مرشدی مشتاق احمد یوسفی فرماتے ہیں، ساری زندگی نیکی اور راستی پہ چلنے والا شخص جب برے لوگوں کو کامیاب دیکھ کر ان کی نقل کرنے کی کوشش کرتا ہے تو پہلے سے زیادہ خوار ہوتا ہے۔ہمارا خیال ہے کہ یہی بات اس شخص پہ بھی صادق آتی ہے جس نے ساری زندگی ہیراپھیری سے کامیابی حاصل کی ہو اور جب اس کے قابل نہ رہا ہو تو اصول پرستی کا علم بلند کرکے ہیرو بننے کی کوشش کی ہو۔ اس مکار کا اعتبار تو اس کی گھر والی نہیں کرتی اور محرم راز صرف وہی تو نہیں ہوتی ۔ واقفان حال غزالان سے ویرانے بھرے پڑے ہیں ۔ان میں سے اکثر زندہ ہی نہیں ہٹے کٹے بھی ہیں۔چناچہ اس کی قسمت میں خواری لکھی ہی لکھی ہے۔ نواز شریف کو اندازہ نہیں تھا کہ خوش قسمتی اور اسٹیبلشمنٹ ہمیشہ ساتھ نہیں دیتی اور وہ ستاروں کی بے ڈھنگی چال کے گھیرے میں اس طرح آگئے ہیں کہ ایک مقامی محاورے کے مطابق اونٹ پہ بیٹھیں تب بھی کتا کاٹ لے۔انہوں نے تو خود موخر الذکر پہ سواری گانٹھنے کی کوشش کی جو سواری کا جانور ہے ہی نہیں۔اس پہ طرہ یہ کہ ان کی الماری ایک انگریزی کلاسیکی محاورے کے مطابق ڈھانچوں سے بھری پڑی تھی۔ محشر سے قبل حشر اٹھانے اور دامن یزداں چاک کرنے کا جنون لئے نواز شریف سڑکوں پہ تو نکل آئے لیکن اپنے چاک گریبان میں جھانکنا بھول گئے۔ مجھے کیوں نکالا کا نعرہ ایسا مذاق بنا کہ بچہ بچہ انہیں اس نعرے سے چھیڑنے لگا۔ ادھر انہوں نے یہ نعرہ مستانہ بلند کیا ادھر اس نہلے پہ اعلی عدلیہ نے گڈ گورننس کا دہلا مارنا شروع کردیا۔یہ در جواب آں غزل نہیں تھا آئینہ تھا جس میں نواز شریف کو سب صاف دکھائی دیتا تھا۔ انہیں اچھی طرح سمجھا دیا گیا کہ گو آپ نکالے کچھ یوں گئے ہیں لیکن آپ کی فرد جرم میں اور بھی بہت کچھ ہے۔ مجھے کیوں نکالا کا جواب دھڑا دھڑ سو موٹو نوٹس سے دیا جانے لگا۔ عوام پہلے ہی تنگ آئی ہوئی تھی کسی کو اس سے کیا کہ انہیں کیوں نکالا گیا۔اس نے سکھ کا سانس لیا تو عدالتی فعالیت کا شور مچادیا گیا اور کہا گیا کہ ادارے حد سے تجاوز کررہے ہیں آخر کیوں؟۔تس پہ انہیں آئین کے آرٹیکل 176 سے 190 دکھا دئیے گئے کہ یوں۔پھر ایک قدم پیچھے ہٹا کر انہیں فرنٹ فٹ پہ کھیلنے کا موقع دیا گیا۔ انہیں لگا کہ حریف نے پسپائی اختیار کرلی ہے اور نعرہ بھی کچھ خودغرضانہ سا معلوم ہوتا ہے توانہوں نے ووٹ کو عزت دو کا بیانیہ دیا۔ اس بیانیے کا لب لباب یہ تھا کہ عوام جسے چاہیں منتخب کریں تم کو اس سے کیا؟یہ اچھی بات تھی لیکن کچھ اور اچھی باتیں دوسری طرف کی زنبیل میں بھی تھیں ۔ ان ہی میں ایک اصغر خان کیس بھی تھا۔ ادھر نواز شریف نے خلائی مخلوق کا رونا رویا ادھر اصغر خان کیس کا منہ کھول دیا گیا جہاں اسی خلائی مخلوق نے نواز شریف کا راستہ صاف کیا تھا۔ یہ دہلا ایسا تھا کہ صحافیوں نے جب اس بارے میں ان سے سوال کیا تو وہ صرف چپ رہے۔ہنسنے کی زحمت اس لئے نہ کی کہ انہیں پردہ منظور ہی نہیں تھا کہ یہ اب ممکن بھی نہیں تھا۔ پاکستان میں انتخابی سیاست کبھی ستھری نہیں رہی۔ یہی سیاست دان اپنے مفاد کے لئے ایک دوسرے کے خلاف خلائی مخلوق کا آلہ کار بنتے رہے۔ اس خلائی مخلوق کے وجود سے انکار شاید ہی کوئی ناواقف کرسکے۔ ایک نکتہ وہ ہے جس پہ ہمیشہ میں نے بین السطور بات کی اور سابق اٹارنی جنرل عرفان قادر صاحب ایک پروگرام میں کہہ اٹھے ۔وہ نکتہ یہ ہے کہ دنیا بھرکی اسٹیبلشمنٹ سیاست دانوں پہ نظر رکھتی ہے اور انہیں سرخ لائنیں عبور کرنے سے روکتی ہے۔ان کا تبصرہ بالکل درست ہے۔سرخ لائینیں عبور نہیں ہونی چاہییں بالخصوص ایسے ملک میں جس کا ایک مستقل متحارب دشمن ہو۔ 1970 ء کے انتخابات پاکستان کی سیاست میں سب سے شفاف انتخابات سمجھے جاتے ہیں لیکن اس انتخاب کے نتیجے میں جب عوامی لیگ نے 313 میں سے 167 نشستیں حاصل کرکے اکثریت حاصل کی تو اسی نشستوں والے ذوالفقار علی بھٹو نے ان کا حکومت سازی کا حق تسلیم نہ کیا نہ ہی اس وقت کی خلائی مخلوق نے۔اس کا نتیجہ ملک ٹوٹنے کی صورت میں نکلا اوراس سے بڑا سانحہ کیا ہوسکتا تھا؟ اصغر خان ان چند سیاست دانوں میں تھے جو سقوط ڈھاکہ کا ذمہ دار یحییٰ خان اور بھٹو دونوں کو ٹھہراتے رہے۔1977ء کے انتخابات میں تو دھاندلی کا شور اب تک سنائی دیتا ہے۔ انتخابات سے پہلے جس طرح بھٹو مرحوم نے سیاسی مخالفوں کو لگام ڈالی جماعت اسلامی بھولی تو نہیں ہوگی۔ مولانا جان محمد عباسی کوکاغذات نامزدگی جمع کروانے سے پہلے ہی اغوا کرلیا گیا حالانکہ انہوں نے کونسا جیت جانا تھا۔ اس کے بعد جو ہنگامے پھوٹے اور تشدد کا جو بازار گرم ہوا اس کا نتیجہ کراچی میں منی مارشل لا پھر پورے ملک میں مارشل لا کی صورت نکلا جس پہ شاید سب نے ہی سکھ کا سانس لیا۔ خود اصغر خان نے اسے خوش آمدید کہا لیکن ساتھ ہی نوے روز میں انتخابات کروانے کا مطالبہ بھی کردیا۔ عالمی بساط پہ بہت کچھ بدل چکا تھا جس میں پاکستان میں کسی سیاسی حکومت کی گنجائش نہیں تھی۔اس لئے نہیں کہ وہ آزادانہ فیصلے کرسکتی ہے بلکہ اس لئے کہ وہ حالات کو کنٹرول میں رکھنے میں اکثر ناکام ہوجاتی ہے۔بھٹو کو تختہ دار پہ لٹکا دیا گیا۔ضیاالحق حکومت کرتے رہے اور یہی سیاست دان اور یہی مسلم لیگ ان کی کاسہ لیسی کرتی رہی۔ یہی وہ گملہ تھا جس میں اس شخص کا پودا لگایا گیا جو آج بونسائی بن کر اصغر خان جیسے چھتناور کی برابری کرنے کی کوشش میں کبھی ووٹ کو عزت دو کا نعرہ بلند کرتا ہے تو کبھی خلائی مخلوق کی دہائی دیتا ہے۔ان کے مہربان بھی ستم ظریف ہیں۔اگر بینظیر بھٹو سکیورٹی رسک تھیں تو سکھوں کی لسٹ راجیو گاندھی کے حوالے کرنے کا جرم اتنا سنگین تھا کہ ان پہ غداری کا مقدمہ چلایا جاتا اور تحقیقات کی جاتیں۔