ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کے تازہ ترین کرپشن انڈیکس میں بتایا گیا ہے کہ پاکستان میں بدعنوانی پہلے سے بڑھ گئی ہے۔ یہ دستاویز گزشتہ سال یعنی دو ہزاربیس میں مرتب کی گئی جس میں دو ہزاراُنیس کے اعداد و شمار اور سروے استعمال کیے گئے۔ پہلے تو حکومت کے ترجمانوں نے یہ کہہ کر جان چھڑانے کی کوشش کی کہ یہ رپورٹ چند برس پہلے کے اعداد و شمار پر مبنی ہے ۔ اُسوقت مسلم لیگ(ن)حکومت میں تھی۔ تاہم متعلقہ ادارہ کی وضاحت اور رپورٹ دیکھنے کے بعد یہ بات غلط ثابت ہوگئی۔ حزبِ اختلاف کا کام ہے کہ حکومت کونیچا دکھایا جائے ۔ اُس نے اس انڈیکس کی بنیاد پر حکومت کو خوب رگیدا۔ وزیراعظم عمران خان پر طنز کیا گیا کہ وہ توکرپشن ختم کرنے کے بلند دعوے کرتے ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ ملک میں بدعنوانی پہلے سے زیادہ ہوگئی ہے۔ بات بہت حدتک درست بھی ہے۔گو وزیراعظم عمران خان اور انکی ٹیم کے لوگ عموماً صاف ستھرے ہیں لیکن سرکاری محکموں میں ملازمین کی رشوت کے نرخ بڑھ گئے ہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایماندار وزیراعظم کے ہوتے ہوئے کرپشن کیسے بڑھ گئی۔ اسکا سادہ جواب تو یہ ہے کہ موجودہ حکومت کی ساری توجہ ماضی میں حکومت کرنے والے سیاستدانوں کی بدعنوانی پر مرکوز ہے‘ سرکاری ملازمین کی بے پناہ بددیانتی روکنے کے لئے تو اس نے معمولی سا کام بھی نہیں کیا۔کرپشن تو پاکستان کی رگ و پے میں دوڑ رہی ہے۔ وفاقی اورصوبائی حکومتوں کے تیس لاکھ سرکاری ملازمین ہیں۔ انکی اکثریت بددیانتی میں ملوث ہے۔ وہ افسر اور اہلکار جو ایسے عہدوں پر بیٹھے ہیں جہاں رشوت کھائی جاسکتی ہے یا سرکاری پیسہ خرد برد کیا جاسکتا ہے ان میں کم سے کم دوتہائی لوگ ایسے ہیں جو کرپشن میں ملوث ہیں۔ لاکھوں سرکاری ملازمین کی بدعنوانی کو جمع کیا جائے تو وہ چند ہزار سیاستدانوں کی مجموعی کرپشن کی نسبت کہیں زیادہ مالیت کی ہے۔عمران خان نے حکومت بنانے سے پہلے اعلان کیا تھا کہ وہ نوّے دنوں میں ملک سے کرپشن ختم کردیں گے۔ یہ تو عملی طور پر ممکن نہیں تھا۔ لیکن امید تھی کہ وہ ایسے قوانین بنائیںگے اور ایسی انتظامی تبدیلیاں کریں گے کہ ایک دو سال میں سرکاری محکموں میںرشوت خوری اور سرکاری فنڈز کی لوٹ مار ختم نہیں تو کم ہوجائے گی۔لیکن ایسا نہیں ہوسکا۔ وزیراعظم اِس انہماک سے سیاستدانوں کے پیچھے پڑ گئے کہ وہ ہر دوسرے شعبہ کی خرابی کو نظر انداز کرتے گئے۔افسر شاہی کی کرپشن کو تو بالکل بھول گئے۔ یُوں لگتا ہے کہ خوشامدی افسر شاہی نے ان پر مکمل غلبہ پالیا ہے۔ چاروں طرف سے انہیں گھیر لیا ہے۔ سب سے زیادہ خرابی بیوروکریسی نے پنجاب میں مچائی ہے جہاں وزیراعظم نے ایک ناتجربہ کار اور کمزورشخص کو وزیراعلیٰ لگا دیا۔اسکا نقصان یہ ہوا کہ پنجاب میں گورننس کا برا حال ہے۔ اڑھائی سال گزر گئے پنجاب حکومت کوئی ایسا کام نہیں کرسکی جسکی عام لوگ تعریف کریں۔ پنجاب کے رُولز آف بزنس کے تحت صوبائی وزرا کے اختیارات نہ ہونے کے برابر ہیں۔ سب اختیارات وزیراعلیٰ کے پاس ہیں۔ سی ایس پی افسران ایک کمزور وزیراعلیٰ کو انگلیوں پر نچا رہے ہیں ۔ بزدار صاحب وزیراعظم کو کہہ کرچار پانچ چیف سیکرٹری اورانسپکٹر جنرل پولیس بدلوا چکے ہیں لیکن کسی سے بھی کام نہیںکرواپاتے۔ ان حالات میں سرکاری دفاتر میں کرپشن پہلے سے زیادہ نہ بڑھے تو اور کیا ہو؟