امریکہ اور طالبان کے مذاکرات میں نتیجہ برآمد ہونے میں دیر کی کچھ وجوہات ہیں۔ بظاہر یہ مذاکرات کا سلسلہ طالبان اور امریکہ کے درمیان ہے مگر پس پردہ رہنے والے اتحادی بھی سرگرم ہیں۔ پھر یہ دائرہ آگے بڑھتا ہے اور اتحادی قوتیں ایک دوسرے پر سبقت اور بالادستی کی کوششیں جاری رکھے ہوئے ہیں۔ مثال طور پر پر طالبان زلمے خلیل زاد کی بارہا درخواست کے باوجود اشرف غنی حکومت کے ساتھ بات کرنے پر رضا مند نہیں ہوئے۔ صدر اشرف غنی اور ان کے حامیوں کو یہ خدشہ پیدا ہوا کہ اس طرح نظر انداز کئے جانے سے ان کی حیثیت متاثر ہوئی ہے اور ان کی ساکھ کم ہوئی ہے۔ دوسری طرف سابق صدر حامد کرزئی ایک نئے انداز سے کھیل میں شامل ہو گئے ہیں۔ امریکہ اور افغان حکومت نے ماسکو میں طالبان کے ساتھ مذاکرات کا بائیکاٹ کیا تھا۔ اس بائیکاٹ کی امریکہ کے پاس کئی وجوہات تھیں مگر افغان حکومت کے پاس یہی جواز تھا کہ امریکہ نے بائیکاٹ کیا ہے لہٰذا وہ بھی ماسکو مذاکرات میں شامل نہیں ہوں گے۔ حامد کرزئی کا پورا سیاسی کیریئر امریکی نرسری میں رہا ہے۔ ان کے دور میں افغانستان اور بھارت کے مابین پاکستان کے خلاف مشترکہ انٹیلی جنس آپریشنوں کا آغاز ہوا۔ افغان شہریوں کو پاکستان کی بجائے تعلیم، علاج اور فوجی تربیت کے لیے بھارت بھیجا جانے لگا۔حامد کرزئی اور بھارت ماسکو مذاکرات میں شریک ہوئے۔ حامد کرزئی کچھ عرصہ سے امریکہ کی پالیسیوں پر تنقید کر رہے ہیں۔ ان کے قریبی حلقے اس بات کا امکان ظاہر کر رہے ہیں کہ کرزئی افغانستان کے صدارتی انتخابات میں امیدوار کے طور پر سامنے آ سکتے ہیں۔ حامد کرزئی طالبان کے ساتھ الگ سے رابطوں میں مصروف ہیں۔ وہ ان رابطوں کو اپنی پوزیشن مضبوط دکھانے کے لیے استعمال کرنا چاہتے ہیں۔ مذاکراتی عمل میں ایک اور اہم کھلاڑی گلبدین حکمت یار ہیں۔ حکمت یار سوویت یونین کے خلاف جہاد کے زمانے میں ابھرے۔ ان کے اس وقت کی پاکستانی اسٹیبلشمنٹ اور جماعت اسلامی کے ساتھ قریبی تعلقا ت تھے۔ حکمت یار دہشت گردی کے خلاف امریکی جنگ کے ابتدائی برسوں تک امریکہ مخالف رہے۔ چند برسوں سے ان کے امریکہ کے ساتھ تعلقات میں نمایاں بہتری آئی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ امریکہ افغانستان میں اسلامی سیاست پسند حلقوں تک رسائی کے لیے حکمت یار کی مدد حاصل کر رہا ہے۔ امریکہ کا خیال ہے کہ افغانستان میں حکمت یار کا کردار بڑھا کر امن قائم کیا جاسکتا ہے۔ اس سوچ کے تحت حکمت یار کو اہمیت دی جا رہی ہے۔ امریکی اسٹیبلشمنٹ میں یہ سوچ خاصی توانا ہے کہ آئندہ انتخابات میں گلبدین حکمت یار کو صدارتی امیدوار کی حیثیت سے سامنے لایا جائے۔ حکمت یار پہلے ہی افغان حکومت کا حصہ بن چکے ہیں۔ حامد کرزئی، اشرف غنی اور حکمت یار تین شخصیات نہیں بلکہ امریکی حکمت عملی کے تین راستے ہیں۔ اگر کوئی ڈارک ہارس نہ ہوا اور طالبان سے حتمی معاہدے پر انتخابات سے پہلے دستخط نہ ہوئے تو ان تینوں میں سے کوئی نیا افغان صدر ہوسکتا ہے۔ ابھی تک تجزیہ کاروں کے درمیان یہ سوال گھوم رہا ہے کہ امریکہ طالبان مذاکرات کا دوحہ مرحلہ نتیجے کے اعتبار سے کیسا رہا۔ امریکہ کی جانب سے کئی فیصلوں کا اختیار رکھنے والے زلمے خلیل زاد نے دوحہ مذاکرات کو کامیاب قرار دیا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ امریکہ اور طالبان انخلا پر آمادہ ہو چکے ہیں۔ طالبان سے رابطہ رکھنے والے حلقے کچھ اور داستان سنا رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ طالبان امریکی انخلا کے بعد کے معاملات میں امریکہ سمیت کسی کی مداخلت قبول کرنے پر تیار نہیں۔ امریکیوں کی بے بسی دیکھنے کے لائق ہے۔ وہ فاتح کے طورپر افغانستان سے جانا چاہتے تھے۔ اب پاکستان کی مدد کے سبب وہ خطے کے ’’دوست‘‘ کی حیثیت سے نکلنے کی راہ تلاش کر رہے ہیں۔ معاہدے کی دو شرائط کے بارے میں گزشتہ کالم میں عرض کر چکا ہوں۔ باقی شرائط کو ان دو معاملات کی ذیل کہا جا سکتا ہے۔ یعنی طالبان نے اپنی پناہ میں آئے کسی بھی جنگجو کو امریکہ کے حوالے کرنے سے انکار کردیا ہے اور یہ بتانے پر بھی آمادہ نہیں کہ انخلا کے بعد طالبان کون سے شرعی قوانین نافذ کریں گے۔ پاکستان میں ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی رہائی کی خبریں سوشل میڈیا پر گردش کرتی رہی ہیں۔ ڈاکٹر عافیہ کا معاملہ حساس ہو چکا ہے اس لیے اس پر قیاس آرائی سے ان کے خاندان کا دکھ بڑھ سکتا ہے۔ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے نہایت مناسب انداز میں اس معاملے پر تبصرہ کرتے ہوئے قیاس آرائیوں سے گریز کا مشورہ دیا۔ دراصل افغان امور کے ماہر کے طور پر ابھرنے والے چند لوگوں نے غیر حقیقی انداز میں ساری صورت حال پیدا کی۔ اصل معاملہ تھوڑا مختلف ہے۔ ہمارے ذرائع بتاتے ہیں کہ عافیہ صدیقی کی رہائی طالبان کے ایجنڈے میںشامل ہے۔ اس سے زیادہ اس معاملے کی وضاحت یا تفصیل ممکن نہیں۔ امریکہ اور طالبان کے درمیان اب تک جتنے مذاکراتی دور ہوئے ہیں ان میں انخلا کی تفصیلات اور انخلا کے بعد افغانستان میں عسکریت پسندی یا دہشت گردی کے خلاف کارروائیوں کی نوعیت زیر بحث رہی ہے۔ طالبان کو شک ہے کہ امریکہ القاعدہ یا اس کے کسی منحرف گروپ کی صورت میں انخلا کے بعد بدامنی پیدا کرسکتا ہے۔ امریکہ کو خدشہ ہے کہ طالبان نے دنیا جہان میں امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے خلاف مسلح کارروائیوں کے حامی افراد کو پناہ دینا شروع کردی تو افغانستان ایک بار پھر عالمی امن کے لیے خطرہ بن جائے گا۔(امریکی عالمی امن کا مطلب امریکی سلامتی سمجھتے ہیں) امریکہ اور طالبان کے مابین جونہی انخلا کا نظام الاوقات اوربعداز انخلا انتظامی معاملات پر حتمی معاہدہ ہوتا ہے دونوں فریق قیدیوں کے تبادلے کے لیے بات چیت شروع کردیں گے۔ ڈاکٹر عافیہ کا نام اس فہرست میں ترجیحی سطح پر ہے۔ اس لیے حتمی معاہدے تک اس سلسلے میں قیاس آرائی مناسب نہیں۔ امریکہ چاہتا ہے کہ طالبان سے معاہدہ جلد ہو جائے مگر امریکہ کی حامی افغان شخصیات کی کوشش ہے کہ صدارتی انتخابات سے پہلے معاہدہ نہ ہو۔ امریکہ کو اب اپنے افغان اتحادیوں کو صورت حال کی نزاکت سمجھانے کے لیے الگ سے رابطوں کا آغاز کرنا ہوگا۔