پاکستان کی سیاست طعنے مارنے کی سیاست ہے اور اِس کی معیشت قرضوں کے اسٹیرائڈز پر چلتی ہے۔نہ سیاست میں کوئی سنجیدگی ‘ دُور اندیشی اور بُردباری ہے نہ معیشت میں منصوبہ بندی کے تحت اِسے مضبوط و مستحکم بنانے کی کوشش۔ بحیثیت قوم ہماری دُور کی نظر خراب ہے۔ ساری کوشش یہ رہتی ہے کہ آج کا دن گزرجائے۔ ان دنوں اپوزیشن جماعتیں وزیراعظم عمران خان کی حکومت پر طعنہ زن ہیں کہ انہوں نے ملک پر قرضوںکا بوجھ ڈال دیا۔ اپوزیشن کا دعویٰ ہے کہ ملک کو آئی ایم ایف کے پاس گروی رکھ دیا گیا ہے جس کے باعث مہنگائی بہت بڑھ گئی ہے۔ مطلب یہ کہ ملک کے جتنے موجودہ مسائل ہیں وہ آئی ایم ایف کے پروگرام سے وابستہ ہونے کی وجہ سے ہیں۔ پاکستان کی ہر حکومت خواہ فوجی ہو یا جمہوری‘ پیپلز پارٹی کی ہو یا مسلم لیگ کی یا تحریک انصاف کی ‘ عالمی مالیاتی اداروں اور مغربی ملکوں سے بھاری قرضے لے کر کام چلاتی رہی ہے۔البتہ جو پارٹیاں حزب اختلاف میں ہوتی ہیں وہ برسر اقتدار جماعت کو قرض لینے پر تنقید اور طعن وتشنیع کا نشانہ بناتی رہتی ہیں۔ دو ہزار آٹھ سے تیرہ کے درمیان پیپلزپارٹی کی حکومت تھی تو ن لیگ کے رہنما اس پرطعنے مارتے تھے کہ حکومت کشکول اٹھائے ہوئے ہے کیونکہ پیپلزپارٹی کی حکومت نے آئی ایم ایف سے قرض لیا تھا۔ جب دو ہزار تیرہ میں ن لیگ کی حکومت آئی تو وزیراعظم نواز شریف نے پہلا کام یہ کیا کہ آئی ایم ایف سے قرض لینے کا معاہدہ کرکے بجلی کے نرخ پچاس فیصد تک بڑھا دیے۔ اُس وقت اپوزیشن لیڈر خورشید شاہ تھے ۔ انہوں نے پھبتی کستے ہوئے کہا تھا کہ ن لیگ کی حکومت کا کشکول تو پیپلزپارٹی کی حکومت سے بھی بڑا نکلا۔ ہر حکومتی پارٹی کا موقف ہوتا ہے کہ اس نے ملک کو دیوالیہ ہونے سے بچانے کی خاطر قرض حاصل کیا جبکہ اپوزیشن الزام لگاتی ہے کہ حکومت ملک کو قرضوں کی دلدل میں پھنسا رہی ہے جن کا سارا بوجھ عوام پر پڑے گا۔ بیانات ایک جیسے رہتے ہیں صرف انہیں دینے والوں کے نام اور شکلیں بدل جاتی ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ ملک میں حکومت کسی جماعت کی ہو ‘ حکمران طبقہ ایک ہی ہے‘ وہ نہیں بدلتا۔ یہ حکمران طبقہ بڑے بڑے زمینداروں بزنس مینوں‘ نام نہاد مذہبی لیڈروں‘ سول و ملٹری بیورو کریٹس اورمیڈیا ہاوسزپر مشتمل ہے۔ حکومتی نظام ا سی طبقہ کے ہاتھ میں رہتا ہے‘ اِسی کی مرضی اور مفاد میں چلایا جاتا ہے۔ جب ایک وزیراعظم زیادہ غیر مقبول ہوجاتا ہے تو عوام کو لالی پاپ دینے کو حکمران طبقہ اُسے بدل کر اُوپرایک نیا چہرہ لے آتا ہے‘ حکومت انہی لوگوں کی رہتی ہے۔ ہمارے حکمران طبقہ نے ملک کو ہمیشہ اس طریقہ سے چلایا ہے کہ کاروبارِ حکومت بیرونی اور اندرونی قرضوں کے بغیر چل ہی نہیں سکتا۔ ہماری حکومتوں کے اخراجات ان کی آمدن سے دوگنا ہوتے ہیں۔ مثلاً رواں مالی سال میںوفاقی حکومت کی ٹیکس آمدن کا تخمینہ پانچ ہزار ارب روپے ہے جبکہ اخراجات ساڑھے آٹھ ہزار ارب روپے ہیں۔ یہ جوفرق ہے اسے اندرونی اور بیرونی قرضوں سے پُورا کیا جائے گا۔یہ رقم آسمان سے تو نازل نہیں ہوگی۔