھ۔کون سا جمالی؟ چیف کا استفسار۔ ظفر اللہ خا ن جمالی ۔اٹارنی جنرل کا جواب ۔ نوٹس جاری کریں ۔چیف جسٹس نے حکم دیا۔جام یوسف ،30لاکھ،فوت ہوچکے ہیں۔ اٹارنی جنرل نے رقم کے ساتھ ان کی وفات کی خبر بھی دی۔ بزنجو۔ اٹارنی جنرل نے نام پکارا۔ کون سے بزنجو؟ میر حاصل خان بزنجو ۔۔اٹارنی جنرل نے پورا نام لیا۔چیف جسٹس کی اس نام پر حیرت دیدنی تھی۔حکم دیا۔نوٹس جاری کریں۔اٹارنی جنرل نے سابق وزیر اعلیٰ ،حال کے سینیٹر مظفرحسین شاہ کا نام لیتے ہوئے کہا 30لاکھ دو بار لئے۔چیف جسٹس نے حکم دیا نوٹس دیا۔ممتاز صحافی صلاح الدین کے نام کے ساتھ 3لاکھ کی خبر دیتے ہوئے ان کے مرحوم ہونے کی بھی اطلاع دی ۔جبکہ ایک صحافی کے نام کے ساتھ 5لاکھ کی آواز لگانے کے ساتھ یہ اطلاع دی کہ راستے میں ہیں۔سیدہ عابدہ حسین 10لاکھ کی آواز لگی تو ممتاز ماہر قانون محترم وسیم سجاد نے کہا میں ان کا وکیل حاضر ہوں۔جنرل (ر) اسددرانی کی فہرست کے ساتھ ساتھ ملٹری انٹیلی جنس کے بریگیڈیئر سعید اختر کی جانب سے دئیے گئے ناموں کی بھی گونج سنائی دی ۔بھٹو صاحب کے سوہنے منڈے عبدالحفیظ پیرزادہ کو 30لاکھ روپے دینے کی آواز لگی تو ساتھ ہی ان کے مرحوم ہونے کی بھی اطلاع دی گئی۔جب ذکر پیسے تقسیم کرنے والے سابق آرمی چیف جنرل( ر)اسلم بیگ اور جنرل (ر) اسد رانی کا آیا تو چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ان کا کیس فوجی عدالتوں میں بھیجا جائے گا۔کہ آخر انہیں کس نے اس بات کا اختیار دیا کہ باقاعدہ ریاستی اداروں کے سربراہ ایک منتخب صدر کے حکم پر سیاستدانوں میںکروڑوں روپے تقسیم کرتے ہیں۔سپریم کورٹ میں باقاعدہ اس کیس کی سماعت بھی ہوتی ہے۔ان سارے کرداروں کے نام بھی ہوتے ہیں۔ جنہوں نے اس کالا دھن سے اپنے ہاتھ کالے کئے۔اس کے بعد یہ کہنا کہ لینے اور دینے والوں کے بارے میں ثبوت نہیں ملے۔ ریاست اور اعلیٰ عدالت سے مذاق نہیں تو اور کیا۔