چار ماہ پہلے تحریر کیا تھا کہ پاکستان کی گزشتہ دس سال سے جس تجویز کو ڈبل گیم کہاجا رہا تھا، اب امریکہ اسی تجویز کے ساتھ پاکستان کی جان کو آیا ہوا ہے کہ افغانستان کے اندر اپنا اثرو رسوخ استعمال کر کے طالبان کو مذاکرات کی میز پر لائے تا کہ اس مسئلے کا کوئی سیاسی حل تلاش کیا جا سکے۔اور اسکے بعد امریکہ اپنی فوجیںلے کر یہاں سے واپس چلا جائے۔اسوقت اس سارے ہنگامی مذاکرات اور امن عمل کی وجہ امریکی انتظامیہ کا اس بات پر قائل ہونا ہے کہ وہ یہاں پر جنگ جیت نہیں سکتے۔ پہلے اگر ہمارے سیاسی حل کے مشورے کو امریکہ ڈبل گیم کہتا تھا تو اسکی وجہ یہ تھی کہ وہ یہاں سے فاتح کے طور پر نکلنا چاہتا تھا لیکن دس سال اس خواب کو دیکھنے کے بعد اب اسکی آنکھ کھل گئی ہے اور وہ فاتح کی بجائے بظاہر عزت سے یہاں سے جانے پر راضی ہو چکا ہے ۔لیکن امریکہ کے اس طرح یہاں سے جانے پر بہت سے تجزیہ نگار اور خطے کے ممالک خصوصاً پاکستان اور ایران شاکی ہیں۔ انکے خیال میں امریکی فوجیں تو شاید یہاں سے چلی جائیں لیکن وہ داعش کی صورت میں اپنی موجودگی رکھے گا اور شاید اسکے ساتھ کچھ بلیک واٹر کے کنٹریکٹر بھی یہاں پر بھیج دئے جائیں جو نئی حکومت جو کہ طالبان اور موجودہ افغان سیاسی قیادت کے درمیان کسی معاہدے کے تحت بنے گی ، کے لئے مشکلات پیدا کرتا رہے اور خطے میں امن کے لئے مسلسل خطرہ بنا رہے۔ دو تین سال بعد شاید امریکہ یہاں نہ ہو لیکن اسکے کنٹریکٹر خانہ جنگی کی آڑ میں ہمارے لئے مسائل کا انبار لگا رہے ہوںگے۔ یہی وجہ ہے کہ افغان طالبان کے قطر میں ترجمان سہیل شاہین نے گزشتہ روز ایک انٹر ویو میں دو بہت اہم نکات بیان کئے ہیں۔ایک تو انہوں نے اس بات کی تصدیق کی ہے کہ افغانستان کے اندر داعش کی سرپرستی امریکہ کر رہا ہے اور اگر امریکہ کے ساتھ امن معاہدہ طے پا جاتا ہے تو وہ داعش کو ایک ماہ میں ختم کر دیں گے۔ دوسری اہم بات انہوں نے امن معاہدے کے ضامنوں کے بارے میں کی ہے ۔ انکی نظر میں روس، چین ، اسلامی ممالک کی تنظیم (او آئی سی )اور اقوام متحدہ اس معاہدے کے ضامن ہو سکتے ہیں۔ یہ ضمانت ضروری بھی ہے کیونکہ امریکہ نے صدر اوباما کے دور میں ایران کے جوہری پروگرام کے حوالے سے ایک معاہدہ کیا تھا جسے صدر ٹرمپ نے آ کر ختم کر دیا اور ایران کو دوبارہ زیادہ شدید پابندیوں کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔لیکن امریکہ پر اس معاہدے کے ضامنوں ، جرمنی، فرانس اور برطانیہ کا دبائو بہر حال موجود ہے جو امریکی صدر کے اس اقدام کے کھل کرمخالفت کرتے چلے آ رہے ہیں اور شنید ہے کہ اس بارے میں امریکہ اس معاہدے کو بحال کرنے پر سوچ بچار شروع کر چکا ہے اور جلد اس بارے میں کوئی اچھی خبر سامنے آ جائے گی۔ایسی کسی صورتحال سے بچنے کے لئے ضروری ہے جس میں امریکہ کی کوئی حکومت افغان امن معاہدے کو تبدیل کرنے یا اس سے مکرنے کی کوشش کرے تو بہر حال بین الاقوامی دبائو ان ضامنوں کی شکل میں موجود ہو۔ صدر ٹرمپ نے بھی پہلی دفعہ ان مذاکرات کے حوالے سے ٹویٹ کرتے ہوئے کہا ہے کہ اٹھارہ سالہ لڑائی کے بعد افغانستان میں امن مذاکرات سرعت سے آگے بڑھ رہے ہیں، اگرچہ لڑائی جاری ہے لیکن افغانستان کے عوام اس نا ختم ہونے والی جنگ سے نجات چاہتے ہیں اگر مذاکرات اسی طرح آگے بڑھتے رہے تو وہ ضرور نجات حاصل کر لیں گے۔ صدر ٹرمپ کی طرف سے افغان امن عمل کے حوالے سے اس وقت سے کافی نیک نیتی نظر آ رہی ہے جب انہوں نے وزیر اعظم عمران کو خط لکھ کر اس معاملے میں امریکہ کی مدد کرنے کا کہا تھا۔ امید کی جا رہی ہے کہ امریکہ اور طالبان کے درمیان معاہدہ طے پا جائے گا اور اسکے بعد طالبان کے افغان حکومت اور دوسری سیاسی قیادت کے ساتھ مذاکرات بھی ممکن ہو پائیں گے جس سے وہ سر دست احتراز کر رہے ہیں۔ اس بات کا اشارہ طالبان کے ترجمان نے بھی دیا ہے۔ لیکن اصل امتحان اسکے بعد شروع ہو گا جب عبوری سیٹ اپ کا مرحلہ آئے گا اور پاور شئیرنگ فارمولا طے ہو گا۔ اس میں اہم ایشو یہ ہے کہ پشتون آبادی کی اکثریت کو امریکہ نے اپنی مرضی کے حکمران لانے اور انہیں زیادہ سے زیادہ پاور شئیرنگ میں حصہ دلانے کے لئے اقلیت میں تبدیل کر دیا تھا۔ پشتون آبادی کی صحیح تعداد کا تعین اور طالبان کو حصہ بقدر جثہ کے فارمولے پرپاور شیئرنگ کرائے بغیر مسئلہ حل نہیںہو گا۔ اس امن معاہدے میں طالبان یقیناً اس حوالے سے کوئی واضح یقین دہانی مانگیں گے۔ دوسرا اہم مسئلہ یہ ہے کہ اب تک مسئلہ افغانستان کے حل میں سب سے بڑی رکاوٹ امریکہ ہی رہا ہے۔ ماضی میں جب بھی کوئی بہتری کی صورت پیداہوتی تھی امریکی مطالبات تبدیل ہو جاتے تھے۔تا حال امریکہ کی طرف سے ایسی صورتحال دیکھنے کو نہیں ملی لیکن ایک تاثرّ بہرحال موجود ہے کہ امریکی اسٹیبلشمنٹ تمام امریکی فوج کی یکمشت واپسی پر متفق نہیں ہے ۔ اس بارے میں صدر ٹرمپ کا مو قف مختلف نظر آتا ہے۔ وہ شام اور افغانستان بلکہ جہاں جہاں امریکی افواج ہیں واپس بلانے کے حامی ہیں اور یہ انکا انتخابی وعدہ بھی تھا۔کہا جا رہا ہے کہ اگر صدر ٹرمپ میکسیکو کی دیوار کی تعمیر جیسے اندرونی مسائل میں نہ گھرے ہوتے تو وہ اب تک افغانستان سے افواج کی واپسی کا اعلان کر چکے ہوتے کیونکہ طالبان کی سب سے بنیادی شرط یہی ہے کہ امریکہ اپنی ساری فوج واپس بلائے،اسکے بدلے میں وہ ضمانت دیتے ہیں کہ افغانستان کی سرزمین کسی ملک کے خلاف دہشت گردی کے لئے استعمال نہیں ہو گی۔اگرچہ طالبان کے ایک اور ترجمان ذبیح اللہ مجاہدصدر ٹرمپ کی کوششوں کو سنجیدہ قرار دے رہے ہیں لیکن دیکھنا یہ ہے کہ امریکہ کی اندرونی سیاست کس کروٹ بیٹھتی ہے اس پر امن عمل کی کامیابی کا بہت دارو مدار ہے ۔ ممکن ہے صدر ٹرمپ کو اندرونی طور پر اسی لئے الجھایا گیا ہو کہ انکو افغانستان سے فوج کی مرحلہ وار واپسی پر قائل کیا جا سکے۔