موجودہ حکومت نے اپنے پہلے ڈیڑھ سال میں ماضی میں لیے گئے بیرونی قرضوں اور ان کے سود کی ادائیگی کی مد میں تیرہ ارب ڈالریعنی تقریباً دو ہزار ارب روپے ادا کیے۔ اگلے کئی برس تک یہ حکومت ہر سال اتنی ہی رقم پرانے قرضوںکی واپسی میں ادا کرتی رہے گی۔ اندرونی قرضوںپر ادائیگیاںاس کے علاوہ ہیں۔ جب حکومت کی بیشتر آمدن قرضوں میں چلی جائے تو وہ باقی کاموں کے لیے فنڈز کہاں سے لائے؟ظاہر ہے مزید قرضے لے گی۔ ان قرضوں کی بدولت حکمران اور اس کی اتحادی دولت مند اشرافیہ ایک پُرتعیش زندگی گزارتے ہیں‘ خواہ اُن کا تعلق کسی سیاسی جماعت سے ہو۔ جب شروع میںوزیراعظم عمران خان کی حکومت نے آئی ایم ایف سے معاہدہ کرنے میں پس و پیش سے کام لیا اور چاہا کہ کوئی متبادل راستہ نکل آئے تونام نہاد ماہرین اور میڈیا نے حکومت کی اس پالیسی کے خلاف زبردست مہم چلائی۔ بالآخرایک سال بعد عمران خان کو اپنی معاشی ٹیم بدلنا پڑی اور عالمی ادارہ سے قرض کا معاہدہ کرنا پڑا۔ اگر عالمی اداروں سے قرض نہ لیا جائے تو پاکستان کی اشرافیہ کوپُورا ٹیکس دینا پڑے گا جس کے لیے وہ تیار نہیں۔پاکستان کے معاشی بحران کے اصل ذمہ دار حکمران اشرافیہ کے لوگ ہیں جو ملک کی سیاست اور معیشت پر قابض ہیں۔ ہمارے ملک میں کم سے کم چالیس لاکھ ایسے صاحبِ حیثیت افراد ہیں جنہیں قانون کے مطابق ٹیکس ادا کرنا چاہیے لیکن وہ ایسا نہیں کرتے۔ جو ٹیکس دیتے ہیں ‘ وہ بھی جتناضابطہ کے مطابق دینا چاہیے اس کا ایک تہائی مشکل سے ادا کرتے ہیں۔ زمیندار انکم ٹیکس سے مستثنیٰ ہیں ‘ ہماری اسمبلیوں میں ستّر فیصد ارکان بڑے زمیندار ہیں۔انہوں نے آئین ہی ایسا بنایا ہے کہ وفاقی حکومت ان پر انکم ٹیکس نہیں لگاسکتی۔ یہ ہرسال ایک ایک باغ کروڑوں روپے کا بیچتے ہیں لیکن وفاقی حکومت ان سے ایک پائی وصول نہیں کرسکتی۔ سندھ اور جنوبی پنجاب میں سینکڑوں‘ ہزاروں ایکڑزرعی اراضی کے مالک زمیندارہیں ۔آئین و قانون بنانے والے بھی یہی ہیں اس سے فائدہ اٹھانے والے بھی یہی ہیں۔دوسرا بڑا طبقہ تاجروں کا ہے جس سے اگر ٹیکس وصولی کی کوشش کی جائے تو ہڑتالوں پر چلا جاتا ہے‘ سارا معاشی نظام مفلوج کردیتا ہے۔ اس طبقہ کے چندوں پر مذہبی سیاسی جماعتوں کا انحصار ہے‘ وہ بھی تاجر طبقہ کی مدد اور حمائت کرتی ہیں۔ ہمارے حکمران طبقہ کے لوگ اور اُمرا عالمی بنک اور عالمی مالیاتی فنڈ کے قرجوں سے خوب فائدے اٹھاتے ہیں۔ ان قرضوں سے بننے والے منصوبوں میں بدعنوانیوں اور کمیشنوں کے ذریعے بھرپور عیاشیاں کرتے ہیں لیکن جب معاشی بوجھ ‘ تنگ دستی آتی ہے تو عوام کے قہر کا رُخ آئی ایم ایف کے طرف موڑ دیتے ہیں۔ یہ عوام کو اصل بات نہیں بتاتے کہ معاشی بحران کے ذمہ دار تو وہ خود ہیں۔ طعنے مارنے اور میڈیا کی سنسنی خیزی سے ملکی معیشت درست نہیں ہوگی ۔اس میں بہتری حکمران طبقہ اور اشرافیہ کو قابو کرنے سے آئے گی۔ یہ کام وہ حکومت کرسکتی ہے جس کی طاقت کا انحصاراشرافیہ پر نہ ہو‘عوام پر ہو۔ وزیراعظم عمران خان کوبڑے زمینداروں ‘ تاجروں ‘ پیشہ ور ماہرین سے ٹیکس وصولی بہتر بنانا ہوگی تب ہی وہ غریب عوام کو ریلیف دے سکیں گے۔