یہ جو برطانوی پارلیمانی نظام ہے، ہمارے لئے زہر قاتل ہے۔ میں جس خرابی پر غور کرتا ہوں۔ بات اس نظام تک پہنچ جاتی ہے۔ اس نظام کے تحت جس طرح کے حکمران برسراقتدار آتے ہیں، وہ آپ کے سامنے ہے۔ پاکستان میں میاں نواز شریف تین بار وزیر اعظم بنے۔ زرداری میاں چار پانچ سال تک صدر رہے ۔ وہ اب بھی ایک صوبے کے مالک و مختار ہیں۔ آپ ہی انصاف سے فرمائیے کہ یہ دونوں ان عہدوں کے مستحق تھے اور کیا کبھی عوام نے چاہا تھا کہ ان کے سروں پر وہ لوگ مسلط ہوں جو دنیا بھر میں کرپٹ۔ نااہل اور بے ایمان مشہور ہیں۔ کہنے کو ہم ایک اسلامی ملک ہیں‘ صاحبو‘ اسلامی ملک کے حکمران ایسے ہوتے ہیں۔ میں بہت غور کرتا ہوں کہ ان حکمرانوں میں مجھے صرف ایک ایسی صفت مل جائے جو ایک اچھے حکمران میں ہونی چاہیے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ یہ لوگ عوام کی مرضی سے حکمران نہیں بنتے بلکہ انہوں نے مکاری اور بے ایمانی کی بنیاد پر ایک ایسا نظام بنا رکھا ہے جو انہیں مسند اقتدار تک پہنچا دیتا ہے۔ یہ لوگ ووٹ کو سیڑھی بنا کر حکمران بن جاتے ہیں اور عوام کی کھال اتارنا شروع کر دیتے ہیں۔ عوام کو مجبوراً ان میں سے کسی کو ووٹ دینا پڑتا ہے حالانکہ انہیں خوب پتہ ہوتا ہے کہ یہ لوگ غریبوں کے ہمدرد نہیں ہیں بلکہ لوٹ مار کر کے بے پناہ دولت اور جائیداد بنانے کے چکر میں ہوتے ہیں۔کہا جاتا ہے کہ ووٹ کو عزت دو نہ ہوا کوئی صحیفہ آسمانی ہو گیا کہ اس کا احترام ہر شخص پر واجب ہے۔ لیجیے میں آپ پر ووٹ کی حقیقت واضح کرتا ہوں۔ ووٹ غریب اور نادار عوام کو چند روپے دے کرخرید لئے جاتے ہیں۔ ووٹ عوام سے جھوٹے وعدے کر کے لئے جاتے ہیں۔ ووٹ حاصل کرنے میں سرکاری افسروں کو استعمال کیا جاتا ہے۔ جعلی ووٹ ڈالے جاتے ہیں مذہبی ‘لسانی‘صوبائی اور فرقہ وارانہ تعصبات کو ابھار کر جاہل عوام کو بے وقوف بنایا جاتا ہے۔ ووٹ دھمکیوں سے بھی لئے جاتے ہیں۔فیوڈلز کی زمینوں پر جو لاکھوں غریب ووٹر دیہات میں رہتے ہیں‘ ان کے لئے لازم ہوتا ہے کہ وہ اسی فیوڈل کو ووٹ دیں جس کے رحم و کرم پر وہ ہوتے ہیں۔یہ جو ELECTABLESہیں۔ ان کی سیٹ پکی ہوتی ہے۔ وہ کسی بھی پارٹی میں ہوں ان کا جیتنا لازمی ہے۔ ان کی موجودگی میں کوئی شخص ان کے مقابلے میں الیکشن نہیں لڑ سکتا۔ عوام مجبوراً انہی حضرات کو ووٹ دیتے ہیں۔ ایک اور سوال اس نظام کے تحت جو شخص وزیر اعظم بنتا ہے کیا وہ سارے عوام کا نمائندہ ہوتا ہے؟ بالکل بھی نہیں۔ وہ صرف ایک طبقے سے منتخب ہوتاہے۔ جہاں کے ووٹروں کو اس نے عرصے سے قبضے میں کیا ہوتا ہے۔ میاں نواز شریف کا حلقہ گوالمنڈی لاہور ہے۔ میاں صاحب نے اس حلقے کے عوام پر بے حد مہربانیاں کی ہوتی ہیں۔لہٰذا یہ طبقہ اب میاں صاحب کی ذاتی ملکیت ہے۔ لیکن میاں صاحب کے پاس 22کروڑ عوام والے ملک میں صرف چند لاکھ ووٹ ہوتے ہیں۔ اسی طرح جو دوسرے منتخب لوگ ہیں انہوں نے اپنے اپنے حلقے پکے کئے ہوتے ہیں۔ الیکشن کے بعد یہ سب لوگ مل کر کسی ڈان کو لیڈر آف دی ہائوس منتخب کر لیتے ہیں، جو وزیر اعظم بن کر بادشاہوں کی طرح عوام کو غلام سمجھ کر ان پر حکومت کرنے لگتا ہے۔ یہ نظام انگلینڈ میں کامیاب ہو سکتا ہے۔ پاکستان میں اس نظام کی مدد سے عوام دشمن لوگ ملک کو یرغمال بنا لیتے ہیں۔اس نظام کے تحت قابل‘ محب وطن‘ مخلص‘ بے غرض اور لائق لوگ کبھی اوپر نہیں آ سکتے۔اس نظام میں وزیر تعلیم جاہل ہو گا، وزیر قانون‘قانون شکن ہو گا‘ وزیر اعلیٰ ‘ اعلیٰ درجے کا کرپٹ اور بے ایمان ہو گا۔ یہی حال دوسری وزارتوں کا ہے۔ یہاں کوئی شریف اور اہل شخص الیکشن لڑنے کا سوچ بھی نہیں سکتا۔ سیاست کی مثال ایک گندے نالے کی ہے۔ اس نالے میں وہی چھلانگ لگائے گا جو خود غلیظ اور ناپاک ہو گا۔ اگر کبھی اتفاق سے کوئی اچھا بندہ اوپر آ جائے تو اس کا ناطقہ بند کر دیا جاتا ہے۔ آج کی صورتحال اس بات کا ثبوت ہے۔ عمران خان کرپٹ نہیں ہے۔ مخلص ہے۔ محنتی ہے ،ایماندار ہے۔ محب وطن ہے، لائق ہے۔ لیکن اس طبقے کے لئے سوہان روح بنا ہوا ہے، جو ستر سال سے اس ملک کو لوٹ رہا تھا۔ ان کے منہ کو غریب عوام کا خون لگا ہوا ہے۔ ان کی سمجھ میں نہیں آتا کہ عمران خان سے کیسے نجات حاصل کی جائے۔ عمران ان لوگوں پر اللہ کے عذاب کی شکل میں نازل ہوا ہے۔ یہ لوگ غصے میں پیچ و تاب کھا رہے ہیں۔ پاگل پن کی حد تک بدحواس ہو چکے ہیں۔ انہیں خوابوں میں عمران خان ڈراتا ہے۔رولاتا ہے اور ان کا منہ چڑاتا ہے۔چند اوپر کے لوگ ادھر ادھر ہو گئے ہیں ۔ لیکن ان کے گماشتے اب بھی بہت ہیں۔ بیورو کریسی میںاور پولیس میں۔ وہ سب لوگ اس ظالمانہ نظام کے بینی فشری ہیں۔ ان کی وفاداریاں اب بھی انہی کے ساتھ ہیں۔ یہ لوگ اسی لوٹ مار کے نظام کو واپس لانا چاہتے ہیں۔ وہ کون سا الزام ہے جو یہ لوگ عمران خان پر نہیں لگاتے۔ فوج سے ڈاکہ زنی کی اجازت اور تعاون چاہتے ہیں۔ ہماری فوج ہی نے ہمیں اب تک بچایا ہوا ہے۔ ورنہ یہ لوگ اب تک ہندوستان‘ اسرائیل اور امریکہ سے مل کر پاکستان کا تیا پانچہ کر چکے ہوتے۔انہیں ضیاء الحق جیسا آرمی چیف چاہیے جس نے انہیں بام عروج تک پہنچایا۔ چار آنے سیر کے حساب سے ریلوے کا کئی ہزار ٹن لوہا انہیں بخشا۔ ڈیڑھ فیصد مارک اپ پر کروڑوں کا قرضہ دیا۔ اتفاق فونڈری واپس کی۔ وزارتیں عطا کیں۔یہ لوگ ہر کسی کو قابل فروخت سمجھتے ہیں۔ ایک شعر سنیے: ہر بیشہ گماں مبرکہ فالسیت شاید کہ بلنگ خفتہ باشید ہر جنگل کو خالی نہ سمجھ‘ شاید کوئی چیتا سویا ہوا ہو ،ہر آرمی چیف ضیاء الحق یا کیانی نہیں ہوتا ۔ان حکمرانوں کی عوام دوستی ملاحظہ فرمائیں۔ انہوں نے تعلیم اور صحت کے شعبے پرائیویٹ طبقے کے سپرد کر دیے۔ اب تعلیم اور صحت دونوں‘ عوام کی دسترس سے بہت دور جا چکے ہیں۔ سرکاری سکول صرف گنتی کے ہیں جہاں تعلیم کا برا حال ہے۔ پرائیویٹ نام نہاد انگلش میڈیم سکول ہزاروں ہیں جو عوام کے جیب پر ڈاکہ ڈالتے ہیں۔ اسی باعث دو کروڑ بچے سکول نہیں جاتے۔ سرکاری ہسپتالوں کا حال مریضوں سے بھی برا ہے۔ بیمار ہونا اب بہت بڑی بدقسمتی بن چکا ہے۔ بیمار ہونے کے لئے ضروری ہے کہ آپ کے پاس لاکھوں روپے ہوں۔ ورنہ آپ گھر پرایڑیاں رگڑ رگڑ کر اگلے جہاں پہنچ جائیے۔ یا پھر اپنا سر ان پلوں سے ٹکرائیں جو ان لوگوں نے بنائے ہیں۔ ان لوگوں کی سوچ اور عمل ان کی اپنی ذات کے گرد گھومتا ہے۔ غریب عوام کی حیثیت کیڑے مکوڑوں سے بھی کم ہے۔ پاکستان کو ان لوگوں نے اتنی بے دردی سے لوٹا ہے کہ الفاظ میں بیان نہیں کیا جا سکتا۔ سمجھ میں نہیں آتا کہ یہ لوگ اربوں کھربوں روپوں کا کیا کریں گے۔ میاں صاحب سے پوچھنا چاہیے کہ اس دولت سے آپ اپنے والدین کی زندگی بچا سکے؟کیا آپ بیک وقت دس محلات میں رہتے ہیں؟ کیا آپ بیک وقت دس کاریں چلاتے ہیں۔ کیا آپ بیک وقت دس پندرہ بیڈز پر سوتے ہیں؟ کیا آپ ایک وقت میں بیس‘تیس روٹیاں کھاتے ہیں۔ کیا آپ کو یقین ہے کہ آپ کبھی نہیں مریں گے؟افسوس صد افسوس لالچ انسان کو کس حد تک پاگل بنا دیتی ہے۔ انسان کو سوائے دولت کے کچھ نظر نہیں آتا۔ وہ آخرت کو بھول جاتا ہے۔ سنا ہے ان کے گردے میں پتھری ہے۔ وہ چند کروڑ خرچ کر کے یہ پتھری کیوں نہیں نکلوا لیتے، ایک بڑا سا پتھر ان کے سینے میں بھی دھڑک رہا ہے۔یہ پتھر گردے کی پتھری سے کہیں زیادہ خطرناک ہے۔ آپ اس پتھر کا کچھ کریں۔