جس برق رفتاری سے طالبان نے پورے افغانستان کو امریکی تسلط سے آزاد کروایا ہے، وہ دوستوں اور دشمنوں دونوں کے لئے حیران کن ہے۔افغانستان کی آزادی نوشتہ دیوار تھی لیکن کسی کو بھی اندازہ نہیں تھا، یہ اتنی جلدی ممکن ہو گی۔اشرف غنی اور اس کی فوج نے جس بزدلی کا مظاہرہ کیا، وہ بھی شرمناک ہے لیکن طالبان کے لئے نہایت سودمند ثابت ہوئی۔کابل کا محاصرہ کئی ہفتوں پر محیط ہو سکتا تھا لیکن اشرف غنی کے بھاگ جانے کی وجہ سے جو خلا پیدا ہوا، وہ طالبان کو برق رفتاری سے پر کرنا پڑا۔امریکی صدر اپنے فیصلے کا مسلسل دفاع کر رہے ہیں اور اشرف غنی اور افغانستان کی فوج کو مورد الزام ٹھہرا رہے ہیں۔ان کا کہنا ہے کہ امریکہ نے افغانستان کی حکومت کو تین لاکھ تربیت یافتہ فوج بنا کر اسے اربوں ڈالر کے اسلحہ سے لیس کیا لیکن اشرف غنی اور فوج کی لیڈر شپ نے انہیں مایوس کیا۔ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ وہ اسلحہ تو خرید سکتے تھے لیکن لڑنے کا حوصلہ وہ افغان فوج کے لئے کہاں سے خریدتے۔اگرچہ وہ سچ کہہ رہے ہیں لیکن یہ ادھورا سچ ہے۔حقیقت یہ ہے کہ امریکہ کی بنیادی سٹریٹجی ہی غلط بنیادوں پر استوار تھی۔وہ افغان قوم کی تاریخ کا مطالعہ کرنے میں بری طرح ناکام ہوئے۔نہ انہوں نے برطانیہ کی شکست سے سبق سیکھا اور نہ روس کی شکست و ریخت درخور اعتنا جانا۔دنیا کی کوئی طاقت افغان قوم کو سرنگوں نہ کر سکی۔امریکہ نے اپنی طاقت کا بھی غلط اندازہ لگایا۔امریکہ کا خیال تھا کہ وہ سب سے بڑی سپر پاور ہے، اس لئے وہ شاید افغانستان کی تاریخ کو بدل کر رکھ دیں گے۔برطانیہ اور روس کی تاریخ نہیں دہرائی جائے گی لیکن نتیجہ اس کے بالکل برعکس ہوا، وہی تاریخ کا پرانا سبق کہ تاریخ سے کوئی سبق نہیں سیکھتا، امریکہ بھی سبق سیکھنے میں بری طرح ناکام ہوا۔افغانوں کی تاریخ بھی اشرف غنی جیسے غداروں سے بھری پڑی ہے لیکن عام افغانی نے کبھی بھی کسی غیر ملکی طاقت کے سامنے سر نہیں جھکایا۔افغان عوام نے ہمیشہ غداروں کو کیفر کردار تک پہنچایا ہے۔افغان طالبان نے کابل فتح کرنے کے بعد جس سنجیدگی‘بردباری اور کشادہ دلی کا مظاہرہ کیا ہے‘اس نے فتح مکہ کی یاد تازہ کر دی ہے۔ طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے اپنی پہلی پریس کانفرنس میں طالبان کی طرف سے عام معافی کا اعلان کیا ہے۔حتیٰ کہ ان لوگوں کے لئے بھی عام معافی ہے، جو ان کے خلاف لڑتے رہے ہیں۔انہوں نے اپنی پرانی پالیسی کے برعکس یہ اعلان بھی کیا ہے کہ خواتین کو تعلیم حاصل کرنے‘کاروبار کرنے اور حکومت کا حصہ بننے کی اجازت ہو گی اور انہیں اسلام کے مطابق تمام حقوق دیے جائیں گے،طالبان نے تمام سرکاری ملازمین کو کام جاری رکھنے کا حکم دیا ہے اور خاص طور پر جو خواتین ہسپتالوں اور دیگر شعبوں میں کام کر رہے ہیں،انہیں بھی کام جاری رکھنے کی ہدایت کی ہے۔ٹی وی چینلز پر خواتین اینکر بھی دکھائی دے رہی ہیں اور ایک خاتون اینکر نے ایک طالبان رہنما کا انٹرویو بھی کیا ہے۔طالبان نے سرکاری دفاتر سے رشوت‘غبن ‘تکبر‘بدعنوانی ‘کاہلی اور بے حسی ختم کرنے کا بھی اعلان کیا ہے۔ طالبان نے دنیا کے تمام ممالک اور خاص طور پر ہمسایہ ممالک کو یقین دلایا ہے، کہ افغانستان کی سرزمین کو کسی قسم کی دہشت گردی کے لئے استعمال کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔غیر ملکی سفارت کاروں کو بھی یقین دلایا گیا ہے کہ انہیں مکمل سکیورٹی فراہم کی جائے گی اور وہ بلا خوف اپنا کام جاری رکھ سکتے ہیں۔افغان نوجوانوں کو ملک نہ چھوڑنے کا کہا جا رہا ہے اور انہیں افغانستان میں ایک روشن مستقبل کی نوید دی جا رہی ہے۔طالبان کا کہنا ہے کہ ہتھیاروں سمیت کسی قسم کی سمگلنگ کی اجازت نہیں دی جائے گی اور افغانستان میں موجود تمام منشیات کو تلف کر دیا جائے گا۔ طالبان نے یہ دعویٰ بھی کیاہے کہ وہ امارات اسلامی افغانستان میں وسیع البنیاد حکومت بنائیں گے اور افغانستان میں موجود تمام دھڑوں کو حکومت میں حصہ دیا جائے گا۔ طالبان نے موجودہ لائحہ عمل کو عمومی طور پر تحسین کی نظر سے دیکھا جا رہا ہے کیونکہ طالبان ساری دنیا کے بیان کئے گئے تحفظات کو ملحوظ خاطر رکھ رہا ہے اور کسی بھی قسم کی شدت پسندی کا مظاہرہ نہیں کیا جا رہا۔البتہ دو ممالک اس وقت شدید صدمے کی حالت میں ہیں۔ایک امریکہ اور دوسرا بھارت امریکی حکومت تو اپنی ذلت آمیز شکست اور ایک ہزار ارب سے زائد کی سرمایہ کاری ڈوبنے کی وجہ سے شدید صدمے کا شکار ہے اور بھارت اپنے تین چار ارب روپے ڈوبنے اور پاکستان کے خلاف کام کرنے والے اپنے کونسل خانوں کی وفات کا سوگ منا رہا ہے۔اگرچہ ابھی تک دنیا کے کسی بھی ملک نے طالبان کی حکومت کو تسلیم نہیں کیا لیکن پاکستان‘چین‘ روس اور ایران کا رویہ ہمدردانہ اور دوستانہ ہے۔پاکستان نے کہا ہے کہ وہ طالبان کی حکومت کو تسلیم کرنے کا فیصلہ دوست ممالک سے مل کر کرے گا۔چین کی حکومت نے ہمدردانہ رویے کا مظاہرہ کیا ہے اور امریکہ کی طاقت کو تباہی قرار دیا ہے۔برطانیہ نے کہا ہے کہ وہ افغانستان کے ساتھ کاروبار نہیں کریں گے۔ جرمنی نے بھی افغانستان کی امداد منسوخ کر دی ہے۔او آئی سی نے مذاکرات کی اہمیت پر زور دیا ہے۔ امریکہ اور روس کی یورپی اتحادی اپنی شکست کے بعد سفارت اور معاشی طور پر طالبان حکومت کو نقصان پہنچانے کی کوشش میں ہیں۔طالبان کے عام معافی کے اعلان اور اعتدال پسندی کے اظہار کے باوجود انہیں انسانی حقوق اور نسوانی آزادی کے بارے میں لیکچر دینے میں مصروف ہیں۔وہ یہ مطالبہ بھی کر رہے ہیں کہ افغان حکومت اپنے اعلانات پر عمل کر کے دکھائے حالانکہ عمل ہوتا ہوا نظر آ رہا ہے۔ڈونلڈ ٹرمپ نے امریکی حکومت کو خوب کھری کھری سنائی ہیں اور امریکہ کی شکست کو تاریخ کی بدترین شکست قرار دیا ہے۔ٹرمپ نے اشرف غنی کو بھی بدمعاش‘بزدل‘ لالچی اور لٹیرا قرار دیا ہے اور گمان ظاہر کیا ہے کہ وہ ضرور ایک بڑی رقم کے ساتھ افغانستان سے فرار ہوا ہے۔ امریکہ اور یورپی رہنمائوں کا طالبان کے لئے بغض اور نفرت تو قابل فہم ہے لیکن ملالہ یوسفزئی کے بیانات عجیب و غریب ہیں۔اس نے عالمی رہنمائوں سے فوری کارروائی کا مطالبہ کیا ہے اور وزیر اعظم کو مہاجرین کی آباد کاری کے لئے اقدامات کرنے کا کہا ہے۔انہیں افغان خواتین کے بارے میں سخت تشویش ہے۔شاید وہ اپنے آقائوں کو خوش کرنا چاہتی ہے۔حالانکہ ایسے لوگوں کو اشرف غنی اور اس کے ساتھیوں کے انجام سے سبق سیکھنا چاہیے۔عزت وہی اچھی ہوتی ہے جو اپنے ملک اور اپنے عوام سے ملے۔غیر تو بکائو لوگوں کو صرف استعمال کرتے ہیں اور کام نکل جانے کے بعد بے یارو مددگار چھوڑ دیتے ہیں۔