اگر ان پہ نیوکلیئر پروگرام بیک کرنے کی کوشش کا الزام تھا تو یہ فرد جرم بھی شفاف تحقیقات کی متقاضی تھی۔انہیں سکیورٹی رسک قرار دے کر ان کے خلاف سیاست دانوں کو اکھٹا کیا بھی گیا تھا تو جذبہ حب الوطنی کا تقاضا تو یہ تھا کہ اس نیک کام کو فی سبیل اللہ انجام دیا جاتا۔ ایسا ہوتا تو بے چارے مہران بینک والے یونس حبیب کی جان بخشی ہوجاتی جو اس معاملے میں واحد پتلی گردن والے ثابت ہوئے۔باقی نواز شریف سمیت تمام ملوث سیاست دان اور جرنیل مزے کرتے رہے۔سولہ سال تک یہ کیس لٹکا رہا۔ اس کے بعد چھ سال مزید گزرگئے۔کیا لیفٹیننٹ جنرل اسد درانی جن کے بیان حلفی نے یہ دن دکھایا، اسی لئے بچے رہے کہ جرمنی کے سفیر کی حیثیت سے انہوں نے وہ سچ بولا جس کا وقت گزر چکا تھا؟ جب کہ اس وقوعہ کے وقت وہی اس وقت آئی ایس آئی کے سربراہ تھے۔تو پھر جنرل اسلم بیگ جن پہ اسد درانی نے الزام لگایا کہ رقوم کی تقسیم ان کے کہنے پہ ہوئی ، وہ کیوں آج بھی تیوری چڑھائے گھوم رہے ہیں اور صحافیوں کو سوال کرنے پہ ڈپٹ رہے ہیں؟تمام ملوث سیاست دانوں کے خلاف کیا کاروائی ہوئی؟ان میں سب سے بڑے فریق نواز شریف نے اس کے بعد دو بار حکومت کی اور آج تک عملاً حکومت میں ہیں۔ایک صاحب جو جمہوریت کے چیمپئن اور باغی کہلانے کے شوقین تھے ان ہی کی حکومت میں وزیر صحت بنے ویاگرا امپورٹ کرتے اور اپنے دروازے پہ شوقین وزرا کی لائنیں لگواتے رہے۔ان کے چھوٹے بھائی جو اس جرم میں برابر کے شریک تھے ابھی تک سب سے بڑے صوبے کے وزیر اعلیٰ ہیں اور وزارت عظمی کے متوقع امیدوار بھی۔ اگراس کیس میں ملوث جرنیلوں کا کورٹ مارشل نہیں ہوا تو سیاست دانوں کے خلاف کسی نے کیا کرلیا۔بہتر ہوگا کہ اس کے تمام ذمہ داروں کو آئین اور قانون کے مطابق سزا دے کر ایک ہی بار یہ قضیہ نبٹا دیا جائے اور قومی خزانے کے ایک سو چالیس کروڑ روپے کی پائی پائی خلائی اور زمینی دونوں مخلوق کے حلقوم سے اگلوائی جائے ۔ا گر اس کیس کو دوبارہ کھولنے کا مقصد محض نواز شریف کی زبان بند کرنا ہے تو انصاف اور احتساب ابھی دیومالائی داستانیں ہیں۔ نواز شریف کو کسی درباری بزرجمہرنے پٹی پڑھائی ہے کہ وہ اصغر خان بن سکتے ہیں تو یہ بھی بتایا ہوگا کہ وہ پاکستانی سیاست کے بااصول ترین اور اسی واسطے ناکام ترین سیاست دان سمجھے جاتے ہیں۔ ان کی تاریخ بھی وہی تھی جو ان کا مستقبل بنی۔ نوز شریف کی تاریخ کسے نہیں معلوم۔ اس بھدی اور شرمناک تاریخ کے ساتھ انہیں اصغرخان کی نیک نامی کیسے نصیب ہوسکتی ہے۔ یہ در سیاست ہے جہاں ایک ایک غلطی منہ کھول کر اژدہا بن جاتی ہے ،کوئی در توبہ نہیں ہے جہاں توبہ النصوح کے بعد گناہ نیکیوں میں بدل جائیں۔خدا معاف کردیتا ہے تاریخ معاف نہیں کرتی۔