محکموں کے سیکرٹری وزراء کے قابو میں نہیں کیونکہ وزرا ء اُنکا کچھ بگاڑ نہیں سکتے۔مثلاًصحت کا شعبہ حکومت کی بڑی ترجیح کہا جاتاہے۔ اڑھائی برسوں میں صوبہ میں ایک نیا ہسپتال نہیں بن سکا۔ چند منصوبے شروع کیے گئے لیکن ان پر کام کی رفتاربہت سست ہے۔ جتنی بھی سرکاری کمپنیاں شہباز شریف کے دور میں بنائی گئی تھیں انہیں سی ایس پی افسروں نے گِدھوں کی طرح نوچ کر کھایا ہے۔مثال کے طور پر پنجاب کے چودہ ضلعوں کے بنیادی صحت مراکز اور دیہی مراکز صحت ہیلتھ فیسلٹیز اور مینجمینٹ نامی کمپنی کے سپردہیں۔ اس کمپنی کورواں سال سیکرٹری ہیلتھ (پرائمری)نے اسکا بجٹ ہی جاری نہیں کیونکہ کمپنی کے نئے بورڈ آف ڈائریکٹرز نے سیکرٹری صاحب کے گھر میں استعمال ہونے والی کمپنی کی چار گاڑیاںان سے واپس لے لی تھیں۔جن گاڑیوں کو دیہات اور قصبوں میں مراکز کے معائنہ کے لیے استعمال ہونا تھا وہ افسروں کے گھروں پراستعمال کی جارہی تھیں۔ محکمہ صحت کے افسروں نے درجنوں ملازمین عارضی بھرتی کرکے انہیں اپنے گھروں پر کام کاج کرنے کے لئے رکھا ہُوا تھا۔اعلیٰ افسران گھوسٹ ملازمین رکھ کر انکی تنخواہیں ہڑپ کرہے تھے۔یہ افسران کمپنی میں ایڈیشنل چارج پر عہدے لیکر کمپنی سے لامحدود پیٹرول لیتے رہے۔کم وبیش یہی حال ہر سرکاری کمپنی کا ہے۔ماضی میں ان افسروں کو رشوت کے طور پر ان کمپنیوں کا سربراہ بھی مقرر کیا گیا تھا جہاں انکو پندرہ سے تیس لاکھ روپے تک تنخواہ ملتی رہی۔ پنجاب میں تعینات سی ایس پی افسران کی ایک بڑی تعداد شہباز شریف کو اپنا محسن سمجھتی ہے جنہوں نے ان کو مالا مال کردیا تھا۔ اب بھی ان کی وفاداری شریف خاندان کے ساتھ ہے۔ وہ ایک پلان کے تحت ہر کام کو سست رفتاری سے انجام دے رہے ہیں تاکہ موجودہ حکومت ناکام ہو۔ وزیراعظم عمران خان کی حکومت بننے کے بعد اعلیٰ افسر وں نے جان بوجھ کر کام کرنا چھوڑ دیاتھا اور سست رفتاری کی پالیسی اختیار کی تھی۔بہانہ تھا کہ وہ نیب سے ڈرتے ہیں۔ وزیراعظم انکو کھڈے لائن لگاتے اورانکا دماغ درست کرتے لیکن وہ انکی بلیک میلنگ میں آگئے۔ نیب کا قانون بدل ڈالا جس کے تحت اب احتساب کا ادارہ سرکاری افسروں پر براہ راست ہاتھ نہیں ڈال سکتا۔پہلے چیف سیکرٹری کسی الزام کی تحقیقات کرے گا پھر وہ معاملہ نیب کو جائے گا۔ چیف سیکرٹری اپنی برادری کے کسی افسر کے خلاف غیرجانبدارانہ تحقیقات کرہی نہیں سکتا۔ سرکاری افسروں کو اب کھلی چھٹی ہے۔ کھاؤ پیو موج کرو۔ وزیراعظم بار بار انیس سو ساٹھ میں سول سروس کی شاندار کارکردگی کا حوالہ دیتے ہیں۔ وہ لوگ اب دستیاب نہیں۔ زمانہ کا پہیہ الٹا نہیں گھمایا جاسکتا۔ جو گزر گیا واپس نہیں آسکتا۔ عمران خان پرانے زمانے کے خوابوں سے باہر نکلیں۔ سرکاری ملازمین اور افسروں کی عوام دشمنی اوربددیانتی سے لوگوں کی جان چھڑوائیں۔ پندرہ بیس فیصد بدنام افسروں‘ اہلکاروں کو فارغ کریں۔ قانون بدل کر ماہرین‘ ٹیکنوکریٹس کو اعلیٰ عہدوں پر تعینات کریں۔سرکاری افسران کے احتساب کا سخت قانون بناکر فوری سزائیں دینا شروع کریں۔ جب عمران خان سیاسی طور پر طاقتور زرداری اور شریف خاندانوں سے نہیں ڈرتے تو بیوروکریسی کے ساتھ اتنی رعایت سے کام کیوں لے رہے ہیں؟جب سیاستدانوں کے لیے این آر او نہیں ہے تو سرکاری افسروں کے لیے کیوں ہے؟اگر سرکاری ملازمین اسی طرح بے لگام رہے تو وہ تحریک انصاف کی حکومت اور اسکی سیاست کو لے ڈوبیں گے۔کرپشن کا انڈیکس مزید اُوپر جائے گا۔