سینٹ انتخابات میں اسلام آباد سے یوسف رضا گیلانی کی کامیابی کے بعد وزیر اعظم پاکستان عمران خان نے قومی اسمبلی سے اعتماد کا ووٹ لینے کا فیصلہ کیا ہے۔ وفاقی وزراء نے مشترکہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ متفقہ فیصلہ کیا گیا ہے کہ عمران خان ایوان سے اعتماد کا ووٹ لیں گے۔عمران خان نے کہا کہ وزیر اعظم کا عہدہ اہم نہیں نظام کی تبدیلی میرا مشن ہے۔ اگر عوامی نمائندوں کو مجھ پر اعتماد نہیں تو کھل کر سامنے آئیں۔ سینٹ انتخابات میں حکومتی امیدوار حفیظ شیخ کی شکست کے باوجود حکومت نے قومی اسمبلی سے خواتین کی نشست جیتی ہے۔ پی ٹی آئی کی فوزیہ ارشد نے 174ووٹ حاصل کئے جبکہ اس کے مدمقابل مسلم لیگ ن کی فرزانہ کوثر کو 161ووٹ ملے۔یوں 13ووٹوں کی برتری سے حکومتی امیدوار نے کامیابی سمیٹی ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ اسلام آباد سے سینٹ میں شکست حکومت کے لئے خطرے کی گھنٹی نہیں۔الیکشن میں فوزیہ ارشد اگر ہار جاتیں تو اس کے بعد کہا جا سکتا تھا کہ پی ٹی آئی کو شکست ہوئی ہے۔ حفیظ شیخ کی شکست میں ارکان پارلیمنٹ سے میل جول ،ان کے مسائل کے حل کے سنجیدگی اور ترقیاتی فنڈز کی فراہمی سمیت کئی دیگر عوامل موجود ہیں۔کیونکہ اگر پی ٹی آئی اور اس کے اتحادیوں نے عدم اعتماد کیا ہوتا تو فوزیہ ارشد کو اس قدر ووٹ نہ ملتے۔وزیر خزانہ کی سینٹ میں شکست کے بعد اپوزیشن کی سیاسی محاذ آرائی میں شدت دیکھنے میں آئی۔اس سے قبل پی ڈی ایم اتحاد کے پلیٹ فارم سے اپوزیشن جماعتیں اس بات کا اعلان کر چکی تھیں کہ وہ یوسف رضا گیلانی کی جیت کے بعد وزیر اعظم عمران خان پر عدم اعتماد کی تحریک لائیں گے۔ اپوزیشن جماعتیں ابھی اس کے بارے صلاح مشورے ہی کر رہی تھیں کہ وزیر اعظم عمران خان نے پارلیمنٹ سے اعتماد کا ووٹ حاصل کرنے کا جرأت مندانہ فیصلہ کیا ہے۔ اس فیصلے کی تحسین کی جانی چاہیے ۔ ایک حوالے سے یہ بڑا نازک فیصلہ بھی ہے کیونکہ اپوزیشن جماعتیں جنہوں نے مل کر ایک سیٹ حاصل کرنے کے لئے ارکان کو خریدا ‘انہیںترغیبیں دیں۔ مستقبل کے سنہری خواب دکھائے۔ ویڈیوز سامنے آنے کے بعد ان باتوں میں کسی قسم کے شک کی گنجائش نہیں بلکہ سید یوسف رضا گیلانی کے بیٹے نے تسلیم بھی کیا ہے کہ انہوں نے یہ مکروہ فعل کیا ہے۔ اس کے بعد وزیر اعظم عمران خان جب پارلیمنٹ سے اعتماد کا ووٹ لیں گے تو کیا اپوزیشن اتحاد اسے ناکام بنانے کی کوشش نہیں کرے گا۔ کیونکہ ان کا اصل ہدف وزیر اعظم عمران خان کو اقتدار سے علیحدہ کرنا ہے۔ اپوزیشن اتحاد ایڑی چوٹی کا زور لگائے گا کہ وہ وزیر اعظم عمران خان کو اعتماد کا ووٹ نہ لینے دیں بلکہ یہ قیاس آرائیاں بھی کی جا رہی ہیں کہ اپوزیشن اتحاد نے ایم این ایز کے ساتھ صرف یوسف رضا گیلانی کو ووٹ دینے تک معاہدہ نہیں کیا تھا بلکہ جنہوں نے گیلانی کو ووٹ دیا ہے، وزیر اعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد میں بھی وہ لوگ اپوزیشن کے ساتھ شامل ہوں گے ۔ اس لئے وزیر اعظم اور ان کی ٹیم کو اس بار ہوشیار رہنا ہو گا۔کہیں سینٹ سے بڑا اپ سیٹ نہ ہو جائے۔ وزیر اعظم عمران خان اگر ایوان سے اعتماد کا ووٹ حاصل کرنے میں کامیاب نہیں ہوتے تو کیا ان کی پارٹی نے ناکامی کی صورت میں نئے الیکشن کی تیاری کر رکھی ہے۔ اس وقت مہنگائی اور بے روزگاری سے عوام تنگ ہیں۔ اگر ان حالات میں الیکشن ہوتے ہیں، توپی ٹی آئی کو سخت عوامی مزاحمت کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ لہٰذا اس بار وزیر اعظم اور ان کی ٹیم کو نہ صرف اپوزیشن کے حربے ناکام بنانے ہونگے بلکہ پیسے سے لوگوں کے ضمیر خریدنے کی کوششوں کا بھی خاتمہ کرنا ہو گا تاکہ آئے روز کی بلیک میلنگ سے بچ کر ملک و قوم کے مفاد کے لئے کام کئے جا سکیں۔ سینٹ کی سیٹ کھونے کے بعد وزیر اعظم کو اپنی صفوں کا بھی جائزہ لینا چاہیے۔ کیونکہ ان کے نالائق اور نااہل مشیروں کی وجہ سے انہیں یہ دن دیکھنا پڑا ہے۔ وزیر اعظم کے مشیر اور معاونین نہ تو ارکان اسمبلی سے ملتے ہیں نہ ہی ان کے کام کئے جاتے ہیں۔ جس بنا پر حکومتی ارکان اور اتحادیوں نے مل کر اپنے دل کا غبار نکالا ہے۔وزیر اعظم عمران خان نے جب اتحادی ارکان سے ملاقاتیں کیں تو انہوں نے شکوئوں اور شکایتوں کے انبار لگا دیے تھے۔اڑھائی برس بعد وزیر اعظم ان سے مل رہے تھے۔ اس بنا پر اتحادیوں کے دلوں میں بے چینی پائی جاتی ہے۔ ان کے شکوے اور شکایتیں بجا ہیں کیونکہ ان کے ساتھ کیے گئے وعدوں کو ایفا نہیں کیا گیا۔اسی بنا پر سردار اختر مینگل نے ان سے علیحدگی اختیار کر لی ہے۔ اگر معاہدے کے مطابق اختر مینگل کے مطالبات کو حل کیا جاتا تو آج وہ اپوزیشن کے بنچوں پر بیٹھے نظر نہ آتے۔ اس لئے وزیر اعظم عمران خان اتحادیوں کے ساتھ کیے گئے معاہدے پر عملدرآمد یقینی بنائیں۔ ان کے حلقوں میں ترقیاتی کاموں پر توجہ دی جائے۔ اس کے علاوہ ایسے افراد کو وزیر مشیر اور معاون خصوصی بنایا جائے جو عوامی ووٹوں سے منتخب ہو کر آئے ہیں۔تاکہ کسی مشکل وقت میں وہ وزیر اعظم کے ساتھ کھڑے نظر تو آئیں۔وفاقی وزارء اپنے رویوں میں تبدیلی لائیں۔یم این ایز اور ایم پی ایز کے کاموں کو ترجیحی بنیادوں پر حل کریں تاکہ وہ ان کے شانہ بشانہ کھڑے نظر آئیں۔وزیر اعظم عمران خان اعتماد کا ووٹ لینے سے پہلے ایسے افراد کے چہرے بھی بے نقاب کریں جنہوں نے پیسوں کے عوض ووٹ بیچے ہیں۔