کچھ ہفتے پہلے لکھا تھا کہ عمران نئے سول ملٹری تعلقات کی بنیاد رکھیں گے۔ یہ بھی لکھ چکا ہوں کہ اس سے پہلے جو لوگ اقتدار میں رہے وہ بین الاقوامی تعلقات میں کوئی فعال کردار ادا کرنے کے قابل نہیں رہے اس لیے قومی مفادات کی نئی شکل نے عمران خان کے لیے مواقع بڑھا دیے۔ مائیک پومپیو سی آئی اے کے سربراہ رہے ہیں۔ انٹیلی جنس پس منظر رکھنے والا شخص جانتا ہے کہ کس آدمی کی انا کو کیسے تسکین پہنچا کر اسے ڈھب پر لایا جا سکتا ہے۔ پومپیو جس طرح کی بڑھکیں لگاتے رہے ہیں حالیہ دورے کے دوران وہ ان بڑھکوں سے بہت مختلف نظر آئے۔ شاید وہ جانتے ہیں کہ اس بار جس شخص سے ان کا سابقہ پڑا ہے وہ بھلے سفارتی نزاکتوں سے واقف نہ ہو لیکن اسے اپنے ملک کی سکیورٹی مینجمنٹ کا مکمل بھروسہ حاصل ہے۔ مائیک پومپیو کے ہمراہ امریکی دفتر خارجہ کی خوش ادا ترجمان ہیتھر نورٹ بھی تشریف لائیں۔ مجھے ذاتی طور پر پومپیو کی نسبت ہیتھر سے ملنے کی آرزو تھی۔مگر وہ ڈاکٹر فیصل کے ساتھ تصاویر بنوا کر رخصت ہو گئیں۔ امریکہ کی نئی حکومت کی اب تک جو پالیسی دکھائی دی ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ گاجر اور چھڑی کی پالیسی ترک کر کے پاکستان کو صرف چھڑی سے چلانا چاہتے ہیں۔ پہلے فوجی سامان اور پرزے روکے گئے۔ پھر فوجی تربیت کے دروازے پاکستانی افسروں پر بند کرنے کا فیصلہ آیا اور چند دن پہلے کولیشن سپورٹ فنڈ کے 30کروڑ ڈالر روکنے کا اعلان کیا گیا ہے۔ ٹرمپ اور پومپیو مجھے پتھر دل لگتے ہیں اسی لیے میں ہیتھر نورٹ کو بتانا چاہتا تھا کہ انہیں پاکستانیوں کے بارے میں مزید جاننا چاہئے تاکہ جب وہ بین الاقوامی میڈیا سے بات کر رہی ہوں تو انہیں پتہ ہو کہ دنیا میں کئی چیزیں ایسی ہیں جو خوف اور دھمکی سے حاصل نہیں ہو سکتیں۔ مولانا روم لکھتے ہیں کہ ایک میلی نظر والے بادشاہ کو ہمسایہ بادشاہ کی ملکہ پسند آ گئی۔ بادشاہ نے اپنے سپہ سالار کو لشکر جرار دے کر ہمسائے کے پاس بھیجا اور پیغام بھیجا کہ اپنی ملکہ حوالے کر دو یا پھر جنگ کے لیے تیار ہو جائو۔ غیرت مند بادشاہ جنگ کرتا ہوا مارا گیا۔ امریکہ دنیا کی سپر پاور ہے۔ ایک بنجر اور غریب ملک افغانستان کی کیا حیثیت کہ وہ امریکہ کے سامنے کھڑا ہو سکے لیکن طالبان حکومت نے اپنا مہمان امریکہ کے حوالے کرنے کی بجائے خود کو برباد کرنا پسند کیا۔ مولانا رومی کی حکائت والے بادشاہ کو ملکہ پھر بھی نہ مل سکی تھی اسی طرح امریکہ کو سترہ سال بعد افغانستان میں فتح تو کیا باعزت واپسی کا راستہ نہیں مل رہا۔یہ راستہ پاکستان کے پاس ہے مگر پہلے امریکہ کو ہمارے بارے اپنی سوچ بدلنی ہو گی۔ ہم ذاتی طور پر چونکہ امریکی وفد کی ملاقاتوں میں شریک نہ تھے لہٰذا جو کچھ دونوں جانب سے تحریری اور تصویری شکل میں مواد جاری کیا گیا۔اس کا جائزہ لینے پر اکتفا کرتے ہیں۔ کچھ لوگوں نے شور مچایا کہ امریکی اور پاکستانی وزراء خارجہ نے مشترکہ پریس کانفرنس کیوں نہ کی۔ بین الاقوامی اور سفارتی امور کے ایک طالب علم کے طور پر میں سمجھتا ہوں کہ مذاکرات کے دوران کسی سمجھوتے پر پہنچنے والے فریقین کے پاس پریس سے بات کرنے کا اس قدر مواد ہوتا ہے کہ اس میں سے مذاکرات کا مثبت چہرہ برآمد کیا جا سکے۔ پاک امریکہ تعلقات خوشگوار ماحول میں نہیں ہو رہے تھے۔ ان مذاکرات کو صرف ڈپلومیٹک انگیجمنٹ کی سطح پر رکھا جا سکتا ہے جس میں فریقین ایک دوسرے کا نکتہ نظر سنتے ہیں اور ایک بار پھر مذاکرات پر آمادگی ظاہر کرتے ہیں۔ پاکستان کے نومنتخب وزیر اعظم کو مائیک پومپیو نے جھک کر تعظیم دی۔ سفارتی زبان میںاس کا ایک مطلب ہے۔ جس طرح سیاسی کالم کی زبان ادبی کالم سے مختلف ہوتی ہے اسی طرح سفارت کاروں کی باڈی لینگوئج سیاسی یا کاروباری افراد سے مختلف ہوتی ہے۔ پومپیو نے جھک کر امریکہ کی کمزوری کا تاثر نہیں دیا بلکہ عمران خان کے اس مطالبے کا احترام کیا ہے کہ ’’امریکہ ہم سے عزت سے بات کرے‘‘ مائیک پومپیو کے وفد نے وہی کچھ کہا جو صدر ٹرمپ کی پالیسی ہے اور جسے ہم پاکستانی پسند نہیں کرتے لیکن مذاکرات کی جو تصویر شائع ہوئی وہ بڑی دلچسپ ہے۔ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی اور آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ پرسکون مسکراتے چہرے اور چمکتی آنکھوں کے ساتھ پومپیو سے مخاطب عمران خان کی طرف دیکھے جا رہے ہیں۔ یقینا کبھی آپ کو ضروری معلومات حاصل کرنے کے لیے اگر سفارتی باڈی لینگوئج اور تصویروں کی زبان پر اکتفا کرنا پڑے تو آپ مایوس نہیں ہوں گے۔ پاکستان کی نئی حکومت نے فوجی قیادت کے ساتھ مکمل ہم آہنگی کا مظاہرہ کیا‘ عمران خان نے وفد سے ملاقات کے لیے قومی لباس کا انتخاب کیا۔ وفد کا استقبال وزارت خارجہ کے ایک افسر نے ایئر پورٹ پر کیا۔ وفد کی تواضع کا بہترین انتظام کیا گیا لیکن اس بار یہ تاثر پیدا نہیں ہونے دیا گیا کہ پاکستانی قوم سنجیدہ معاملات پر بات کرنے کے لیے بھی میز کو کھانے پینے کی چیزوں سے بھر دیتی ہے۔ صدر کلنٹن بھارت کے دورہ پر آئے تو پاکستان نے اسے اپنے بین الاقوامی وقار کا مسئلہ بنا لیا۔ کلنٹن پاکستان کو ناراض نہیں کر سکتے تھے اس لیے تھوڑی دیر کے لیے پاکستان آ گئے۔ بش جونیئر کے دور میں بھی ایسا ہی ہوا۔ صدر اوبامہ کے آتے آتے حالات بدل گئے۔ اب ٹرمپ امریکہ کی طنابوں کے مالک ہیں۔ وہ خود کو امریکی تاریخ میں رئیلزم کا سب سے بڑا پرچارک صدر تصور کرتے ہیں۔ ویسے بھی ڈیمو کریٹس کسی حد تک آئیڈلزم کے حامی ہیں مگر ری پبلکن رئیلزم کو دنیا میں امریکی طاقت کا ہتھیار رکھنا چاہتے ہیں۔ مائیک پومپیو اور جیمز میٹس نے بھارت میں جا کر حسب سابق پاکستان کو دھمکیاں نہیں دیں۔ بس دہشت گردوں کے خلاف کارروائی کا مطالبہ دہرایا جو شائد بھارت کے ساتھ تزویراتی تعلقات میں مروت کے تحت ضروری تھا۔ لیکن امریکی وزراء خارجہ و دفاع نے بھارت کے ساتھ جن معاہدوں پر بات چیت آگے بڑھائی ان میں حساس دفاعی ٹیکنالوجی‘ نیو کلیئر سپلائر گروپ میں شمولیت اور بھارت کو چین کے مقابل ایک فوجی طاقت کے طور پر کھڑا کرنے کا مقصد دکھائی دیتا ہے۔ جن دنوں میں نے ایک قومی اخبار میں بین الاقوامی امور پر لکھنا شروع کیا تھا تب کہا تھا کہ امریکہ بھارت کی ابھرتی معیشت کے ثمرات بھارتی عوام کی خوشحالی کی صورت میں سامنے نہیں آنے دے گا بلکہ بھارتی دولت کو امریکی دفاعی صنعت کا منافع بنا کر ہتھیا لے جانے کی منصوبہ بندی کر رہا ہے۔ امریکی وزیر مشیر آتے رہیں گے اگر آپ امریکہ کی ضرورت نہیں رہے تو وہ آپ کو دھمکائیں اور ڈرائیں گے۔ اگر آپ ان کی ضرورت ہیں یا ان کے حربے ان پرالٹانے کی صلاحیت رکھتے ہیں تو یہ آپ سے گالیاں کھانے کو بھی راضی ہو سکتے ہیں۔ میرا دل چاہتا ہے کہ پاکستان ایک بار پھر امریکہ کی ضرورت بنے اور امریکی ترجمان ہیتھر نورٹ ہم سے ملنے ایک بار پاکستان آئیں۔