طالبان نے افغانستان ، جس کے وہ اب بلا شرکت غیر مالک و مختار ہیں، کے لیے حکمرانی کے ڈھانچے کا خاکہ پیش کیا ہے۔ یہ ڈھانچہ ایران کے طرز پر ہوگا۔ یعنی ایک منتخب سربراہ مملکت بھی ہوگا اور اس کی سرپرستی کے لیے رہبر بھی۔ انتخابات ہو ںگے لیکن کون ان میں حصہ لے سکتا ہے اور کون نہیں، اس کا فیصلہ رہبر کی سرکرکردگی میں قائم سپریم کونسل کرے گی۔ جمہوریت ہوگی لیکن اس میں مذہب کا ذائقہ بھی شامل ہوگا۔ ملک کی باگ ڈور کسی کے ہاتھ میں دینے سے پہلے اس کی حکمران پارٹی کی نظریاتی اساس کا تحفظ کرنے کی صلاحیت کو بھی جانچا پرکھا جائے گا۔ ایسے میں جب طالبان افغانستان کی آزادی اور خود مختار حیثیت کو یقینی بنانے کی کوشش میں مصروف ہیں،مغربی جمہوریتیں اور ہمسایہ طا قتیں ، بالخصوص چین اور روس، ان سے توقع کر رہے ہیںکہ وہ ایسے رویے اپنائیں جس سے ان کی بین الاقوامی ساکھ بہتر ہو اور ان کی حکمرانی دیگر ممالک کو قابل قبول ہو۔صدر پیوٹن نے یہ واضح کرتے ہوئے کہا ہے کہ روس افغانستان کے انہدام میں دلچسپی نہیں رکھتا اور امید ظاہر کی ہے کہ طالبان بین الاقوامی اقدار اور رویوںکی پاسداری کریں گے تاکہ دنیا ان سے سفارتی تعلقات قائم کرسکے۔ ایسٹرن اکنامک فورم کے افتتاحی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے پوٹن نے جہاں افغانستان کی مخدوش صورتحال کا ذمہ دار غیرذمہ دارانہ امریکی انخلا کو قرار دیا، وہیں پر ان کا اصرار تھا کہ طالبان جتنا جلدی مہذب لوگوں کی صف میں شامل ہوںگے ، ان سے بات کرنا اور منوانا اتنا ہی آسان ہوگا۔اگرچہ امریکہ کا افغانستان سے ہنگامہ خیز انخلا زیادہ دورکی بات نہیں ،امریکہ سے بھی افغان سرزمین موجود پر دہشت گرد تنظیموں کے خلاف مشترکہ کاروائی کی پیشکش سامنے آئی ہے۔ لیکن سب سے واضح اور مفصل حکمت عملی یورپی یونین کی طرف سے سامنے آئی ہے جسے خطرہ ہے کہ اگر افغانستان کے حالات نہ سنبھلے تو وہاں سے پناہ گزین یورپ کا رخ کرسکتے ہیں۔ ستائیس رکنی یورپین یونین کے وزرائے خارجہ نے جمعے کو نئی افغان حکومت کوملک میں جاری انسانی بحران سے نمٹنے اورکابل میں مشترکہ سفارت خانے کے قیام کا عندیہ دیتے ہوئے شرائط کا تعین کیا ہے جس میں انسانی حقوق، قانون کی حکمرانی اور آزادی اظہار کو نشان منزل قرار دیا گیا ہے۔ یورپی ممالک نے طالبان کے کابل پر قبضے کے بعد اپنے سفارتکاروں کو وہاں سے نکال لیا تھا۔اگرچہ یورپی یونین طالبان کی حکومت کو تسلیم کرنے کا ابھی کوئی ارادہ نہیں رکھتی لیکن اس نے 1.4 بلین ڈالر کی انسانی امداد جاری کرنے کا عندیہ دیا ہے جو اس نے طالبان کے کابل پر قبضے کے بعد منجمد کردی تھی۔ یورپی یونین کی خارجہ پالیسی کے سربراہ جوزپ بیرل نے اس بات پر اصرار کرتے ہوئے کہ 27 ملکی بلاک افغانستان کے مستقبل کے بارے میں فکر مند ہے کہا کہ طالبان کی نیک نیتی کا اندازہ اس بات سے لگایا جائے گا کہ وہ غیر ملکیوں اور ان کے ساتھیوں اور ملازمین کو محفوظ انخلا کی ضمانت دینے پر آمادہ ہوتے ہیں یا نہیں۔ یورپی یونین طالبان سے یہ توقع بھی رکھتی ہے کہ وہ مہاجرین کے بڑے پیمانے پر ہجرت کو روکیں گے تاکہ یورپ میں نقل مکانی کا ایک اور بحران پیدا نہ ہو۔ دوسرے ممالک کے خلاف افغان سرزمین کے استعمال سے انکار اور انسانی امداد کی رسائی ان شرائط بھی شامل ہے جو یورپی یونین نے کابل میں آئندہ طالبان حکومت کے ساتھ تعاون کے لیے درج کی ہیں۔ یورپی یونین کا اپنے علاقائی سیاسی پلیٹ فارم کے ذریعے افغانستان کے پڑوسیوں کے ساتھ تعاون اس کی افغان حکمت عملی کا حصہ ہے۔افغانستان سے آبادی کے بہاؤ کے انتظام، دہشت گردی کے پھیلاؤ کی روک تھام، منشیات کی اسمگلنگ اور انسانی سمگلنگ سمیت منظم جرائم کے خلاف جنگ اس پلیٹ فارم کے اہداف میں شامل ہے۔ چین اور پاکستان طالبان کے حوالے سے ایک ہی صفے پر دکھائی دیتے ہیں اور یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں ہے۔ دونوں ممالک نے کابل میں اپنے سفارتخانے قائم رکھے ہوئے ہیں اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ان کے ساتھ مفاہمت کو بڑھاتے ہوئے نظر آتے ہیں۔طالبان نے انہیں یقین دہانی کرائی ہے کہ وہ افغان سرزمین کو ان کے خلاف استعمال نہیں ہونے دیں گے۔کابل کے نئے حکمران افغانستان کو سی پیک کا حصہ بنانے کے بھی خواہشمند ہیں۔ اگرچہ طالبان کے اقتدار میں آنے کا پاکستان کو فوری فائدہ یہ ہوا ہے کہ اس کی مغربی سرحدوں پر قائم لا تعداد بھارتی سفارتخانے ختم ہوگئے ہیں اور تحریک طالبان پاکستان، جو مبینہ طور پر بھارت کی امداد اور سرپرستی کے بل بوتے پر سرحد پار حملوں میں ملوث تھی، اس کی کاروائیوں کی شدت بھی کم ہوگئی ہے ، طالبان بھارت سے ان ترقیاتی منصوبوںکی تکمیل کے خواہاں ہیں جو اس نے وہاں پر شروع کیے تھے۔ خلا صہ یہ ہے کہ نہ تو امریکی اور اس کے حواری مغربی ممالک اس مشکل گھڑی میں افغانستان کو تنہا چھوڑنا چاہتے ہیں اور نہ ہی ہمسایہ ممالک۔ اب یہ طالبان پر منحصر ہے کہ وہ افغانستان کو کس ڈگر پر لے جاتے ہیں۔ ابھی تک جو طالبان کی ترجیحات سامنے آئی ہیں ہر طرف سب اچھا ہے کی صدائیں آرہیں ہیں۔ حکومت بنے اور وہ اپنے وعدوں پر پورا اتریں توہی پتہ چلے گا۔ یعنی اونٹ پہاڑ کے نیچے تو آگیا ہے لیکن یہ کس کروٹ بیٹھتا ہے، ابھی کچھ واضح نہیں۔ یقینی طور پر طالبان افغانستان کو ویسا نہیں بنانا چاہتے جس طرح امریکہ چاہتا تھا لیکن یہ بھی آسان نہیں وہ افغانستان کو اپنی نظریاتی اساس کے مطابق ڈھال لیں۔ ایرانی طرز ِحکومت کو اپنانے کے اپنے اثرات ہیںاس وقت جب مذہبی نظریات رحجانات میں مشرق ومغرب کا فاصلہ ہو۔ اس حقیقت کے معاشرتی توازن پر کیا اثرات ہوتے ہیںاور خطے کی سیاست کتنی متاثر ہوتی ہے، اس کا اندازہ اس بات سے ہوگا کہ وہ اپنے مذہبی عقائد کی پاسداری کرتے ہوئے صدیوں پرانی افغان روایات اور ثقافت کا کتنا احترام کرتے ہیں۔