زندگی کے جس شعبے کو دیکھیے‘ تباہ و برباد ہی نظر آئے گا اور اس کا ذمہ دار تعلیم یافتہ طبقہ ہی دکھائی دے گا۔ چاہے تعلیم کا شعبہ ہو یا عدلیہ کا‘ میڈیا ہو یا کوئی بھی سرکاری ادارہ۔ پارلیمنٹ ہو یا ایڈمنسٹریشن یا کوئی بھی ادارہ۔ ان سارے اداروں میں آپ کو ہرطرف پڑھا لکھا طبقہ چھایا ہوا ملے گا اور ہر نالائقی‘ غیر ذمہ داری‘ بے ایمانی‘ ہیر پھیر اور سازش و کھینچا تانی میں پیش پیش وہی طبقہ‘ جسے تعلیم یافتہ کہا جاتا ہے۔ غور کرنا چاہیے کہ اس طبقے کی تعلیم میں ایسا کون سا زہر ہلاہل شامل تھا جس نے ان کے ضمیر کو سلا دیا اور عقل کو معطل کر دیا۔ ان کے کردار میں مفاد پرستی‘ موقع پرستی‘ غفلت‘ بے حسی اور عیاری و خوشامد پسندی اس درجہ پیدا کر دی کہ بہ حیثیت انسان‘ ایک اچھے انسان کے طور پر ضائع ہو گئے اور ان سے کسی خیر ‘ نیکی اور بھلائی کی امید وابستہ کی ہی نہیں جا سکتی۔ سرسید احمد خاں نے مسلمانوں کو جدید تعلیم دینے پر اصرار اس لئے کیا تھا کہ ان کی دنیا سنور جائے وہ جدید تعلیم حاصل کر کے کسب معاش کے قابل ہو سکیں۔ انہیں سرکاری نوکریاں مل سکیں اور وہ بھی حکومت میں شامل ہو کر اس کا کل پرزہ بن سکیں۔ لیکن عملاً ہوا کیا؟ ہوا یہ کہ مسلمانوں کے اس طبقے میں جو جدید تعلیم یافتہ ہوا‘ اس کے ذہن و ضمیر پر دنیا پرستی چھا گئی۔ اسے اپنا کیریر‘ اپنا معاشی مستقبل اسی درجہ عزیز ہوا کہ معاشرے اور افراد معاشرہ کے لئے اس کے دل سے ہمدردی اور درد مندی کے جذبات عنقا ہو گئے۔ سلامتی ‘ کردار اور عظمت کردار اس کے نزدیک محض لفظ رہ گئے۔ اس طبقے نے خود غرضی اور خود پسندی ہی کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنا لیا اور جس شعبے سے بھی منسلک ہوا اس شعبے کو اپنی مخصوص ذہنیت سے زہرناک کر دیا۔ بلا شبہ اس طبقے میں اچھے لوگ بھی تھے لیکن نہایت قلیل‘ آٹے میں نمک کے برابر۔ بالعموم اس طبقے نے رشوت ستانی اور بدعنوانی کو فروغ دیا‘ عوام کو ڈھور ڈنگر سمجھا اور زندگی کی ہر آسائش اور تنعم کو اپنا حق جانا۔ ترجمان حقیقت حضرت اقبال نے اس تعلیم یافتہ طبقے سے اپنی مایوسی بہت پہلے ظاہر کر دی تھی۔ اپنے ایک خط میں لکھتے ہیں: ’’میرا مدت العمر کا مطالعہ اور مشاہدہ مجھے یقین دلا چکا ہے کہ ہندوستان کے تعلیم یافتہ مسلمان بے کار ہیں‘ یہ مستحق التفات ہی نہیں‘‘ اس طبقے سے ان کی مایوسی بلکہ ناراضگی کا اندازہ ان کے اس جاہ و جلال سے معمور فقرے سے لگایا جا سکتا ہے جس میں انہوں نے فرمایا(اگر میں) قرون وسطیٰ کا ڈکٹیٹر بن جائوں تو اس گروہ کو ہلاک کر دوںٖ‘‘ اللہ تعالیٰ نے علامہ کو فراست مومن عطا کی تھی کہ وہ اللہ کے نور سے دیکھتے تھے اور ہر قومی و ملی مرض کو نہ صرف دیکھ لیتے تھے بلکہ اس کی تشخیص بھی کر لیتے تھے۔ ہمارے ملک میں آزادی کے بعد بیورو کریسی‘ فوجی جرنیل‘ جاگیردار، وڈیرے سیاست دانوں نے ایوان اقتدار میں سازشوں کا جو تانا بانا بنا اور جس طرح اس ملک کو جمہوری روایات کا امین نہ بننے دیا‘ متروکہ املاک کی بندر بانٹ میں افسر شاہی نے رشوت ستانی اور بے ایمانی کا جو بازار گرم کیا‘ وہ سارا کھیل اسی تعلیم یافتہ طبقے کی کارستانی تھی۔ جنرل ایوب خان بھی علی گڑھ ہی کے تعلیم یافتہ تھے اور وہ بھی جنہوں نے آئین سازی کے معاملے کو التوا میں ڈالے رکھا۔ علی گڑھ کے تعلیمی ادارے نے مسلم رائے عامہ کو پاکستان کے حق میں استوار کرنے میں زبردست خدمت انجام دی اور ان کی خدمات ہی کی وجہ سے قائد اعظم نے علی گڑھ کالج کو اپنا اسلحہ خانہ قرار دیا تھا لیکن قیام پاکستان کے بعد اس طبقے نے قوم سازی اور ملک سازی میں جس طرح سے مجرمانہ غفلت برتی۔ یہ اسی کا نتیجہ ہے کہ آج تک اس ملک و معاشرے کی منزل کھوٹی ہی رہی اور جانے کب تک کھوٹی ہی رہے گی۔ لوگ باگ مایوس ہو کے کبھی مولویوں کے طبقے کو برا بھلا کہتے ہیں، کبھی سیاستدانوں میں کیڑے نکالتے ہیں‘ کبھی فوجی آمروں کو ہر ابتری کا ذمہ دار ٹھہراتے ہیں لیکن بہ حیثیت مجموعی غور کریں تو ایک ہی بات درست ہے کہ جملہ زوال و انحطاط کا ذمہ دار’’تعلیم یافتہ طبقہ‘‘ ہے۔ بقول اشفاق احمد اس مملکت عزیز کو ان پڑھ اور جاہل لوگوں سے اتنا نقصان نہیں پہنچا جتنا لکھے پڑھے لوگوں سے پہنچاہے۔ کیوں کہ یہی وہ طبقہ ہے جو اپنے ذاتی مفادات کو قومی مفادات پر ترجیح دیتا ہے۔ جو اپنی مفاد پرستی اور موقع پرستی کا کوئی نہ کوئی عقلی جواز رکھتا ہے۔جسے اپنی ذات اور اپنے خاندان کے لئے فوائد بٹورنے کے علاوہ کچھ سوجھتا ہی نہیں۔ یہ طبقہ یا تو بینائی سے محروم ہے یا اسے اپنی ناک سے آگے دیکھنے کی توفیق ہی نہیں ہوتی۔ یہ خود بھی خود غرضی ہے اور اپنی اولادوں کے ذہنوں میں بھی یہی بٹھاتا ہے کہ اپنے کیریئر کو عزیز رکھو‘ صرف اپنے بارے میں اور اپنے معاشی مستقبل کی بات سوچو۔ ملک اور معاشرے کے حوالے سے سوچنا بیکار ہے۔ ’’تجھ کو پرائی کیا پڑی اپنی نبیڑ تو‘‘ ایسے محاورے اسی طبقے پر صادق آتے ہیں یا ان ہی کی خود غرضی اور بے حسی کے مشاہدے اور تجربے سے یہ محاورے وضع ہوئے ہیں۔ میرا ایمان ہے کہ جب تک یہ طبقہ درست نہ ہو گا‘ اپنی اصلاح کی فکر نہ کرے گا‘ اس ملک کو آزمائشوں کی بھٹی سے نجات نہ ملے گی۔ اسی جلتی سلگتی ہوئی بھٹی میں جل جل کر یہ قوم خاکستر بنتی رہے گی اور راہ نجات کی کوئی صورت دکھائی نہ دے گی۔ نوجوان نسل کو جو تعلیمی ادارے تعلیم دینے پہ مامور ہیں ان کے سامنے بھی مستقبل کا یہی منظر نامہ ہے اور والدین بھی ان تعلیم اداروں سے یہی توقع رکھتے ہیں کہ بھاری فیسوں کے عوض ان کے بچوں کو فرفر انگریزی بولنا سکھا دیں اور جب ان کے بچے‘ فارغ التحصیل ہو جائیں تو ایک بھاری تنخواہ و مراعات والے روزگار ان کے حصے میں آ جائیں اور بس۔کردار سازی‘ ذہن سازی‘ درد مندی‘ بے غرضی‘ حب الوطنی‘ انسانی اور اخلاقی اوصاف‘ ان سے اگر ان کے بچے بالکل خالی ہوں تو بھی فکر مندی کی ضرورت نہیں کہ انہیں اپنے اندر پیدا کر لینے سے بھلا کیا مل جائے گا۔ یہ تصورات ازکار رفتہ ہو گئے کہ ایسی تعلیم کا کیا حاصل جو اپنی ذات اور اپنے مفادات سے اوپر اٹھنا نہ سکھائے۔ زبان اور اخلاقیات کی بنیادی تعلیم سکولوں کے نصاب میں شامل نہیں۔ باقی دنیا جہاں کے مضامین کی کتابوں سے بچوں کے بیک اٹے رہتے ہیں بلکہ پھٹ پھٹ جاتے ہیں جنہیں کوئی ایماندار اور غریب موچی آٹھ دس روپوں میں سی دیتا ہے لیکن جو تعلیم ان بچوں کو دی جاتی ہے وہ ان کے اندر حرص و ہوس اور لالچ کے جذبات ہی پیدا کرتی ہے اور دوسروں سے مسابقت و مقابلہ ‘ ترقی کی دوڑ میں اتناتیز بھاگو کہ دوسروں کو پیچھے چھوڑ جائو۔ سکولوں میں دی جانے والی یہ تعلیم یہ اس تعلیم یافتہ طبقے کو جنم دیتی ہے جسے علامہ بیکار محض قرار دیتے ہیں اور ان کے صفحہ ہستی سے مٹ جانے اور مٹا دینے ہی میں اپنے معاشرے کی نجات دیکھتے ہیں۔ موجودہ وزیر اعظم سے اب کیا شکوہ کریں کہ ان کی حالت دیکھ کر ان پر رحم آتا ہے‘ اس درجہ کہ یہ یاد دلانا بھی اچھا نہیں لگتا کہ اقتدار میں آنے سے پہلے تک وہ تعلیم میں انقلاب برپا کرنے کے دعوے کرتے تھے۔ یکساں نصاب ‘یکساں زبان اور یکساں مواقع کے دعوے۔ لگتا تھا اقتدار میں آتے ہی وہ تعلیم کے میدان میں تبدیلی کا ڈول ڈالیں گے۔ لیکن اب طبیعت ترستی ہے کہ ان کی تقریر اور بیان میں کبھی تعلیم کا تذکرہ ہی سننے کو مل جائے۔ برطانیہ میں گریجوایٹ لیول کی تعلیم حاصل کرنے والے وزیر اعظم کو بھی جدید تعلیم نے یہی سکھایا ہے کہ وعدہ کرو اور بھول جائو۔ گوٹ کہیں پھنستی نظر آئے تو یو ٹرن لے لو۔ لیکن کب تک؟