کورونا کی وجہ سے دنیا میں اکثر سرگرمیاں رک گئی ہیں مگر افغانستان میں چلنی والی گولیوں اب تک نہیں رکیں۔آپ کہہ سکتے ہیں بدامنی کا باعث بننے والی گولیوں کی شدت کم ہوئی ہے مگر آپ یہ نہیں کہہ سکتے کہ افغانستان امن کی آغوش میں سما چکا ہے۔ افغان امن معاہدہ کسی سیاسی معجزے سے کم نہیں۔ اس معاہدے میں پاکستان کے اہم کردار سے کوئی قوت انکار نہیں کر سکتی۔ مگر یہ بات پاکستان بھی جانتا ہے کہ اگر افغان طالبان اس معاہدے کے لیے تیار نہیں ہوتے تو یہ معاہدہ کسی بھی صورت میں پایہ تکمیل تک نہیں پہنچ سکتا تھا۔ افغان حریت پسندوں کے حوالے سے پوری دنیا جانتی ہے کہ دریا کے کنارے پانی نہ پینے والے گھوڑے کو پانی پینے پر مجبور کیا جا سکتا ہے مگر جو بات افغان حریت پسند نہیں چاہتے؛ اس بات کو ماننے کے لیے انہیں دنیا کی بڑی سی بڑی قوت مجبور نہیں کرسکتی۔ اس سلسلے میں افغان حریت پسند اپنی سرزمین کے ان پتھروں کی طرح ہیں؛ جنہیں توڑ ا تو جا سکتا ہے مگر انہیں موڑنا ممکن نہیں۔ یہ افغان طالبان کا فیصلہ تھا کہ وہ امریکہ کو افغانستان سے نکلنے کا راستہ دیا جائے۔ مگر مذاکرات کی میز پر آنے والے افغان طالبان کو اپنی مرضی کی شرائط منوانا کسی صورت ممکن نہیں ہے۔ امریکہ کا خیال تھا کہ وہ میدان میں ہاری ہوئی جنگ مذکرات کی میز پر جیت سکتے ہیں مگر اس معاملے میں بھی وہ ناکام ہوئے۔ امریکہ نے امن مذاکرات سے کا بائیکاٹ کرنے کی چال بھی چلی مگر وہ بھی کامیاب نہ ہو پائی۔ اب امریکہ کی خواہش ہے وہ اقتدار طالبان کے ہاتھوں میں دینے سے قبل وہ بھارت کے لیے طالبان کے دل میں نرم گوشہ بنائیں ۔ اس لیے امریکہ نے طالبان کے آگے بھارت کامقدمہ پیش کیا ہے ۔ افغان طالبان نے اس بات کو بھی انا کا مسئلہ نہیں بنایا اور انہوں نے بھارت سے مذکرات کرنے پر بھی رضامندی دکھائی ہے۔ بھارت افغان طالبان کے ساتھ مذکرات کی میز پر بیٹھنے میں بیحد تکلیف محسوس کر رہا ہے۔ بھارت کی اس تکلیف کی وجہ بھارت کا اپنے ملک میں مسلمان دشمن پالیسی پر گامزن ہونا ہے۔ اگر بھارت افغان طالبان کے ساتھ مذکرات کے لیے مذکرات کی میز پر بیٹھنے کے سلسلے میں رضامندی کا فیصلہ کرتا ہے تو بھارت کو مذکورہ میز کی ’’گرم کرسی‘‘ یعنی Hot Seat پر بیٹھنا ہوگا۔ اگر بھارت افغان طالبان کے ساتھ مذاکرات کرتا ہے تو اسے نہ صرف مقبوضہ کشمیر میں نظریاتی شکست کا سامنا ہوگا بلکہ وہ اپنے انتہا پسند ہندو پیروکاروں کے سامنے بھی شرمندہ ہوگا۔ اس وقت بھارت کا مودی حمایت کرنے والا میڈیا کورونا کے سلسلے میں تبلیغی جماعت کو مورد الزام ٹھہرا رہا ہے مگر جب بھارت کے ڈپلومیٹ افغان طالبان کے ساتھ مصافحہ کرتے نظر آئیں گے تب بھارت کی تھوتھلی مسلمان مخالف پالیسی ایڑیوں پر گھسٹتی نظر آئے گی۔ اس صورتحال میں بھارت کیا کرے گا۔ افغان طالبان تو چاہتے ہیں کہ بھارت اس کے ساتھ بیٹھے اور وہ انہیں بتائیں کہ بھارت نے افغان سرزمین کو اپنے مذموم مقاصد کے لیے کس طرح استعمال کیا اور کس طرح افغان عوام کے مخالفین کو اپنی آنکھوں میں پناہ دی۔ افغان طالبان کے حوالے سے مغرب میں جتنی بھی کتابیں لکھی گئی ہیں ان کتابوں میں افغان طالبان کے کردار پر تنقید کم اور ان کی تعریف زیادہ ہے۔افغان طالبان کے مرحوم رہنما ملا عمر کے بارے میں ڈچ مصنفہ بیٹی ڈیم نے "Searching For An Enemy" کے نام سے جو کتاب لکھی ہے اس میں دنیا کو افغان طالبان کا نیا تعارف نظر آ رہا ہے۔طالبان کے ساتھ وقت گذارنے والے جرنلسٹوں نے اس بات کا اعتراف کیا ہے کہ افغان طالبان بہت اصول پسند ہیں۔ ان کے ساتھ وقت گذارنے والے مغربی مصنفین اور صحافیوں نے جو کچھ لکھا ہے وہ ہمیں علامہ اقبال کی اس شعر کی یاد دلاتا ہے: ع ’’ہو حلقہ یاراں تو بریشم کی طرح نرم رزم حق و باطل ہو تو فولاد ہے مومن‘‘ افغان طالبان نے اپنے اس فولادی فکر و عمل کی قوت صرف اپنے مذہب سے حاصل نہیں کی مگر انہوں نے یہ بہادری و شجاعت اپنے کلچر سے بھی کشید کی ہے۔ افغانوں کا وہ کلچر جس میں بہادری اور بے باکی ہے۔ افغان طالبان نے برسوں تک اپنا اور اپنے دشمنوں کا لہو بہاتے ہوئے اپنے اس اصول کی پاسداری کی ہے کہ افغانستان میں امن تک تک ممکن نہیں جب تک افغانستان آزادی میں سانس نہیں لیتا۔افغان طالبان نے اپنی منزل اقتدار نہیں بلکہ آزادی کو بنایا ہے۔ جب تک افغانستان آزاد نہیں ہوتا تب تک افغانستان میں امن ایک دیوانے کے خواب کے طرح ہے۔ افغانستان میں امن آئے گا اور یقینی طور پر افغانستان مسکرائے گا مگر تب نہیں جب وہ آزادنہیں ہوتا۔ افغان طالبان اس سوچ کے سلسلے میں تنہا نہیں ہیں۔ ان کے ساتھ کروڑوں افغانیوں کی تمنائیں بھی ان کے ساتھ ہیں۔ افغان طالبان کے حوالے سے ان کے مخالفین کو یہ بات سمجھنی ہوگی کہ طالبان پر دنیا کسی صورت اپنی مرضی کا امن مسلط نہیں کرسکتی۔ افغان عوام روکھے اور سوکھے ہوئے نان پر گذارا کر سکتے ہیں مگر ان کی غیرت اور شجاعت کو بوفے پر خریدا نہیں جا سکتا۔افغان امن افغان عوام اور ان کے حریت پسند قوتوں کی رضامندی سے مشروط ہے۔ یہ صرف آج کی بات نہیں۔ افغان مزاحمت کا پورا ماضی موجود ہے۔ اس تاریخ کو سمجھے بغیر دنیا کی کوئی قوت افغانوں کو سمجھ نہیں سکتی۔افغان عوام اور ان کے مزاحمت کار آخر کیا چاہتے ہیں؟ودہ سب وہ کچھ چاہتے ہیں جو افغانستان کی سنگریز سرزمین چاہتی ہے۔افغانستان کی سرزمین کو امن چاہیے؛ اپنے بچوں کے لیے مگر وہ امن افغان عوام اور ان کے مزاحمتی ساتھیوں کوتو کیا؟ وہ امن اس سرزمین کو بھی قبول نہیں جو سرزمین امن سے قبل آزادی چاہتی ہے۔افغان عوام کی جنگ ڈالروں کے لیے نہیں ہے۔ افغان عوام کی جنگ غیرت کے لیے ہیں۔ اس غیرت کا اولین تقاضہ آزادی ہے۔افغانستان میں امن آزادی کے بغیر ممکن نہیں۔ افغانستان کو آزادی دو اور حقیقی آزادی دو؛ افغانستان میں امن کے وہ گلاب کھلیں گے جو جلال آباد کے گلابوں سے زیادہ رنگین اور زیادہ خوشبو والے ہونگے۔ افغان امن سودے بازی سے حاصل کرنا ممکن نہیں۔ افغان امن آزادی کا تمنائی ہے۔ وہ آزادی جو افغانوں کے خون میں محو گردش ہے۔ اس آزادی بکاؤ نہیں۔ وہ آزادی حاصل کیے بغیر پہاڑوں کے بیٹے اپنے مورچے چھوڑنے پر رضامند نہیں ہونگے۔