پچھلے سال فروری میں امریکہ اور افغان طالبان کے درمیان دوحہ میں ہونے والا معاہدہ صدر اشرف غنی کو کسی صورت بھی راس نہیں آیاتھالیکن اس کے باوجود اُن سے یہ معاہدہ منوایا گیا۔صدرغنی کاامریکہ سے پہلاشکوہ یہ تھا کہ اس نے افغان حکومت کوآن بورڈ لئے بغیر طالبان کے ساتھ مفاہمت کی ڈیل کرکے ایک طرف ان کی حکومت کی سبکی کی اور دوسری طرف جنگجو طالبان کو با قاعدہ طور پر ایک طاقت تسلیم کرکے ان کا مورال مزید بلند کردیا۔ صدر غنی کی دوسری شکایت طالبان قیدیوں کی رہائی سے متعلق تھی جو معاہدے کی ایک اہم شق تھی ۔وہ حیران تھے کہ افغان حکومت کس منطق کی رو سے بغیر کسی ٹرائل کے طالبان کے پانچ ہزار قیدیوں کی رہائی کا پروانہ جاری کردے، جو ہزاروں افغانوںکے قتل الزام میں ملوث پائے گئے ہیں؟بہرکیف اس معاملے پرطویل لیت ولعل کے بعد غنی حکومت نے بالآخر رضامندی ظاہر کرکے لگ بھگ ساڑھے چار ہزار قیدیوں کو بتدریج رہا کردیاجبکہ چار سوقیدیوں کی رہائی کو روک دیا۔ حکومت کا موقف تھا کہ دیگر طالبان قیدیوں کے مقابلے میں مذکورہ چار سوقیدی بڑے جنگی جرائم میں ملوث پائے گئے ہیں۔یوں ان کو رہائی دلوانا ایک بڑا رسک لینے کامترادف ہوگا ۔ یہ معاملہ بعدمیں لویہ جرگہ کے حوالے کیاگیا اور لویہ جرگہ ہی نے خیرسگالی کے طور پران قیدیوں کی رہائی کاحکم بھی صارد کیا۔قیدیوں کی رہائی کے بعد اگلا اور اہم مرحلہ بین الافغان مذاکرات کا تھا جو فریقین کے بیچ ستمبر میں دوحہ میں شروع ہوا۔ مسلسل امریکی فشار کو بھانپتے ہوئے صدر غنی نے مجبوری کے اس عالم میں اگلے امریکی صدر سے امیدیں وابستہ کیں۔کیونکہ وہ پرامید تھے کہ جوبائیڈن کے صدر بننے کی صورت میں ڈونلڈ ٹرمپ دور میں بننے والی بے شمار پالیسیاں زیر غور آئیں گی اور ممکن ہے کہ افغانستان کے حوالے سے امریکہ کی پالیسی بھی بدل جائے ۔بلکہ غنی یہاں تک آس لگائے بیٹھے تھے کہ جوبائیڈن ا نتظامیہ اس معاہدے کو منسوخ بھی کرسکتی ہے اور نتیجے میں ایک ایسا روڈمیپ ترتیب ہوگا جو ان کے امیدوں سے ہم آہنگ ہو۔ لیکن ہوا یوں کہ صدر منتخب ہوتے ہی جوبائیڈن نے اپنے پیشرو کی بے شمارپالیسیوں کوتوختم کردیا لیکن دوحہ معاہدے کو چھیڑنے سے گریز کیا۔ ابھی ایک ہفتہ پہلے امریکی وزیر خارجہ اینٹونی جان بلنکن کے اشرف غنی اور امن کونسل کے سربراہ عبداللہ عبداللہ کو لکھے گئے خط (جو لیک ہوا یا لیک کروایا گیا)نے بڑی حدتک بائیڈن انتظامیہ کی پالیسی کوواضح کردیا۔ خط سے یہ نتیجہ اخذکیاجاسکتاہے کہ بائیڈن انتظامیہ افغانستان کے بارے میں اس طرح نہیں سوچتی جس طرح افغان حکومت سوچ رہی تھی۔اس خط میں نہ صرف امن مذاکرات کو آگے لے جانے کیلئے صدر اشرف غنی سے قائدانہ کردار ادا کرنے کا کہاگیاہے بلکہ انہیں یہ خوف بھی دلایا گیاہے کہ اگر وہ مذاکرات میں مزید ہچکچاہٹ سے کام لیتے رہیں گے تو طالبان آئندہ مہینوں میں مزید زمینی فتوحات کرسکتے ہیں۔