اس دوہرے صدمے کو کیسے بیان کروں‘ سمجھ میں نہیں آتا۔دو دنوں میں آگے پیچھے دونوں رخصت ہوگئے۔ مہربان ڈاکٹر اعجاز حسن قریشی بھی اور مرے پیارے سعود ساحر بھی۔ میں ان دونوں کے بارے میں ایک مضمون باندھ سکتا ہوں۔ ان کی عظمتیں گنوا سکتا ہوں۔ مگر میراتو دونوں ہی سے تعلق انتہائی ذاتی تھا۔ ڈاکٹر اعجاز حسن قریشی‘ الطاف حسن قریشی کے بڑے بھائی تھے۔ ایک زمانہ تھا کہ دنیا انہیں علی برادران کی طرح قریشی برادران کہتی تھی۔ الطاف حسن قریشی نے صحافت کی دنیامیں جو معرکے مارے اس سب کے پیچھے ان کے بڑے بھائی کی انتظامی صلاحیتوں کا بڑا ہاتھ تھا۔ میں نے ان کے ادارے میں کام کیا ہے۔ یہ ایک دبستان تھا۔ مجیب شامی‘ ضیاء شاہد ‘ ارشاد احمد عارف‘ عامر خاکوانی ایک طویل فہرست ہے جو اسی باغ میں پھلے پھولے۔ اردو صحافت میں زبان و بیان حتیٰ کہ اوقات تک کا خیال رکھنا اسی نے شروع کیا۔ یہ بھٹو کی جیل میں بھی رہے اور ضیاء کی جیل میں بھی۔ جب بھٹو نے انہیں گرفتار کیا تو ادارے نے مجھ پر اعتماد کیا اور میں ان پرچوں کا مدیر تھا جو زندگی اور اردو ڈائجسٹ کی جگہ اداکار کے نام سے شائع ہوئے۔ آغا شورش کشمیری سے میں نے یہ ڈیکلریشن حاصل کیا۔ خیر اس وقت یہ کہانی چھوڑیے انہوں نے نظریاتی محاذ پر ڈٹ کر مقابلہ کیا اور اردو ڈائجسٹ کے بعد زندگی اور پھر جسارت‘ان دنوں ان کی مار کہاں کہاں تک تھی۔ مجھے اعتراف ہے کہ ان کے ادارے میں وہ مالک یاہم ملازم نہ تھے۔ بلکہ ایک ہی گھرانے کے فرد تھے۔ جب یہ جیل گئے تو میں نے دفتر ہی میں بسیرا کر لیا۔ میراکھانا ڈاکٹر صاحب کے گھر ہی سے آتا تھا۔ ان اداروں سے علیحدگی کے باوجود ان سے تعلق کبھی ختم نہیں ہوا۔ میراہی نہیں ہم سب کا۔ کل الطاف حسن قریشی سے سامنا ہوا تو مجھے وہ اکیلے اکیلے سے نظر آیا۔ جوڑیاں ٹوٹ گئی ہیں۔ مگر صحافت کی اس روش نے جڑ پکڑ لی ہے جس کی بنیاد قریشی برادران نے رکھی تھی۔ خدا الطاف صاحب کو سلامت رکھے۔ ان کا وجود ہمارے لئے بڑا سہارا ہے اور ہمیں تاریخ کے ایک بہتے دریا کا حصہ بناتا ہے۔ سعود ساحر بھی مجاہدوں کے اسی قبیلے کے فرد تھے اور اس نے اسلام آباد میں بیٹھ کر طاقت کے مرکز کے اندر بڑی بے جگری سے نظریات کی جنگ لڑی ہے۔ مرا اس سے پہلا واسطہ اسی ادارے میں رہ کر ہوا۔ وہ راولپنڈی کے نمائندے کے طور پر ہمارے ساتھ شامل ہوئے، بھٹو کے زمانے میں لیاقت باغ پنڈی کا وہ جلسہ میں نہیں بھول سکتا جب گولیاں چلی تھیں اور اجمل خٹک لاشیں لے کر جلال آباد کی طرف روانہ ہو گئے تھے۔ سعود ساحر گولیوں کی اس بوچھاڑ میں مرے ساتھ تھا۔ ازراہ محبت وہ مجھے اپنا بڑا بھائی کہتا تھا اگرچہ عمر میں مجھ سے دس بارہ سال بڑا تھا۔ زندگی بھرکا معمول تھا کہ میں کسی بھی ادارے میں ہوں مگر جب اسلام آباد جانا ہوتا تو اپنی باگیں شاہ جی کو تھما دیتا۔ہم انہیں شاہ جی کہتے تھے۔پریس کلب کی سیاست ہو یا ٹرید یونین کی یا حق گوئی کا معرکہ ہو۔ سعود ساحر کے بڑے بڑے آمروں اور غاصبوں کی زبانیں بند کر رکھی تھی۔ اس زمانے میں جب ’’زندگی‘‘ اپنے عروج پر تھی۔