صبح اٹھا تو اس خیال سے دوچار تھا کہ چند دن سیاست پر لکھنا بند کر دوں۔ دوست احباب بھی مشورے دیتے رہتے ہیں کہ سیاست کے چکر میں ان بہت سے معاملات کو بھول جائو گے جو تمہیں جان سے زیادہ عزیز رہے ہیں۔ شاید کل کا اثر تھا۔ زندگی میں بے شمار بار مقدمات کی کارروائی دیکھنے عدالتوں میں حاضری دی ہے۔ کل مگر شہباز شریف کی پیشی پر جو خواری ہوئی اس سے اندازہ ہوا کہ شاید ہم کسی اور زمانے میں جی رہے ہیں۔ قطار اندر قطار کندھے سے کندھا ملائے‘ جگہ جگہ پر‘ آگے پیچھے سکیورٹی کے اہل کاروں کے پہرے کے پہرے کھڑے تھے۔ اس طرح کہ درمیان سے چڑیا بھی پر نہیں مار سکتی تھی۔ کمرہ عدالت میں ایک وقت صرف دس بارہ لوگ تھے۔ مگر تالا لگا دیا گیا تھا ۔مباداکوئی اندر آ جائے نہ میڈیا ‘ نہ وکیل ‘ نہ پارٹی ممبر کسی کو اجازت نہ تھی۔ایک عجب بے کیفی کی کیفیت تھی۔ اتنے میں ایک پھانسی کی خبر آئی قصور میں بچی سے زیادتی کر کے اسے ہلاک کرنے والا مجرم کیفر کردار تک پہنچا۔ انصاف کا بول بالا ہوا‘ مگر ہم کس دنیا میں جی رہے ہیں۔ آپ جمہوریت کو رو رہے ہیں‘ یہاں تو انسانیت کا خون ہو گیاہے۔ سوچا دن کرکٹ کا میچ دیکھنے میں گزاروں گا کہ اچانک ٹی وی کی سکرینیں چمک اٹھی۔ قومی اسمبلی کے کم اجلاس ہوتے ہوں گے جیسا آج ہوا ہے اس کی داد حکومت کو دیجیے یا سپیکر اسد قیصر کو یا اپنے جمہوری نظام کو‘ یہ ایک بہت خوشگوار تجربہ ہے‘ گھسے پٹے محاورے میں ٹھنڈی ہوا کا جھونکا کہہ لیجیے۔ میں میچ چھوڑ کر اس کی کارروائی دیکھنے بیٹھ گیا اور یہ بھی جان نہ پایا کہ درمیان میں پاکستان نے آسٹریلیا کی ساری ٹیم کو آئوٹ کرلیا ہے۔ اسمبلی کے اندر بھی کچھ ایسی کیفیت تھی۔ یہ نہیں کہ قائد حزب اختلاف شہباز شریف نے بڑی شاندار تقریر کی یا سابق قائد حزب اختلاف خورشید شاہ بھی خوب فارم میں تھے‘ بلکہ یہ کہ اسمبلی کا مجموعی مزاج ایسا شاندار تھا کہ گمان ہوتا تھا شاید جمہوریت لوٹ آئی ہے۔ حکومت کا لہجہ بھی بدلا بدلا سا تھا یا زیادہ مثبت کہوں تو ذرا ٹھہرا ٹھہرا سا تھا۔ سب کو بات کرنے کا حق ہے‘ مگر ایسی فضا کا پیدا ہونا اصل بات ہے۔ لگتا تھا کہ یہ پاکستان کی پارلیمنٹ ہے جو آئین کے مطابق سب اداروں سے پاک ادارہ ہے۔ مجھے نہیں معلوم‘ اس کا نتیجہ کیا نکلے گا‘ مگر اتنا اندازہ ہوا کہ اگر حکومت اور اپوزیشن چاہے تو ایک سنجیدہ مکالمہ ہو سکتا ہے۔ ایک منٹ کو بھول جائیے کہ حق پر کون ہے اور غلطی کس کی ہے‘ مگر یہ بات طے ہے کہ اس وقت ملک جن حالات سے گزر رہا ہے‘ اس میں اتفاق رائے کے سوا کوئی چارہ نہیں۔ یہ بات ہر زمانے میں کہی جاتی ہے مگر اس کی جتنی ضرورت اب ہے پہلے کبھی نہ تھی۔ وجہ بڑی واضح ہے کہ پاکستان کو معاشی محاذ پر اور خارجہ امور کے حوالے سے ایک ایسا چیلنج درپیش ہے جو ہمارے مستقبل کے لیے فیصلہ کن ہو سکتا ہے۔ جی ہاں‘ خارجہ پالیسی اور معاشی چیلنج ایک ہی مسئلہ ہے‘ دو مسئلے نہیں ہیں۔ دل چاہتا ہے کہ ایک بار پھر اس تاریخ کو دہرائوں جس نے ہماری خارجہ پالیسی کو ہماری سلامتی سے نتھی کر دیا تھا۔ پھر ہمارا طرز حیات ‘ طرز فکر اور پورا معاشی نظام وہی ہے جو اس صورت حال کا منطقی نتیجہ تھا۔ ہم امریکہ کے بلاک میں کیا گئے کہ ہمارا سب کچھ امریکہ سے منسلک ہو گیا اور ہم امریکہ کے پاس اپنی سلامتی کے لیے پہنچے تھے۔ دفاعی معاہدوں کا حصہ بنے تھے۔ سر ظفر اللہ خاں‘ جنرل ایوب خاں سے ہوتے ہوئے ہمارا پورا نظام کس طرح وزیر خزانہ محمد شعیب اور ایم ایم احمد نے امریکہ کی جھولی میں ڈال دیا۔ ہمارے پاس اور کوئی چارہ کار نہ تھا۔ وہ نظام جو دو بڑی جنگوں کے بعد وضع کیا گیا تھا۔ ہم اس کا حصہ تھے۔ اس خطے میں ساری سیاست‘ ساری معیشت‘ سارے نقشے اسی زمانے میں وضع کئے گئے تھے۔ عالمی معیشت‘ سیاست اور علاقائی حکمرانی سب اس کے تابع تھی۔ مشرق وسطیٰ پہلی جنگ عظیم کی نشانی ہے۔ ہم اور عالمی اقتصادی نظام دوسری جنگ عظیم کے بطن سے پھوٹے۔ اب دنیا کو پھر بدلنا ہے۔ انسان نے بہت سبق سیکھ لیے ہیں۔ کوشش یہی ہے کہ یہ تبدیلی کسی تیسری جنگ عظیم کے بغیر عمل میں آ جائے۔ یہ جنگ تو نہیں ہو گی‘ مگر بہت بڑی جنگ جاری ہے۔ اور اس کا مرکز ہمارا خطہ ہے۔ چین اور امریکہ کے درمیان تجارتی جنگ اس کا آخری مظہر ہے۔ روس بھی سر اٹھا رہا ہے۔ ایک بہت بڑی تبدیلی رو پذیر ہو رہی ہے اور ہم اس بھنور کی آنکھ میں ہیں۔ جن لوگوں کو اس کا اندازہ ہے‘ وہ اچھی طرح سمجھتے ہیں کہ ہم کہاں کھڑے ہیں۔ شہباز شریف نے آج جن سوالات کا تذکرہ کیا جو نیب ان سے پوچھ رہی ہے‘ وہ بتاتے ہیں کہ ہم اس گرداب میں ہیں۔ چین اور ترکی کے حوالے سے یا جنرل کیانی کے بھائی کے پس منظر میں جو سوال کئے گئے۔ ان کا اس وقت میں تجزیہ نہیں کرنا چاہتا ‘ تاہم یہ عرض کرتا ہوں‘ ان پر غور کیا جائے کہ ہم کس طرح مشکل میں ہیں۔ یہ بات میں بار بار عرض کرتا رہا ہوں کہ فوج ہو یا عدلیہ حکومت ہو یااپوزیشن اس وقت سب کے لیے اصل چیلنج ایک ہی ہے۔ ملک کو کیسے اس مشکل صورت حال سے نکالاجائے۔ یہ نہیں کہ ہم پر یہ صورت حال ایک عذاب کے طور پر نازل کی گئی ہے۔ بلکہ یہ ہمارے نئے امکانات کا ایک جہاں بھی ہے۔ ہمیشہ خدا نے ہماری مدد کی ہے۔ عراق اور ایران دونوں نے کتنی کوشش کی‘ ایٹمی طاقت بننے کی۔ مگر ان کی ایک نہ چلنے دی گئی۔ عراق تو تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں کے چکر میں تباہ کر دیا گیا‘ ایران کے گرد ایٹمی پھیلائو کے الزام میں گھیراڈالا گیا۔ کیا ہم خوش قسمت نہیں کہ ہم سب مراحل سے گزر کر ایٹمی طاقت بنے ہوئے ہیں۔ دنیا اس پر دانت پیس رہی ہے۔ دنیا سے میری مراد ظاہر ہے۔ امریکہ ہے۔ ہمارا ایٹمی پروگرام ان کی نگاہوں میں کھٹکتا ہے۔ خدا نے ہمیں کیسے موقع دیا۔ اس پروگرام کو مکمل کرنے کا۔ امریکہ کی آنکھوں پر بھی افغانستان کی جنگ کی پٹی پڑگئی تھی۔ ہم اپنا کام کر گئے اور یہ دیکھتے ہی رہ گئے۔اس طرح آج سی پیک کی شکل میں خدا نے ہماری مدد کی ہے۔ چینی وزیر خارجہ نے صاف کہا تھا کہ پاکستان کی شرح نمو میں 1.2فیصد اضافہ صرف سی پیک کی وجہ سے ہوا۔ مجموعی طور پر ہم ساڑھے تین کی شرح نمو سے چھ کے قریب پہنچ رہے تھے۔ جلد سات سے آگے نکل جاتے۔ ایک ترقی یافتہ ملک کے طور پر مجھے کہاگیا۔ پیسہ آئی ایم ایف سے آتا ہے یا چین سے‘ مگر اس بات سے میرا تعلق ضرور ہے کہ ہماری ترقی کی رفتار کم نہ ہو۔ اس رفتار کو کم کیا جا رہا ہے اور ہم اس پر جشن منا رہے ہیں کہ ہم ایسا معیشت کو درست کرنے کے لیے کر رہے ہیں۔ ہم الزام لگاتے ہیں‘ سب گزشتہ حکومت کا کیا دھرا ہے۔ گزشتہ حکومت اپنا ایک مضبوط مقدمہ رکھتی ہے۔ میرا کہنا تو صرف اتنا ہے کہ ہم کب اس گرداب سے نکلیں گے۔ آپ نے دیکھا یہ خارجہ پالیسی اور معیشت کا ایک دوسرے سے جڑا ہوا مسئلہ ہے اور اس کے پیچھے سکیورٹی کا پیراڈائز بھی ہے۔ اس سے زیادہ واضح کیا کہا جا سکتا ہے۔ زیادہ ذمہ داری حکومت کی ہے کہ وہ اپوزیشن سے دشمنی کا واویلا قائم رکھنے کے بجائے ان سے تعاون کی طلب گار ہو۔ احتساب ضرور ہونا چاہیے‘ مگر احتساب انتقام نظر آئے گا تو کچھ حاصل نہ ہو گا۔ وزیر اعظم جلد امریکہ جا رہے ہیں۔ وزیر خزانہ آئی ایم ایف کے ساتھ مصروف ہو رہے ہیں۔ وزیر خارجہ ایک طویل دورے کے بعد امریکہ سے لوٹے ہیں۔ اس وقت حکومت کے سامنے ساری صورت حال ہو گی۔ وہ اچھی طرح سمجھ سکتے ہیں کہ انہیں پاکستان کو اس الجھن سے کیسے نکالنا ہے۔ میں بار بار عرض کر چکا ہوں یہ ہر ایک کی حب الوطنی کا امتحان ہے۔ حب الوطنی کو اوسط ذہن کے لوگ اپنی پناہ گاہ بنایا کرتے ہیں۔موجودہ صورت حال ان کی ذہنی صلاحیتوں کا تقاضا کرتی ہے۔ کیا ہم میں اس چیلنج کو قبول کرنے کی صلاحیت ہے۔ اصل سوال یہی ہے کہ حضور اس کا جبیں پرشکن جواب نہیں۔