کوئی سننا چاہے تو سنے اور نہ سننا چاہے تو نہ سنے۔ پروردگار کا فرمان یہ ہے ’’ ولکم فی القصاص حیاۃ یا اولی الالباب‘‘زندگی میںحسن و خوبی کا تمام انحصار قصاص پر ہے ۔ جتنا جرم اتنی سزا ۔۔۔اور یہ فیصلہ حاکم نہیں ، قانون کرتاہے ، صرف عدالت! احتساب اور استحکام کا حصول ۔ دو چیزیں ہیں ، جن کے درمیان ہم معلق ہیں ۔ لکھنے اور سوچنے والے حیران کہ محاسبہ جاری رکھتے ہوئے ، قرار اور ٹھہرائو کیسے حاصل کیا جائے۔ تباہ کن معاشی صورتِ حال اور بڑھتی ہوئی ابتری سے جو بچا لے ۔ بھارتی یلغار اور امریکی ناراضی کے ہنگام ، جو شورش پسندوں کی پشت پناہی پر تلے ہیں ، ان چیلنجز کا سامنا کیا جائے۔ ایک آدھ نہیں ، جن کی بہت سی پیچیدہ اور پریشان کن جہات ہیں ۔ ایک طرف وہ لوگ ہیں ، عشروں تک دونوں ہاتھوں سے جو ملک کو لوٹتے رہے ۔ اس بے دردی کے ساتھ ، جیسے کہ مالِ غنیمت سمیٹتے ہوں۔ پھر دوسروں سے شہ پانے والے گروہ ہیں ، ہدف جن کا قومی سلامتی ہے ۔ ہر کہیں کارفرما اور ہر کہیں گھسے ہوئے ، امریکہ نواز ہیں ۔ چین کا ہرچند نام نہیں لیتے ۔ براہِ راست سی پیک کی مخالفت نہیں کرتے۔مقصود لیکن وہی ہے کہ ملک کو مغرب کا مغبچہ بنا رکھا جائے۔ کئی طرح کے لوگ ہیں ۔ نشانہ سب کا پاک فوج ہے ۔ بدترین حالات میں ، جس نے ملک کو متحد رکھا ۔ غیر ملکی ایجنسیوں اور طاقتور خفیہ ایجنسیوں کی تائید کے باوجود کراچی کے مقتل میں جنہوں نے قانون کا علم لہرا دیا ۔ اس طرح لہرا یا کہ کل قاتلوں اور کارندوں کے گیت گانے والے آج ان کا نام تک نہیں لے سکتے۔یہ صرف چند برس پہلے کی بات ہے ، بلوچستان کے بعض قصبوں میں پاکستانی پرچم لہرایا نہ جا سکتا تھا ۔ ڈیرہ بگٹی اور آس پاس کے علاقو ں سے بھتہ وصول کیا جاتا۔ عشروں بلکہ صدیوں سے آباد چلے آتے پنجابی، سرائیکی اور اردو بولنے والے بے دردی سے مار ڈالے جاتے ۔ قبائلی پٹی میں ایسے علاقے بھی تھے، گھر گھر جہاں خودکش جیکٹیں بنائی جاتیں۔ دکانوں پہ فروخت کے لیے لٹکادی جاتیں ۔ اس طرح کی عبارتیں ،ان پر لکھی ہوتیں ’’تیس آدمیوں کی ہلاکت کے لیے کافی ہے ‘‘ ’’ستّر افراد کو قتل کرنے کے لیے ‘‘ ایک عشرہ ہی بیتا ہے کہ ہر ہفتے تین سے پانچ بڑے دھماکے ہوا کرتے۔ ملک بھر کا میڈیا الطاف حسین کا یرغمال تھا۔ ایک چھوٹا سا جلسہ کرنا ہوتا تو تین تین دن تک چیخ و پکار جاری رہتی۔ ایم کیو ایم کے خلاف لکھنے والوں کو جان کا خوف لاحق رہتا، کم از کم کردار کشی کا۔ محمد صلاح الدین ایسے دلاور دن دیہاڑے خون میں نہلا دیے گئے۔ ہمدرد ایسے ادارے کے بانی ، ایک نیا جہاں تخلیق کرنے والے حکیم سعید کو شہید کر دیا گیا کہ غنڈوں کے سامنے سربسجود نہ ہوئے۔ سبھی کو معلوم تھا کہ قاتل کون ہیں مگر کوئی ان پہ ہاتھ نہ ڈال سکتا۔ وہ گویا تاریکی سے پھوٹتے اور تاریکی میں کھو جاتے ۔ فوج پر حملہ آور ہونے کے لیے علی الاعلان الطاف حسین اسلحہ خریدنے اور فائرنگ کی مشق کرنے کے اعلانا ت جاری فرماتے۔ ہم ایک کم حافظہ قوم ہیں ۔ کس رسان سے ہم بھول گئے کہ کیسے کیسے لکھنے اور بولنے والے دبک کر بیٹھ گئے تھے ۔ ایسے فیاض بھی تھے، جو ان کے لیے دلائل تراشنے کی جسارت کرتے ۔ کون کون سے، کیسے کیسے دعوے کرنے والے لیڈر ہاتھ باندھے نائن زیرو جایا کرتے، حتیٰ کہ یومِ حساب آپہنچا۔ فوج نے ملک کو بچا لیا کہ سول اداروں میں دم خم تھا ہی نہیں ۔ عزم ہی نہ تھا ، آہنگ اور منصوبہ کیا ہوتا۔ خدا کی پناہ ساٹھ ہزار بے گناہ شہری اور فوج کے چھ ہزار کڑیل جوان شہید ہوئے ۔ سب سے زیادہ کراچی میں ۔ پھر اللہ اور رسولؐ کے نام پر جہاد کا علم بلندکرنے والے پتھر دل ’’مجاہدوں ‘‘ کے ہاتھ سے ۔ مذہبی جماعتیں ، ان کی مذمت سے بھی گریزاں تھیں ۔کچھ تو داد بھی دیتے ، تحسین بھی فرمادیتے۔ چیلنج آج بھی باقی ہے ۔ لوٹ مار کرنے والے محفوظ ہیں ، غیر ملکیوں کے لیے کام کرنے والے آزاد۔ دستور اور آئین کی خلاف ورزی کرنے، قومی محافظوں پہ دشنام طرازی کرنے والے بھی ۔ ذہنوں میں آج بھی کنفیوژن ہے ۔ غیر اہم کو اہم اور اہم کو غیر اہم بنانے پر تلے ہوئے ۔ سمت نا آشنا اور تعصبات کے طوفان میں بہتے ہوئے ۔ برسوں پہلے کے اس عمران خان کی طرح ، جنہوں نے طالبان کے لیے پشاور میں دفتر کھولنے کی تجویز پیش کی تھی ؛حتیٰ کہ خود ان کی حکومت وجود میں آئی۔ ان کی اپنی پارٹی قاتلوں کا نشانہ ہوئی۔ تمام خسارہ اور ساری گمراہی تجزیے کی خرابی سے جنم لیتی ہے ۔ اصل الاصول کو جب آپ بھلا دیتے ہیں ۔ اصول قانون کی بالاتری ہے ۔ اصول یہی ہے کہ مجرم کو سزا ملنی چاہئیے اورسب سے بڑھ کر طاقتور لوگوں کو ۔ خرابی کہاں ہے ، کنفیوژن کہاں کارفرما ہے ؟ خرابی وزیرِ اعظم کے اندازِ فکر میں ہے ۔ اوّل دن سے اس بات پر غور کرنے سے انہوں نے انکار کر دیا ہے کہ عدل اور قصاص کو انتقام کے احساس سے یکسر پاک ہونا چاہئیے ، حتمی اور مکمل طور پر ۔ بے شک ایک اعتبار سے مجرموں کو انجام تک پہنچانے کی ذمہ داری ان پر عائد ہے مگر جرم کے تعین اور سزا کا اختیار کس نے انہیں دیا ہے ؟ آئین تو یہ نہیں کہتا ۔ اللہ کی کتاب تو یہ نہیں کہتی ۔ تاریخ تو یہ نہیں کہتی ۔ عشروں تک امریکی معاشرے کو قتل و غارت سے ہم کنار کرنے والے قاتل ’’الکپون ‘‘ کا فیصلہ امریکی صد رنہیں ، عدالت نے کیا تھا۔ قتل کے شواہد مہیا نہ ہو سکے تو ٹیکس چوری میں پکڑا گیا اور عبرت انگیز انجام کو پہنچا۔ پوری قوت سے قانون کو بروئے کار آنا چاہئیے مگر شہادتوں کے ساتھ ، دلائل کے ساتھ ۔ ایک قابلِ اعتبار نظام میں ان لوگوں کے ذریعے، عام آدمی کو جن پر اعتبار ہو ۔ پولیس اور عدالتی نظام کو راست کرنے کے لیے جناب وزیرِ اعظم نے اب تک کیا کیا ؟ ناصر درانی سے انہوں نے چھٹکارا پایا اور انہیں لے کر آئے، اشارہ ء ابرو پر جو افسروں کا تقرر فرماتے رہے ۔ وہ افسر ، عامی کی تقدیر جن کے ہاتھ میں ہوتی ہے ۔ بے گناہوں پر جو کوڑے برساتے ہیں ۔ ایسے میں اگر حادثے نہ ہوں تو کیا ہو ؟ بے یقینی اور بے اعتباری نہ ہو تو کیا ہو ؟ اوّل دن وزیرِ اعظم کے بہترین ، لائق اور قابلِ اعتبار دوستوں نے ان سے کہہ دیا تھاکہ احتساب کا انہیں نام بھی لینا نہیں چاہئیے ۔ نیب ، ایف آئی اے اور عدالتوں پر چھوڑ دینا چاہئیے ۔ ممتاز ماہرین نے اس پر بھی انہیں مطلع کر دیا تھا کہ بیرونِ ملک چھپائے گئے اثاثے واپس لانا شہزاد اکبر ایسے شرفا کے بس کی بات نہیں ۔نفاذِ قانون کا جو تجربہ نہیں رکھتے ۔ یہ بھی کہ اعلیٰ عہدوں پر افسروں کا تقرر ان کی صوابدید ہے مگر ذاتی پسند اور نا پسند کی بنیاد پر نہیں ۔ کسی ایک گروہ کا تسلط نہیں ۔ افسوس کہ اس نصیحت پر آنجناب نے کان نہ دھرا۔رفتہ رفتہ اپنے بہترین دوستوں سے دور ہوتے گئے ۔ اگر سنا ہوتا ،اگر سمجھا ہوتا تو وہ بحران برپا نہ ہوتا، جس سے آج وہ دوچار ہیں ۔ لب سیے رکھتے ، احتساب کو اگر اداروں پہ چھوڑ دیتے۔ الزامات او رجوابی الزامات کا اگر ایسا تند طوفان نہ ہوتا تو آج وہ اپوزیشن سے تعلقاتِ کار کے قابل ہوتے ۔ اپوزیشن کتنی ہی بری سہی مگر اس کا انسداد نعروں سے نہیں ہو سکتا۔ عوامیِغیظ و غضب سے نہیں بلکہ خالص اور کھرے عدل سے ۔ کوئی سننا چاہے تو سنے اور نہ سننا چاہے تو نہ سنے۔ پروردگار کا فرمان یہ ہے ’’ ولکم فی القصاص حیاۃ یا اولی الالباب‘‘زندگی میںحسن و خوبی کا تمام انحصار قصاص پر ہے ۔ جتنا جرم اتنی سزا ۔۔۔اور یہ فیصلہ حاکم نہیں ، قانون کرتاہے ، صرف عدالت!