مجیب شامی کے ساتھ مختار حسن‘ ممتاز اقبال ملک‘ سعود ساحر‘ ظہیر احمد‘ موسیٰ بھٹو‘ امان اللہ شاویز ئی، ایک ایک اپنی اپنی جگہ انجمن تھا۔ جب میں نے کراچی سے ’’تعبیر‘‘ نکالا تو اس ٹیم میں ہارون الرشید بھی آن شامل ہوئے۔یہ ٹیم اکٹھی رہتی تو جانے صحافت کی تاریخ کیا ہوتی۔ مجھے کئی لمحات یاد آ رہے ہیں جس میں فیصلے مختلف بھی ہو سکتے تھے۔ شاہ جی نے جسارت کے بعد امت میں بھی اپنے جوبن دکھائے اور ہر جگہ عزت کمائی۔حق مغفرت کرے‘ مجھے تو اپنے اس پیارے بھائی سے ہمیشہ عزت ملی ہے۔ وہ بہت جذباتی تھا۔ مگر تعلقات میں جذبات کو کنٹرول کرنا بھی جانتا تھا۔ میں اس وقت ان دونوں شخصیات سے زیادتی کر رہا ہوں کہ ان پر ایک ہی کالم میں گفتگو کر رہا ہوں۔ ان کے الگ الگ کارنامے ایسے ہیں کہ ان پر بڑی تفصیلی بات ہو سکتی ہے۔ پھر میں اسے صرف ذاتی صدمے کی بات بنا کر پیش کر رہا ہوں حالانکہ یہ تو تاریخ کے دو ابواب ہیں جن سے آنے والی نسلوں کو باخبر ہونا چاہیے۔ڈاکٹر اعجاز حسن کی بھی بات سنئے انہوں نے کارواں علم کے نام سے ایک ادارہ بنایا جس نے طالب علموں کی کروڑوں روپے سے مدد کی۔ ہزاروں طلبہ نے ان وظائف سے اعلیٰ تعلیم حاصل کی۔ بے شمار ایم بی بی ایس‘ ایم بی اے‘ انجینئرنگ وغیرہ کی اعلیٰ ڈگریاں حاصل کیں اور اس وقت وہ معاشرے کی خدمت کر رہے ہیں۔ انہوں نے اپنی انتظامی صلاحیتوں سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنی اولاد کو بھی کارآمد کاروبار کی طرف راغب کیا اور اس میں بھی بڑا نام کمایا۔ یہ سب مگر انہوں نے دیانتداری کے اصولوں پر کاربند ہوئے کیا‘ سعود ساحر کی خدمات کا اندازہ اس سے لگا لیجیے کہ راولپنڈی کے پریس کلب نے تین روزہ سوگ کا اعلان کیا ۔ یہاں ان دنوں پاکستانی پرچم سرنگوں رہے گا۔ یہ لوگ اپنے ساتھی کو یہی خراج تحسین پیش کر سکتے تھے۔ اسلام آباد میں شاہ جی کی بادشاہت تھی۔ اور یہ بادشاہت کسی جبر و جبروت کی وجہ سے نہیں تھی‘ ان کے احترام کا صلہ تھا۔ انہوں نے بلا شبہ بہت محبت کمائی ہے۔ مجھے افسوس رہے گا کہ میں ان کے جنازے میں شریک نہ ہو سکا۔ مجیب شامی صاحب نے اپنا حق ادا کیا۔ مگر جانے مرا فون اس دن کیوں خاموش تھا۔ وہ چاہتے تھے کہ ہم دونوں اکٹھے جنازے میں شریک ہو جائیں اپنے پرانے رفیق کار کے لئے مل کر دعائے مغفرت کر لیں۔ افسوس مجھے اطلاع نہ مل سکی اور میں ان کا ہم سفر نہ ہو سکا۔ الگ سے جانے کا وقت بھی نہ تھا۔ ڈاکٹر صاحب کی بہت سی باتیں یاد آنے لگی ہیں۔ کیا اس زمانے کی تاریخ کوئی لکھ سکے گا۔ مجھے خاص کر وہ دن یاد آ رہے ہیں جب صبح جیل جانا ہوتا‘ دوپہر کو ایم انور کے ہاں مقدمے کی تیاری ہوتی‘ شام کوئی جلسہ۔ ان دنوں قومی اسمبلی کا اجلاس نیا نیا شروع ہوا تھا۔میں وہاں تاریخ بنتے دیکھنے نہیں، اراکین اسمبلی کو صورت حال سے آگاہ کرنے کے لئے حاضر ہوتا۔کیا دن تھے جب ہم نے بھٹو کے خلاف جدوجہد کا آغاز کیا تھا۔ اس وقت تک ڈٹے رہے جب سول آمریت کو رخصت نہ کر لیا۔ حق مغفرت کرے ہمارے یہ لوگ بہت جیدارتھے اور تاریخ انہیں کبھی فراموش نہ کر سکے گی۔