باراک اوبامہ جب 2009ء میں امریکی صدر منتخب ہوئے تو اس وقت امریکا کو احساس ہوگیا تھا کہ افغانستان کے مسئلے کو طاقت کے ذریعے حل کرناممکن نہیں اس لئے انھوں نے بات چیت کے ذریعے اس مسئلے کو حل کرنے کی کوششیں شروع کردی تھیں لیکن فوجی اسٹیبلشمنٹ ان کے خلاف تھی ۔مئی 2011ء کو جب القاعدہ کے سربراہ اسامہ بن لادن کو قتل کیا گیا تو اس کے بعد باراک اوبامہ کسی حد تک پینٹاگان کو افغانستان کے مسئلے کو فوجی طاقت کی بجائے بات چیت کے ذریعے حل کرنے پر راضی کرنے میں کامیاب ہوئے ۔اوبامہ انتظامیہ نے طالبان کو پیغام بھیجا کہ آپ افغان صدر حامد کرزئی کے ساتھ بیٹھ کر مسئلے کو حل کردیں لیکن طالبان نے حامد کرزئی کے ساتھ بیٹھنے سے انکار کردیا ۔ ان کا موقف تھا کہ ہماری لڑئی کرزئی سے نہیں اور نہ ہی ہم ان کو صدر مانتے ہیں ۔اگر امریکا کی پشت پناہی نہ ہو تو ان کے اقتدار کا خاتمہ ہمارے لئے ہفتوں نہیں دنوں کی بات ہے اس لئے بات چیت اگر ہوگی تو امریکا کے ساتھ ہو گی جبکہ مذاکرات کا بنیادی نقطہ افغانستان سے غیر ملکی افواج کا انخلا ہوگا۔امریکا طالبان کے ساتھ براہ راست بات چیت پرراضی نہیں تھااور نہ ہی وہ افغانستان سے جلد افواج کو نکالنے پر راضی تھا اس لئے یہ کوشش کامیاب نہ ہوسکی ۔پھر جب اسلام آباد ،بیجنگ کے قریب ہوگیا اور چین ۔پاکستان اقتصادی راہداری (سی پیک ) پر کام کا آغاز ہوا تو واشنگٹن نے ضروری سمجھا کہ چین کو قابو کرنے کے لئے ضروری ہے کہ وہ افغانستان میں موجود رہے ۔2016ء کے صدارتی انتخابات میں ڈونلڈ ٹرمپ نے قوم کے ساتھ وعدہ کیا کہ وہ افغانستان میں جنگ ختم کرکے افواج کو واپس بلا لیں گے ۔ٹرمپ چونکہ ایک کاروباری شخصیت ہیں اس لئے وہ اس بات کو سمجھ رہے تھے کہ چین اور پاکستان کے درمیان اقتصادی راہداری اور معاشی تعاون کو روکنا ممکن نہیں اس لئے انھوں نے طالبان کے دونوں مطالبات کو مانتے ہوئے ان کے ساتھ قطر کے دارالحکومت دوحا میں براہ راست بات چیت کا آغاز کیا جبکہ ان مذاکرات کا بنیادی نقطہ افغانستان سے غیرملکی افواج کا انخلا ہی تھا۔ رواں برس فروری میںامریکا اور طالبان کے درمیان امن معاہدہ ہوا ۔یہ معاہدہ افغانستان کے مسئلے کو بات چیت کے ذریعے حل کرنے کی طرف دوسراقدم تھا۔ امریکا اور طالبان کے درمیان امن معاہدے کے بعد 12 ستمبر کو طالبان اور افغانستان حکومتی وفد کے درمیان دوحامیں بین الافغان مذاکرات کے لئے ایجنڈہ تیار کرنے کے لئے بات چیت کا آغاز ہوا۔ افغانستان میں قیام امن کے لئے یہ ایک اور بڑی پیش رفت تھی اس لئے کہ اس سے قبل طالبان افغانستان حکومت کے ساتھ گزشتہ 19 سالوں میں کبھی بھی براہ بات چیت کے لئے تیار نہیں تھے اور نہ ہی ان کے ساتھ کسی معاہدے پر راضی تھے لیکن امریکا کے ساتھ معاملات طے کرنے کے بعد وہ کابل انتظامیہ کے ساتھ براہ راست بات چیت پر آمادہ ہوئے ۔دو مہینے اور چند دنوں تک افغانستان حکومت کے اکیس رکنی وفد اور طالبان کے درمیان بین الافغان مذاکرات کے ایجنڈے کی تیاری کے لئے قواعد و ضوابط مرتب کرنے پر بات چیت ہوتی رہی ۔