جنگیں اسلحہ بارود سے نہیں نصرت الٰہی ‘حق پر ہونے کے یقین سے جیتی جاتی ہیں۔ یہ یقین کی قوت ہی تھی جس نے 313کو بے سروسامانی میں ایک ہزار کے مقابل لاکھڑا کیا۔ تباہ حال افغانیوں کو یقین کی قوت نے ہی دنیا کی واحد سپر پاور کے سامنے سینہ سپر ہونے کا حوصلہ دیا۔ آخر دنیا بھر کے وسائل اور وقت کی جدید ترین ٹیکنالوجی یقین کے سامنے گھٹنے ٹیکنے پر مجبور ہوئی۔ افغان طالبان اور امریکہ کے مابین مذاکرات اور امن معاہدے پر اصولی اتفاق کوئی معجزہ نہیں عزم واستقلال کی بے یقینی پر فتح تھی ۔یہ کم ہے کہ آج دنیا ٹرمپ کے مذاکرات کی میز پلٹ دینے کے اسباب اور محرکات پر بحث کر رہی ہے۔ بلوم برگ کے تجزیہ نگار جوناتھن برن سٹین نے اسے ٹرمپ کے اختیارات کے بے پناہ اور بے جا استعمال پر امریکی سسٹم کو سزا وارقرار دیا ہے تو میٹ کلاس مین نے دنیا کے طاقتور ترین ملک کے کمزور ترین صدر کے فیصلوں کی امریکی کانگرس کی جانب سے بے توقیری کہتے ہوئے لکھا ہے کہ امریکی نظام مسلسل صدر کو سزا دے رہا ہے مگر امریکی صدر اس بات کو تسلیم کرنے پر ہی آمادہ نہیں۔ امریکی صدر نے تھوکا چاٹنے کی وجہ عین مفاہمت کے زورکابل میں حملہ بتائی ہے جس میں ایک امریکی فوجی سمیت بارہ افغان شہری مارے گئے۔ امریکی صدر کے جواز کو مگر دنیا تسلیم کرنے کو تیار نہیں اس لئے ہر کوئی سچ کو اپنی آنکھ سے دیکھنے کی کوشش کر رہا ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ عالمی استعمار کا سانپ جس طرح دنیا بھر کے وسائل پر کنڈی مار کر بیٹھا ہوا ہے۔ طالبان کی ضرب نے اسے متاع چھوڑ کر بھاگ جانے کا سوچنے پر مجبور کر دیا تھا پھر عالمی منظر نامے پر کچھ تبدیلیاں ایسی رونما ہوئیں کہ افغانستان کی چھپکلی اب نہ نگلی جا رہی ہے نہ حلق سے اتر رہی ہے۔ امریکی صدر نے پینٹا گان کو یقین دلایا تھا کہ امریکہ افغانستان کے جہنم سے نکل کر بھی خطہ میں اپنے مفادات کا تحفظ اپنے نئے سٹریٹجک پارٹنر بھارت کے ذریعے کر سکتا ہے۔ ظاہر ہے ٹرمپ سے ملاقاتوں میں مودی نے بھی کشمیر میں ثالثی اور مودی کے سر پر بالادستی کا تاج رکھنے کی صورت میں چین کی ترقی کے آگے سیسہ پلائی دیوار بننے کا یقین دلایا ہو گا۔ چوری کھانے والا بھارتی بنیا ایک طرف امریکہ سے خطہ کی تھانیداری کی صورت میںچوری اور دوسری طرف ایران کے سستے تیل اور عرب ریاستوں سے تجارت کی ملائی سمیٹنے کے خواب دیکھ رہا تھا ۔عرب ممالک، امریکہ یہاں تک کہ اسرائیل سب بھارت کی دوستی کا دم بھرنے لگے تھے۔ ان حالات میں بھارت کا ایشیا کی سپر پاور بننے کے خواب دیکھناکوئی اچھنبے کی بات نہیںتھی۔ مگر آج کی دنیا وہ شطرنج نہیں جس میں دو کھلاڑی ہی اپنے مہرے چلتے ہیں۔ دنیا مونو پاور سے پولی پاور کی طرف تیزی سے بڑھ رہی ہے ۔امریکہ نے خطہ کے مفادات کا بوجھ بھارت کے ناتواں کندھوں پر ڈال کر خطہ سے نکلنے کا سوچا ہی تھا کہ بھارت میں بیٹھے ایران کے سفیر نے عین وقت پر ’’ای سی پیک‘‘ میں شمولیت کا عندیہ دے کر امریکہ اور بھارت کے منصوبوں پر پانی پھیر دیا۔ ایران نے دوسری چال افغانستان سے بھارت کی طرف سے چاہ بہار کی تعمیر میں دانستہ تاخیر کا گلہ کر کے چلی‘ امریکی اور بھارتی منصوبہ ساز ای سی پیک کا نام سن کر چکرا گئے یہ سی پیک میں (E) ون بیلٹ ون روڈکے ساتھ گیس ایل این جی پائپ لائن ہے اور E انرجی کا اضافہ ہے۔ بھارت میں مقیم ایران کے سفیر نے اس منصوبے میں روس کی سرمایہ کاری اور معاونت کی نوید سنا کر امریکہ کے نیو ورلڈ آرڈر کے خوابوں کو چکنا چور کر دیا۔ ایران پاکستان ‘ترکی‘ چین اور روس کا اتحاد امریکہ اوربھارت کے گیم پلان کے آگے سب سے بڑی رکاوٹ بنتا دکھائی دینے لگا ہے۔ اس صورت میں بھارت کے لئے پاکستان کو روند کر چین کے مقابل کھڑے ہونے کا خواب پورا ہو سکتا ہے نہ ہی امریکہ کی چین کو متبادل نظام لانے سے روکنے کی خواہش پوری ہو سکتی ہے۔ امریکہ نے تو چین کے خلاف گھیرا تنگ کرنے کے لئے بھارت کو ایرانی تیل خریدنے کے لئے استثنیٰ تک جاری کیا تھا۔ بدلتے عالمی حالات نے جہاں بھارت کو ایک بار پھر روس کی چوکھٹ پر ماتھا ٹیکنے پر مجبور کر دیا ہے وہاں امریکہ کی افغانستان سے نکل کر مشرق وسطیٰ بالخصوص ایران کے خلاف جنگ چھیڑ کر عرب علاقوںمیں اسرائیل کی بستیاں آباد کرنے کا خواب بھی خواب ہی رہ گیاہے۔ ایران کے سفیر کے ایک انٹرویو نے مودی کو روس کواربوں ڈالر کے معاہدوں کی رشوت دینے پر مجبور کر دیا تو دوسری طرف امریکہ افغانستان کی دلدل میں پھر سے خود ہی کود جانے پر مجبور ہوا۔ اس صورت حال پر ’’دی ہندو ‘‘نے تبصرہ کرتے ہوئے لکھا ہے کہ انہوں نے واضح اشارہ دیا ہے کہ بھارت بدلتے منظر نامے میں اپنے تمام انڈے امریکی ٹوکری میں ڈال کر فاش غلطی کا مرتکب ہو رہا ہے۔ بھارت پاکستان دشمنی میں سی پیک سے باہر رہ کر اپنی معاشی تباہی کو صرف اس لئے دعوت دے رہا ہے تاکہ کشمیر پر اپنا دعوی مضبوط کر سکے۔ ایک سچ دی ہندو نے لکھا دوسرا سچ کشمیر میں آشکار ہو رہا ہے۔ کشمیریوں نے بھارتی بربریت کے خلاف سربہ تسلیم خم ہونے سے انکار کر دیا ہے عالمی برادری کشمیر کی آواز بن رہی ہے، یہاں تک کہ امریکہ بھی کشمیریوں کے حق میں بولنے پر مجبور ہے۔ دنیا میں نئی صف بندیاں ہو رہی ہیں۔ سرمایہ داری اور استعمار کے خاموش سمندر میں یہ ارتعاش یقینا طالبان اور ایران پیدا کر رہے ہیں ۔جدید دنیا کے حربی ہتھیار جدت اختیار کر چکے اسلحہ بارود اہم ہے مگر اس کی حیثیت ثانوی ہو چکی، ففتھ جنریشن وار، میڈیا ڈپلومیسی ‘ معیشت اور مشترکہ قوت کی چومکھی جنگ کا نام ہے۔ یہ چومکھی واحد سپر پاور کے کمزور اقوام کے خلاف طاقت کے بہیمانہ استعمال اور دس لاکھ انسانوں کے خون ناحق کا نتیجہ ہے ۔ دنیا ایک بار پھر طاقت کا توازن ٹھیک کرنے پر مجبور ہوئی ہے ‘معجزہ تو یہ ہے کہ دنیا بھر کے وسائل اور جدید ہتھیاروں سے لیس اندھی طاقت کا مقابلہ نہ صرف ایک کمزور تباہ حال قوم کر رہی ہے بلکہ واحد سپر پاور کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور بھی کر رہی ہے۔ ایسا کیونکر ممکن ہوا۔ اس لئے کہ جنگیں اسلحہ بارود سے نہیں یقین کی قوت سے جیتی جاتی ہیں حق پر یقین اور عزم و استقلال وقت کی دھارا بدل دیتا ہے اور بدل کر ہی رہے گا۔