اسلام آباد (وقائع نگارخصوصی)پبلک اکائونٹس کی ذیلی کمیٹی نے وزارت داخلہ اورا سکے ذیلی اداروں فرنٹیئر کانسٹیبلری اور رینجرز کے وزارت خزانہ کی اجازت کے بغیر کمرشل بینکوں میں پرائیویٹ اکائونٹ کھولنے پر سخت برہمی کا اظہارکرتے ہوئے وزارت داخلہ کو مفصل میکنزم بنانے کی ہدایت کر دی تاکہ ملک بھر میں یکساں پالیسی ہواور آڈٹ حکام کے اعتراضا ت کم سے کم ہوں ۔ذیلی کمیٹی نے انسپکٹر جنرل ایف سی کو آئندہ اجلاس میں لازمی پیش ہونے کی بھی ہدایت کی جس پر سیکرٹری داخلہ نے کہا کہ وہ آئندہ پی اے سی اجلاس میں آئی جی ایف سی کی حاضری یقینی بنائیں گے ۔ ذیلی کمیٹی کا اجلاس گزشتہ روزسینیٹر شبلی فرازکی سربراہی میں ہوا جس میں وزارت داخلہ کے ذیلی اداروں سے متعلق مالی سال 2010-11کے آڈٹ اعتراضات نمٹائے گئے ۔آڈٹ حکام نے بتایاکہ فرنٹیئر کانسٹیبلری پشاور نے جون 2010میں 25کروڑ ایف سی کے اکائونٹ سے نکلواکر نیشنل بینک میں ایک پرائیویٹ اکائونٹ کھلوایا ، ایف سی نے مذکورہ فنڈز سے خریدی گاڑیاں اور دیگر اخراجات وزارت خزانہ سے ریگولرائز بھی نہیں کرائے ۔ سیکرٹری داخلہ نے بتایاکہ ایف سی سے متعلق آڈٹ پیراز سابق ایف سی کمانڈنٹ جنرل طارق خان دور کے ہیں ۔سیکرٹری داخلہ نے کہاکہ وہ آڈٹ اعتراضات سے متفق ہیں اور وہ ایک ماہ کے اندر ڈی اے سی میں تمام معاملات پر کارروائی کرینگے ، بینک اکائونٹ منتقلی پر وزارت داخلہ انکوائری بھی کریگی ۔آڈٹ حکام نے وزارت داخلہ کے ممنوعہ اور غیر ممنوعہ بور کے اسلحہ لائسنسوں میں جعلی ریکارڈ کی وجہ سے خزانے کو 10کروڑ نقصان کے بارے میں وضاحت مانگی جس پر سیکرٹری داخلہ نے بتایاکہ ڈیڑھ کروڑ روپے ریکور ہوگئے جبکہ باقی ساڑھے آٹھ کروڑ کی تصدیق ہونی ہے ،کیس میں ڈیپارٹمنٹ کا نچلے درجہ کا عملہ ملوث تھا جس سے ریکوری نہیں کی جاسکتی ۔ایک اور آڈٹ پیرا میں صوبائی حکومتوں سے ایف سی اور رینجرز کی خدمات کے عوض بقایاجات کی مد میں 88کروڑروپے کے بارے میں سیکرٹری داخلہ نے بتایاکہ وزارت نے صوبائی حکومتوں کو متعدد بار وصولیوں کیلئے خطوط لکھے ہیں ۔ ایک اور آڈٹ پیرے میں ذیلی کمیٹی نے ایف بی آر اور سندھ ریونیو بورڈ کو خطوط کے ذریعے واضح طورپر ہاں یا نہ میں جواب دینے کی ہدایت کی کہ وہ رینجرز کی طرف سے خریدی گئی زمین پر لاگو سٹیمپ ڈیوٹی اور سی وی ٹی کے بارے میں جواب دیں تاکہ یہ زمین رینجرز کے نام ہوسکے ۔