15 نومبر کو قواعد و ضوابط پر اتفاق کیا گیا ۔ 17 نومبر کو حتمی مسودہ تحریری طورپر فریقین اور میزبان ملک کے درمیان مختلف زبانوں میں ترجمہ کرکے تقسیم کیا گیا ۔پشتو اور دری زبان میں مسودہ تیاری کے بعد دونوں فریقین کے اجلاس میں پڑھ کر بھی سنایا گیا ۔بین الافغان مذاکرات کے لئے حکومتی اور طالبان وفد کے درمیان وضع کردہ قواعد و ضوابط کا مسودہ دونوں فریقین نے اپنے اعلیٰ حکام کے ساتھ شراکت اور منظوری کے بعد 2دسمبر کو اس اہم پیش رفت کا اعلان کیا ۔یہ معاہدہ گزشتہ 19 سالہ جنگ میں افغانستان حکومت اور طالبان کے درمیان پہلی تحریری دستاویز ہے ۔بین الافغان مذاکرات کے لئے قواعد و ضوابط طے کرلینے کے بعد اب افغانستان کی حکومت اور طالبان ایجنڈہ ترتیب دیں گے ،جس میں سرفہرست جنگ بندی اور ملک کے مجوزہ نظام حکومت کے ساتھ دیگر اہم مسائل شامل ہونگے ۔طالبان اور کابل انتظامیہ کے درمیان یہ معاہدہ اس لئے اہم ہے کہ اب طالبان نے ان کو باقاعدہ طور پر فریق تسلیم کرتے ہوئے مزید بات چیت ان کے ساتھ کرنے کا عندیہ دے دیا ہے ۔ اگلا مرحلہ جس پر کام جاری ہے، بین الافغان مذاکرات کے لئے ایجنڈا تیار کرنا ہے ۔ایجنڈا تیار ہوجانے کے بعد بین الافغان مذاکرات شروع ہونگے ۔ بین الافغان مذاکرات میں افغانستان میں قیام امن کے لئے افغانوں کے درمیان حتمی معاہدہ ہو گا ۔سب سے اہم اور مشکل مرحلہ بین الافغان مذاکرات ہی ہیں۔اگرچہ افغانستان کی اعلی مصالحتی کونسل موجود ہے جس کے سربراہ ڈاکٹر عبداللہ عبداللہ ہیں لیکن کونسل کے اراکین کے انتخاب پر صدر ڈاکٹر اشرف غنی اور عبداللہ عبداللہ کے درمیان شدید اختلافات ہیں۔ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ کونسل کے قیام کے بعد ابھی تک اس کے کئی اجلاس ہوچکے ہوتے لیکن اختلافات کی وجہ سے کونسل کا افتتاحی اجلاس 5 دسمبر کو منعقد ہوا۔ بطور سربراہ اعلی مصالحتی کونسل ڈاکٹر عبداللہ کی ذمہ دار ی تھی کہ وہ افغانستان کے تمام سرکردہ عمائدین سے ملاقاتیں کرتے لیکن ابھی تک وہ ایسا کرنے میں ناکام ہے ۔ڈاکٹر اشرف غنی اور ڈاکٹر عبداللہ کے درمیان اختلافات کی وجہ سے امریکا بھی پریشان ہے ۔ان اختلافات کی وجہ سے امریکا نے طالبان کو بعض وہ رعایتیں بھی دی ہیں جو وہ ان کو دینا نہیں چاہتے تھے۔طالبان بھی ان اختلافات سے بھر پور فائدہ اٹھا رہے ہیں ۔ قطر میں ان کے سیاسی دفتر کے نمائندے مختلف ممالک کے سفیروں سے ملاقاتیں کرنے میں مصروف ہیں تاکہ بین الافغان مذاکرات اور بعد میں ان کی حمایت حاصل کر سکیں ۔اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کے افغانستان کے لئے نمائندہ خصوصی کے ساتھ بھی طالبان وفد نے ملاقات کی ہے جس میں بین الافغان مذاکرات کی تازہ پیش رفت ،مستقبل میں حکومت سازی اور طالبان رہنمائوں کے ناموں کو بلیک لسٹ سے نکالنے پر بات چیت ہوئی ہے۔دوحا میں افغانستان حکومت اور طالبان کے درمیان جاری بات چیت سے لگ رہا ہے کہ دونوں فریقین جنگ سے تھک گئے ہیں ۔اب وہ امن چاہتے ہیں ۔بات چیت جاری رہے گی لیکن رفتار سست ہو گی اس لئے کہ مسائل بہت زیادہ ہیں۔