وزیراعظم عمران خان نے تبدیلی کے نام پر مینڈیٹ حاصل کرنے کے بعد دوسال قبل اصلاحات کابیڑا اٹھایا۔بہتر کارکردگی اور شفافیت اپنا کر سالانہ کھربوں روپے نقصان کو منافع میں بدلنے کا عزم کیا۔مختلف شعبوں میں اصلاحات کیلئے کئی کمیٹیاں قائم کیں۔ کمیٹیوں کی سفارشات حتمی مراحل میں داخل ہوچکیں جس کے تحت کئی ادارے اور کمپنیاں بند جبکہ سینکڑوں ملازمین گھر بھیج دئیے جائیں گے۔ کئی ادارے لیز پر غیرملکی کمپنیوں کے حوالے کرنے کی تیاری بھی کی جاچکی ۔ائیرپورٹس کو غیرملکی کمپنیوں کو لیز پر دینے کا سلسلہ بھی حتمی مرحلے میں داخل ہوچکا ہے۔ اہم ہوائی اڈوں کی آؤٹ سورسنگ کیلئے مشیر تجارت عبدلرزاق داؤد کی سربراہی میں 6رکنی کمیٹی قائم کی گئی ۔کمیٹی کی جانب سے 6اجلاس منعقد کیے گئے۔کمیٹی کی رپورٹ میرے ہاتھ لگ گئی جس کے تحت حکومت نے تزویراتی اثاثے فضائی حدود کی حساسیت کو مد نظر رکھتے ہوئے سول ایوی ایشن اتھارٹی کو دو الگ اتھارٹیز میں تبدیل کر کے پاکستان سول ایو ی ایشن اتھارٹی اور پاکستان ایئرپورٹ اتھارٹی کے نام سے دو الگ اتھارٹیز قائم کرنے کا فیصلہ کیاہے۔ پاکستان سول ایوی ایشن اتھارٹی کو ریگولیٹری ذمہ داریا ں جبکہ پاکستان ایئرپورٹ اتھارٹی کو آپریشنل اور کمرشل ذمہ داریاں سونپی جائیں گی۔سول ایوی ایشن آرڈیننس 1960کو سول ایوی ایشن ایکٹ 2020سے تبدیل کیا جا رہا ہے ۔سول ایوی ایشن آرڈیننس میں ترمیم کرکے ایئرپورٹ سروس اور ایئر نیوگیشنل سروس کو آرڈیننس سے نکال دیا جائے گا۔پاکستان ایئر پورٹ اتھارٹی کے قیام کی سفارشات کی منظوری کے بعدایئر پورٹ کی کارکردگی میں بہتری لانے کیلئے پاکستان ایئر پورٹ اتھارٹی بل2020تیار کیا جائے گا۔ایئرپورٹس اور ایئر نیو گیشنل سروس کے اثاثوں کو پاکستان ایئرپورٹ اتھارٹی کو منتقل کر دیا جائے گا۔ہوائی اڈوں کی آؤٹ سورسنگ کا عمل دو مراحل میں مکمل کیا جائے گا۔پہلے مرحلے میں ہوائی اڈوں کو حکومتی فیصلے کے تحت کارپوریٹائزڈ کیا جائے گا تاکہ نجی سرمایہ کاروں کو سرمایہ کاری کیلئے راغب کیا جا سکے۔ایئرپورٹ اتھارٹی کے سب سے مؤثر ڈھانچے کیلئے آڈٹ فرم کی خدمات حاصل کی جائیں گی۔پاکستان سول ایو ی ایشن بورڈ کی جانب سے انتظامی طور پراتھارٹی کو الگ کرنے کی اصولی منظوری دے دی گئی ہے ۔ وزارت دفاع کی جانب سے ہوائی اڈوں کی آؤٹ سورسنگ کے عمل پر تشویش کا اظہار کیا گیا ہے۔وزارت دفاع کے نمائندے نے حساسیت کے پیش نظر بھارت اور اسرائیل کے شہریوں کو ہوائی اڈوں تک رسائی نہ دینے کا پرزور مطالبہ کیا ہے کیونکہ کراچی میں ایک پورٹ کا انتظام نجی کمپنی کے حوالے کیا گیا تھا۔دبئی میں موجود پورٹ سے وابستہ کمپنی کے ذریعے سے بھارتی شہریوں نے پورٹ قاسم پر موجود حساس ٹرمینل تک رسائی حاصل کرلی تھی ۔7ماہ تک بھارتی شہری براہ راست نجی ٹرمینل کیساتھ وابستہ رہے تاہم جب معاملہ میڈیا نے اٹھایا تو ایس ای سی پی نے سیکورٹی کلیئرنس کیلئے وزارت داخلہ کو معاملہ بھجوادیا ۔ وزارت داخلہ کے انکار کے بعد بھارتی شہریوں کو ٹرمینل کمپنی کے بورڈ سے فارغ کیا گیا۔ پاکستان ایئر فورس نے ہوائی اڈوں کی ترقی کیلئے سرمایہ کاروں کو راغب کرنے کی حمایت کرتے ہوئے قانونی طریقوں سے ضروری اقدامات اٹھانے کی تجویز دی ہے تاکہ سکیورٹی کے حوالے سے مشکلات کا سامنا نہ کرنا پڑے۔حیران کن طور پر کابینہ ممبران نے وزارت دفاع کی تجاویز پر تحفظات کا اظہارکیا ہے ۔ کابینہ ارکان نے وزیراعظم کے سامنے مؤقف اختیار کیا ہے کہ وزارت دفاع کی تجاویز اور عدالتی فیصلوں کے بعد ہوائی اڈوں کی بہتری کیلئے اٹھائے جانے والے اقدامات کا کوئی فائدہ نہیں لہٰذا عدالت سے رجوع کرکے عدالتی احکامات پر نظرثانی کروائی جائے۔ وزیراعظم عمران خان نے میرٹ‘ شفافیت اور بہتر کارکردگی کیلئے مختلف شعبوں میں اصلاحات کا عمل شروع کروایا مگر ان اصلاحات کی آڑ میں مخصوص عناصر اپنے مفادات کے حصول کیلئے سرگرم ہیں۔ وزیراعظم کو فیصلہ سازی کے حوالے سے دوتبدیلیوں پر قائل کرلیا گیا ہے جس کے نتائج اچھے ثابت نہیںہوںگے۔ کچھ وزراء ‘ارکان پارلیمان بہت بیتابی سے کمپنیوں کے بورڈ آف ڈائریکٹرز میں شامل ہونا چاہتے تھے تاکہ بورڈ میں اپنی موجودگی یقینی بناکر’ مطلوبہ نتائج‘ حاصل کئے جاسکیں۔ وزیراعظم کو قائل کیا گیا اور بالآخر وفاقی کابینہ سے ارکان پارلیمان کو سرکاری محکموں‘ اتھارٹیز اور کمیشنز کے بورڈز کا رکن بننے کی منظوری حاصل کرلی گئی ہے ۔ شرط کیا خو ب عائد کی ہے کہ ارکان پارلیمان کوئی مراعات نہیں لیں گے ۔ اب کوئی وزیراعظم کو بتائے کہ اربوں روپے کے معاملات سے متعلق فیصلہ سازی کیلئے بورڈ میں شامل ہونے والے ممبرکو دوتین لاکھ بورڈ فیس لینے کی قطعاً ضرورت نہیں ہوگی۔ انہی وزراء نے وفاقی کابینہ سے اپنی خواہشات کی تکمیل کیلئے ایک اور فیصلہ بھی کروالیاہے ۔وفاقی وزراء کی دیرینہ خواہش کے پیش نظر سرکاری کمپنیوں اور اداروں کے سربراہان کی تقرری کا اختیار وفاقی کابینہ سے واپس لینے کا عمل شروع کردیا گیا ہے۔ کابینہ ڈویژن نے تمام وزارتوں کو مراسلہ ارسال کردیا ہے۔ سرکاری اداروں اور کمپنیوں کے قانون اور قواعد میں ترمیم کرکے تعیناتی کا اختیار وفاقی کابینہ کے بجائے وزیراعظم‘ متعلقہ وزیراورسیکرٹری کو دیدیا جائے گا۔اس اقدام کے باعث وفاقی حکومت کی کمپنیوں اور اداروں کے سربراہان کی تقرری میں میرٹ اور شفافیت پر کمپرومائز ہوجائے گا۔ وفاقی کابینہ میں سمری پیش ہونے کے باعث دیگر وزراء امیدواروں کی تعلیم‘ تجربے‘شارٹ لسٹنگ اور دیگر شرائط پر کڑے سوالات کرتے ہیں جس کے باعث بیشتر کیسز میں متعلقہ وفاقی وزیر منظور نظر شخص کو تعینات کروانے میں ناکام ہوجاتا ہے۔ اصلاحات کی آڑ میں ذاتی مفاد اور اقرباپروری کی راہ ہموار کی جارہی ہے۔ ایسی اصلاحات ملک وقوم اور ڈگمگاتی حکومت کیلئے قطعا ًسودمند نہیں ہوں گی۔ دوسال بیت چکے ‘طعنوں کا تمغہ سینے پر سجانے کے بجائے ‘ـخلوص دل اورنیک نیتی کیساتھ اصلاحاتی ایجنڈے کو پایہ تکمیل تک پہنچایا جائے۔