ہفتہ رفتہ سفر میں گزرا ‘اسلام آبادمیں وزیر اعظم عمران خان سے ملاقات کے بعد ڈیرہ غازی خان اور تونسہ شریف کا رخ کیا۔ ہم دم دیرینہ غلام مصطفی خان میرانی کے صاحبزادے محمد سلمان خان میرانی کی شادی میں شرکت لازم تھی۔ جمعہ‘ ہفتہ کے ایام میڈیا سے دور رہا اور تازہ خبروں سے محروم ‘ ڈہرکی کی دو بھیل لڑکیوں کے قبول اسلام اور پسند کی شادی پر ہنگامے کا علم مجھے واپسی پر ہوا۔ سکھر ‘ ڈہرکی اور اباڑو سے معلومات اکٹھی کیں تو پتہ چلا کہ دو عاقل بالغ لڑکیوں کی پسند کی شادی سے ناخوش والدین مقامی سیاستدان خالد لُنڈ کے ہتھے چڑھ کر میڈیا کی شہ سرخیوں اور پاک بھارت لفظی جنگ کا موضوع بنے‘ کوئی عاقل بالغ لڑکیوں کا موقف معلوم کرنے کو تیار ہے نہ بھرچونڈی شریف کے سجادہ نشین پیر عبدالخالق کی بات سننے کا روادار۔ ڈھرکی میں بھرچونڈی شریف کی درگاہ صرف سندھ نہیں بلکہ پاکستان بھر کے خوش عقیدہ مسلمانوں کے لئے مرجع عقیدت ہے‘پنجاب میں اولیاء و صوفیا میں جو مقام حضرت پیر علی شاہ گولڑویؒ ‘ حضرت خواجہ شاہ سلمان تونسویؒ‘ حضرت خواجہ غلام فریدؒ اور حضرت خواجہ شمس الدین سیالوی ؒکو حاصل ہے سندھ میں حافظ الملت حافظ محمد صدیق ؒاس مرتبے کے حامل ہیں۔ حافظ صاحب نے تبلیغ دین کے علاوہ شمال مغربی ہندوستان میں انگریزی استعمار کے خلاف جہاد میں بھی بھر پور کردار ادا کیا ‘مولانا عبید اللہ سندھی‘ خلیفہ غلام محمد دین پوری اور سید تاج محمود امروٹی اسی خانقاہ کے پروردہ تھے۔ تحریک ریشمی رومال میں مولانا عبداللہ سندھی اور خلیفہ غلام محمد دین پوری کے کردار سے ہر تاریخ دان واقف ہے۔ تبلیغ دین کے حوالے سے بھرچونڈی شریف کی شہرت اور حافظ محمد صدیقؒ کے بے ریا کردار سے متاثر ہو کر سیالکوٹ کا ایک سکھ نوجوان بوٹا سنگھ مسلمان ہوا اورمولانا عبیداللہ سندھی امام انقلاب کہلایا۔ برصغیر میں اسلام اولیاء اور صوفیا کے اخلاق‘ کردار اور حسن سلوک کے ذریعے پھیلا اور ہر قوم و قبیلے کے لوگوں نے اپنا آبائی مذہب ترک کر کے اسلام کے دامن عافیت میں پناہ لی۔ حضرت سید علی ہجویری داتا گنج بخشؒ‘ حضرت سلطان الہند معین الدین چشتی ؒاور حضرت بابا فرید الدین گنج شکرؒ کے دست حق پرست پر کم و بیش لاکھوں ہندوئوں نے اسلام قبول کیا۔ پنجاب کے سولہ قبائل جن میں راجپوت‘ جاٹ اور سیال شامل ہیں پاکپتن کے صوفی بزرگ حضرت فرید گنج شکر ؒکی تبلیغ سے متاثر ہو کر دائرہ اسلام میں داخل ہوئے۔ شدھی اور سنگھٹن کی تحریکیں بھی انہیں واپس ہندومت کی طرف نہ دھکیل سکیں۔ پاکپتن کی بشریٰ بی بی عمران خان کو بتا سکتی ہیں کہ اگر کوئی شخص برضا و رغبت کسی جبر و اکراہ کے بغیر اسلام قبول کرنا چاہے تو اس کے لئے اٹھارہ سال عمر کی شرط ہے نہ والدین کی رضا مندی ضروری۔ حضرت علی کرم اللہ وجیہہ الکریم نے کم عمری میں اسلام قبول کیا اور عکرمہ کے قبول اسلام پر باپ ابوجہل نے ایسے ہی شور مچایاتھا جیسا آج کل کے سیکولر‘ لبرلز کسی ہندو‘ مسیحی ‘ سکھ مرد و زن کے اسلام قبول کرنے پر مچاتے اور جبری تبدیلی مذہب کا الزام عائد کرتے ہیں۔ ڈھرکی کی دو بہنوں روینا اور رینا کا تعلق ہندو مذہب سے نہیں یہ مینگھواڑ ہیں جنہیں پنجاب میں بھیل کہا جاتا ہے بھارت میں بھی تلنگوانے‘ دلت‘ بدھ‘ جین‘ سکھ اور بھیل ہندو نہیں مگر ہندو توا کے پجاریوں نے زبردستی انہیں ہندو قرار دے رکھا ہے۔ خالد لُنڈ کا تعلق پیپلز پارٹی سے ہے اور میاں عبدالخالق اور میاں عبدالحق عرف میاں مٹھو کا تعلق پیر صاحب پگارا کے اتحادجی ڈی اے سے‘ غیر مسلم ووٹ کی یہاں اہمیت ہے اور ہندو برادری یہاں کاروباری اور معاشی طور پر مضبوط و خوشحال۔ اکثر سیاستدانوں کو انتخابی اخراجات کے لئے ہندو برادری کے سیٹھوں کی ضرورت پڑتی ہے۔ چنانچہ جب بھی کوئی ہندو لڑکی مسلمان ہو اور والدین احتجاج کریں تو مقامی سیاستدان ان کی سیاسی حمایت حاصل کرنے کے لئے اقلیتوں کے حقوق کا علم لے کر کھڑے ہو جاتے ہیں یہ جاگیر دار‘ وڈیرے بھی غیر مسلم سیٹھوں کی طرح اپنی بچیوں کی مرضی سے شادی اور جائیداد میں حصہ کے خلاف ہیں۔ چند سال قبل رنکل کماری نامی ایک خاتون نے اسلام قبول کیا تو یہی شور مچا‘ پیپلز پارٹی کی حکومت تھی اور پیر عبدالحق پی پی کے ایم این اے ‘مگر وہ ڈٹ گئے۔ چیف جسٹس افتخار محمد چودھری نے ازخود نوٹس لیا‘ رنکل کماری کو سرکاری اداروں نے تحویل میں لے کر عدالت عظمیٰ میں پیش کیا مگر تمام تر دبائو اور عالمی و مقامی میڈیا کے منفی پروپیگنڈے کے باوجود رنکل کماری اپنے موقف پر ڈٹی رہی کہ اس نے جبراً مذہب قبول کیا ہے نہ دبائو کے تحت ایک مسلمان نوجوان سے شادی کی ہے۔ یہ پروپیگنڈا دم توڑ گیا کہ بھرچونڈی میں غریب ہندو بچیاں کسی لالچ یا دبائو کے تحت مذہب تبدیل اور شادی کرتی ہیں۔بلا شبہ صرف سندھ نہیں پنجاب میں بھی دبائو اور جبر کا ماحول ہے‘ والدین خواہ مسلمان ہوں یا ہندو بچوں اور بچیوں کو پسند کی شادی کرنے دیتے ہیں نہ انہیں زندگی کے دیگر معاملات میں فیصلے کی آزادی ہے‘ سندھ میں وڈیرے مسلموں اور غیر مسلموں کی لڑکیوں کو اغوا کرتے اور زبردستی اپنے حرم میں ڈال لیتے ہیں‘ جرگے اور پنچائتیں بھی یہ جرم دھڑلے سے کرتی ہیں لیکن شور صرف اس وقت اُٹھتا ہے جب کوئی غیر مسلم لڑکی اسلام قبول کر کے مسلمان لڑکے سے شادی کرے۔ تب مسلم لڑکیوں کی پسند کی شادی کو عورت کا بنیادی حق قرار دینے والے ’’میرا جسم میری مرضی‘‘ کے علمبردارانسان دوست اور روشن خیال احباب گرم توے پر کھڑے ہو کر خٹک ڈانس شروع کر دیتے ہیں اور حکمران خواہ عمران خان ہو ‘ آصف زرداری یا کوئی اور فوراً صنف نازک نہیں بلکہ ان کی مرضی اور منشا پر معترض تنگ نظروالدین‘ خاندان اور اہل علاقہ کو انصاف دلانے پر تُل جاتے ہیں۔ کسی لڑکی کے قبول اسلام پر سشما سوراج کا سیخ پا ہونا قابل فہم ہے اور پیر صاحب بھرچونڈی کے سیاسی مخالفین کا شور و غوغا بھی ایک حد تک روا‘ عمران خان کے مخالف اور ریاست مدینہ سے خائف میڈیا کی مخالفانہ مہم کے مقاصد کسی سے مخفی نہیں‘ لیکن حکمرانوں کی پھرتیاں؟ کیا پاکستان کو ریاست مدینہ بنانے کا علمبردار حکمران یہاں قبول اسلام کا راستہ بند کرنا چاہتا ہے؟ کیا مسلم ‘ اور غیر مسلم خواتین کے لئے شادی کے الگ معیار اور پیمانے مقرر کئے جائیں گے ؟مسلمان لڑکی بھاگ کر شادی کرے تو جائز اور غیر مسلم لڑکی اپنی پسند سے رشتہ جوڑے تو لڑکا اغوا کار اور مجرم؟ لڑکیاں لاہور ہائی کورٹ کے بہاولپور بنچ اور اسلام آباد ہائی کورٹ سے تحفظ اور حصول انصاف کی طلبگار ہیں مگر وزیر اعظم‘ وزراء اعلیٰ کو ان کے شوہروں اور شادی کے گواہوں‘ نکاح خواں کی گرفتاری کے احکامات جاری فرما رہے ہیں کیا ڈھرکی کی لڑکی کا شادی کے بعد رحیم یار خان اور گوجرانوالہ چلے جانا جرم ہے اور زبردستی والدین کو حوالگی‘ ارتداد واندیشۂ قتل عین تقاضۂ انصاف؟ کیا رنکل کماری کی طرح یہ معاملہ عدلیہ پر چھوڑ دینا مناسب ہے یا محض امریکہ اور بھارت کے علاوہ پاکستان میں ان کے بیانئے کو فروغ دینے والے مذہب دشمن عناصر کی خوشنودی کے لئے دو سعید روحوں کو اسلام کے سایہ رحمت سے محروم کرنا واجب۔ اسلام میں جبر نہیں‘ اور اقلیتوں کا احترام‘ ان کے حقوق کا تحفظ ریاست کے علاوہ مسلم معاشرے کی بنیادی ذمہ داری ہے مذہبی اور انسانی فرض‘ اقلیتوں سے زیادتی کے مرتکب امتی کے خلاف روز قیامت حضور اکرم ﷺ بہ نفس نفیس مدعی ہوں گے‘ کوئی سچا مسلمان آقاؐ کی ناراضگی مول لینے کا متحمل ہے نہ کسی غیر مسلم سے زیادتی کا دفاع کر سکتا ہے کہ پھر روز قیامت آقاؐ کو کیا منہ دکھائے گا؟ لیکن تحقیق و تفتیش کے بغیر منفی پروپیگنڈا اور ریاستی جبر ؟؟اگر غیر مسلموں کو قبول اسلام کی راہ دکھانا اقلیتوں کی حق تلفی ہے تو پھر پیر صاحب بھرچونڈی اکیلے نہیں‘ حضرت بابا فرید الدین گنج شکر ؒ سید علی ہجویری داتا گنج بخش ؒاور حضرت معین الدین اجمیریؒ صدیوں قبل یہی کام کر چکے۔ پاکستان انہی کی تعلیمات اور ریاضت کا ثمر ہے‘ یہ بزرگ اسلامی تعلیمات کی روشنی عام نہ کرتے تو پاکستان بنتا نہ عمران خان جیسوں کو وزارت عظمیٰ کا منصب نصیب ہوتا‘لہٰذا احتیاط۔ اسلام کے بغیر ہم کیا؟ ہماری اوقات کیا؟۔ ؎ بازو تیرا توحید کی قوت سے قوی ہے اسلام تیرا دیس ہے‘ تو مصطفویؐ ہے