خط میں اہمیت کی حامل تجویزجس کا اشرف غنی شروع دن سے مخالف کر رہے ہیں، یہ ہے کہ افغانستان میں ایک عبوری حکومت کی تشکیل اور نوے روزہ جنگ بندی ناگزیرہے۔ دوحہ معاہدے کی رو سے امریکی اور اس کی اتحادی افواج رواں سال یکم مئی تک افغانستان سے نکل جائے گی یوں اس ڈیڈ لائن سے پہلے پہلے امریکہ کچھ نتائج حاصل کرنا چاہتا ہے۔اس مقصد کے لئے اقوام متحدہ کی چھتری تلے رواں ماہ اٹھارہ مارچ کو ماسکو میں ایک کانفرنس ہوگی جبکہ اگلے ماہ اپریل میں ترکی بھی افغان امن کے حوالے سے ایک کانفرنس کی میزبانی کرے گا جس میں افغان حکومت اور طالبان کے نمائندوں کے علاوہ امریکہ، روس، چین، پاکستان اور بھارت کے وزرا خارجہ اور مندوبین شرکت کریں گے۔ابھی تک صدر اشرف غنی نے اینٹونی بلنکن کے خط کے رد عمل میں باضابطہ طور پر کچھ نہیں کہا ہے تاہم ان کے نائب صدر امراللہ صالح نے خط میں دی گئی تجاویزکو مسترد کرتے ہوئے اس پرکھل کر اپنے غم و غصے کا اظہار کیا ہے۔ صالح کا کہنا تھا کہ اس نئے امریکی منصوبے میں افغان عوام کی رائے کاکوئی لحاظ نہیں رکھاگیاہے اور وہ کسی کو بھی افغانوں کایہ حق چھین لینے کا اختیار نہیں دے سکتے ــ‘‘۔نئی امریکی پالیسی سے سردست ایسا لگتا ہے کہ امریکہ ایک بار پھر اشرف غنی حکومت کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کررہا ہے اور اسے بادل ناخواستہ ایسے امور باالخصوص عبور ی حکومت کے قیام پر رضامندکرناچاہتاہے جن کا وہ روز اول سے مخالفت کرتی آئی ہے۔بنیادی سوال یہ ہے کہ کیا ایک عبوری سیٹ اپ جنگ زدہ افغان عوام کے زخموں کو مندمل کرنے میں مددگار ثابت ہوگا یا نوے کی دہائی میں بننے والی عبوری حکومت کی طرح یہ بھی افغانستان کوایک بار پھر باہمی خانہ جنگی اور باہمی خلفشار کی طرف لے جا ئے گا؟ اگر تو فریقین کی باہمی رضامندی سے ایک پائیدار عبوری حکومت تشکیل ہوگی اور پھر اگلے مرحلے میں انتخابات کے نتیجے میںفریقین ایک جمہوری نظام کے قیام پر متفق ہوگئے تو پھرعبوری حکومت کی اس امریکی تجویز میں قباحت نہیں، ورنہ بصورتِ دیگر ایک ایسی عبوری حکومت کا قیام کس مرض کی دوا ہوگی جو محض اقتدار کے ہوس پرستوں کا ایک ملغوبہ ہو، اور افغانوں کے زخموں پر مزید نمک پاشی کا سبب بنتاہو۔ امریکہ اشرف غنی سے بہت سے معاملات پر سمجھوتے کروانا اگر اپنی ذمہ داری سمجھتا ہے تو دوسری طرف اسے فریقین کو مطمئن کرنے کی ذمہ داری بھی اپنے سر لینا ہوگی۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ وہ خود کو اس دلدل سے نکال جائے اور دو دہائیوں تک تگنی کا ناچ نچانے والے افغانوں کو پھر سے باہم دست و گریباں ہونے کے لیے چھوڑ دے۔ ٭٭٭٭