اسلام آباد(خبر نگار)عدالت عظمٰی نے فیڈرل بورڈ آف ریونیوسے متعلق ایک مقدمے کی سماعت کے دوران ادارے کی کارکردگی کے حوالے سے سنجیدہ سوال اٹھائے ہیں اور آبزرویشن دی ہے کہ جب اسی فیصد ٹیکس ان ڈائریکٹ (بلواسطہ )جمع ہوتا ہے تو ایف بی آر کی کیا ضرورت رہ جاتی ہے ؟۔کیس کی سماعت کرنے والے دو رکنی بینچ کے سربراہ جسٹس گلزار احمد نے ایف بی آر پر برہمی کا ظہار کرتے ہوئے کہا کہ ایف بی آر تو ملک پر بوجھ ہے ، کہتے ہیں ایف بی آر کو ختم کردیں۔فاضل جج نے سوال اٹھایا کہ دیکھے کتنا پیسہ جمع ہوتا ہے ، کھربوں روپیہ ہر سال چلا جاتا ہے ،ایف بی آر کی بائیس ہزار کی فوج کیا ریکوری اکٹھی کرے گی۔انھوں نے کہا اسی فیصد ٹیکس ان ڈائریکٹ جمع ہوتا ہے ،صرف 20 فیصد ریونیو اکٹھا کرنے کے لیے 22 ہزار بندے ایف بی آر میں رکھے گئے ہیں۔عدالت نے ایف بی آر کے ملازم محمد انور گورایہ کے حق میں فیڈرل سروسز ٹربیونل کے فیصلے کے خلاف ادارے کی اپیل ایف بی آر کے وکیل کے دلائل سننے کے بعد مسترد کردی ۔علاوہ ازیں عداالت عظمٰی نے کراچی میں پولیس کی فائرنگ سے نو عمر بچی امل عمر کی ہلاکت کے معاملے میں ازخود نوٹس کیس کی سماعت کرتے ہوئے سندھ میں سندھ میں صحت اور امن ومان کی صورتحال پر شدید تحفظات کا اظہار کیا ۔ جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں دو رکنی بینچ نے از خود نوٹس کیس کے دوران نیشنل میڈیکل سنٹر کے خلاف انکوائری کرنے کا حکم اور سندھ ہیلتھ کیئر کمیشن کو ایک ماہ میں انکوائری رپورٹ جمع کرانے کا حکم دیدیا۔عدالت نے امل کے والدین کو امدادی رقم نہ دینے پر سندھ حکومت سے جواب بھی طلب کیا جبکہ صوبائی حکومت کو امل عمر ایکٹ پر عملدرآمد یقینی بنانے کی ہدایت کی۔دوران سماعت جسٹس گلزار احمد نے سندھ حکومت اور کراچی پولیس پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ سندھ میں ہسپتالوں اور پولیس کی صورتحال ابتر ہے ، تعلیم اور صحت کے شعبہ میں پیسہ خرچ کرنے کی ضرورت ہے ، کراچی پولیس کی فائرنگ سے پہلے بھی کئی لوگ مارے جا چکے ،پولیس نے فائر کہیں اور مارنا ہوتا ہے اور بندوق کہیں اور ہوتی ہے ،اسلحہ صرف پولیس افسران کے پاس ہونا چاہیے نہ کہ اہلکاروں کے پاس،کراچی میں ٹریفک سگنل پر رکے لوگ لوٹ لیے جاتے ہیں۔سرکاری وکیل نے بتایا ہسپتالوں کے حوالے سے امل عمر ایکٹ منظور کر لیا گیا ، نجی ہسپتال علاج کرنے کے پابند ہونگے ۔دریں اثناسپریم کورٹ نے خاتون پر تیزاب پھینکنے والے ملزم علی اعوان کی بریت کی درخواست خارج کرتے ہوئے 10سال قید کی سزا کا فیصلہ بحال رکھا ہے ۔دوران سماعت جسٹس منظور ملک نے ریمارکس د یتے ہوئے کہا کہ کیوں نہ ملزم کی سزا بڑھا دیں کیونکہ عورت پر تیزاب پھینکنے کا جرم انتہائی اذیت ناک ہے ، خاتون کا چہرہ ضائع ہو جائے تو پھر اس کی باقی زندگی کیا ہے ، عورت پر تیزاب پھینکنے سے بہتر گولی مار دی جائے ۔