افغانستان کے جنگجو طالبان کی حکمت عملی (سٹریٹجی )منصوبہ بندی (پلاننگ) اور جنگی حربے(ٹکیکٹس) جنگ کے مانے ہوئے تینوں شعبوں میں طالبان جنگجوئوں کی قیادت امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے مقابلے میں کہیں برتر معیار کی حامل ہے۔گزشتہ ایک صدی کی تاریخ پر نظر ڈالیں تو ٹیکنالوجی میں برتری کے باوجود امریکی افواج اور اس کے خفیہ ادارے ایک اوسط درجے کی کارکردگی اور ذہانت کا ثبوت بھی نہیں دے سکے۔خفیہ اداروں کی طرف سے دی گئی معلومات ناقص اور اس پر استوار منصوبہ بندی کو کم از کم لفظوں میںبھی بدترین ہی قرار دیا جا سکتا ہے۔افغانستان میں حالیہ شکست نے اس کے کس بل نکال دیے ہیں،وہ آئندہ کی دہائیوں تک میدان جنگ میں اترنے کے قابل نہیں ہے۔شرمندگی اور خجالت سے نکالنے کے ذہنی دبائو نے اگر اسے روس یا چین سے بھڑنے پر مجبور کر دیا تو اس کا انجام شاید اشرف غنی سے بھی تیز تر ہو گا۔افغانوں کی سرفروشی ثابت قدمی اور جنگ کی چالوں میں مہارت کوئی نئی بات نہیں‘سکندر مقدونی جسے آج بھی دنیا سکندر اعظم کے نام سے جانتی ہے اس نے اونچے پہاڑیوں کو روند ڈالا سمندر پایاب ہوئے، زمانے کی سپر پاور یعنی اکلوتی عالمی طاقت اس کے سامنے یوں بیٹھ گئی، جس طرح اشرف غنی طالبان کے سامنے، فاتح عالم سکندر اعظم جب افغانستان اور ہمارے قبائلی علاقوں میں اترا تو وہ کامیابی اور فتح کے نشے میں سرشار تھا،لاکھوں کے ایرانی لشکر اس کے سامنے خشک پتوں کی طرح اڑ گئے اب وہ افغان سرزمین کو جلدی سے پار کر کے موزوں ترین موسم میں گرمی شروع سے پہلے سورج دیوتا کی سرزمین ہندوستان کو فتح کر لینا چاہتا تھا۔اس وقت یہی معلوم دنیا کا آخری کنارہ تھا مٹھی بھر افغانوں کے دیس میں اس پر جو بیتی اس کے بارے میں سکندر نے اپنی ماں کے نام خط میں لکھا کہ میں ایک ایسی سرزمین میں داخل ہو گیا ہوں جہاں ہر کوئی سکندر ہے‘میرا خیال تھا میں ہی ایسا جری بہادر ہوں جس کا کوئی سامنا نہیں کر سکتا مگر میری فوج کے سامنے مٹھی بھر لوگ مقابل ہوتے، وہ بڑی مہارت اور تیز رفتاری سے حملہ آور ہو کر ہمیں زخم دے کر شام سے پہلے پسپا ہو جاتے ہیں۔ہم نے سوچا کہ فتح یاب ہو گئے مگر صبح آنکھ کھلتے ہی وہ پہلے سے زیادہ تیزی اور توانائی کے ساتھ ہمارا پیچھا کرنے پہنچ جاتے ہیں،ان پر فتح پانا ممکن نہیں لگتا‘اب میں نے ایک حل ڈھونڈھ لیا ہے، میں نے ان کے ساتھ دوستی بنانا شروع کی ہے، انہیں یقین دلایا ہے کہ میں ان کے ملک کو فتح کرنے یا قبضہ کرنے نہیں آیا بلکہ صرف یہاں سے گزر کر آگے جانا چاہتا ہوں‘انہیں قیمتی تحائف دے کر اپنا دوست بنا لیا ہے اب وہ ہندوستان پر حملے کے لئے میرے ہم رکاب ہیں۔ سکندر کا اپنی والدہ کے نام خط سے اندازہ ہوتا ہے کہ پورس کے ساتھ جنگ کے دوران خراسان کے پٹھان جنگجو سکندر کے شانہ بشانہ لڑے۔ سکندر یونانی کو گزرے تین ہزار سال سے زیادہ عرصہ بیت گیا،ایک مرتبہ پھر سفید چمڑے والے انگریز رستے کی تمام رکاوٹیں عبور کر کے ہندوستان پر بھی قابض ہو گئے‘اس وسیع و عریض دولتمند سرزمین کی دولت سکندر کی طرح اپنی جنگ بازی کی مہارت اور فتح مندیوں کے نشے میں چور افغانستان فتح کر کے وسط ایشیا سے ہوتے روس کی راہ لینا چاہتے تھے‘ان کے ساتھ جو ہوا وہ بڑا ہی عبرت اثر ہے‘برطانیہ عظمیٰ نے تین بار کوشش کر کے دیکھ لی تو افغان حکمرانوں کو کچھ دے دلا کر اپنے اور روس کے درمیان اسے سد سکندری بنا لیا کہ سونے کی چڑیا ہندوستان کو اکیلا لوٹ لے اور روس کی مداخلت سے خود کو محفوظ رکھے ،کوئی سو برس کے بعد روس اور آخری میں امریکہ کا انجام سب سے برا ہے۔امریکی مداخلت اور شکست کے اثرات بہت گہرے اور دوررس ہیں‘اس پر آئندہ کی نشست پر بات کریں گے۔ پاکستان کو بڑی فکر ہو رہی تھی کہ امریکہ اور اس کے اتحادی اپنی شکست فاش کا ملبہ پاکستان پر ڈال کر اسے قربانی کا بکرا بنانے کی کوشش کرے گا۔وزیر اعظم عمران خاں کے امریکی اخبارات میں لکھے مضامین ‘امریکی ٹیلی ویژن اور رائٹرز کو دیے بروقت اور جارحانہ انٹرویو اور تیز رفتار سفارت کاری ‘چین اور روس کے ساتھ قریبی تعلقات اور ہمسایوں ملکوں کو اعتماد میں لے کر امریکی منصوبے کو پلٹ دیا۔امریکہ کو بھی قربانی کا بکرا تلاش کرنے میں زیادہ دقت نہیں ہوئی ،گھر ہی میں پلا پلایا پختہ عمر کا بکرا اشرف غنی دستیاب ہو گیا ہے۔امریکہ کا تازہ ترین موقف یہ ہے کہ ہم یہاں عمر بھر رہنے اور قبضہ کرنے نہیں آئے تھے‘طالبان کی حکومت ختم کر دی،القاعدہ کو شکست ہوئی۔ایک ہزار ارب ڈالر خرچ کے ساڑھے تین لاکھ بہترین تربیت یافتہ(ان کے خیال میں) فوج تیار کی چھ سو پچاس ارب ڈالر کا اسلحہ تربیت وغیرہ خرچ ہوا۔بہترین ٹیکنالوجی ‘جدید ترین اسلحہ گولہ بارود فائٹر جہاز‘ہیلی کاپٹر‘ڈرون ان کے پاس ہیں‘اس قدر اسلحہ کی وافر تعداد معیار اور ساڑھے تین لاکھ فوج صرف ستر ہزار طالبان کا مقابلہ کرنا ہے،اس کے علاوہ قبائلی سردار ان کے جنگجو سب موجود ہیں اس لئے امریکہ کا خیال ہے کہ اس سارے سازو سامان کے باوجود اشرف غنی کمزور پڑ رہے ہیں، تو یہ ان کی نااہلی اور ان کی فوج کی اعلیٰ کمانڈ کا قصور ہے،ہم اپنا کام پورا کر کے نکلے ہیں۔ قربانی کا بکرا زمین پر پچھاڑ لیا گیا ہے قربانی کیلئے تکبیر اور چھری سب حاضر ہیں۔ قوموں کی سیاست عالمی حالات اور تاریخ سے دلچسپی رکھنے والوں جنگوں کی ماہرین اور سفارت کاری کے شناوروں کے علاوہ لکھنے پڑھنے اور سننے والوں کے لئے افغانستان کے بارے میں جاننے سے زیادہ کچھ بھی اہم نہیں ہے۔گزشتہ چار دہائیوں سے گزشتہ خراسان کی سکرین پر ایسا ڈرامہ سٹیج ہو رہا ہے کہ ایک پل کو نظر نہیں ہٹتی۔سادہ اطوار بظاہر سفید سلیٹ کے طالبان‘ٹخنوں سے اونچی شلوار کندھے پر ٹپکا سر پر بھاری پگڑی بڑی بڑی گھنی داڑھی شرمائے شرمائے نظر نیچی انکسار سے گردن جھکائے چلے آتے ہیں۔معلوم ہوتا ہے کہ دنیا و مافیا کے بارے میں کچھ نہیں جانتے ان کے رضا کار جنگ جو پائوں میں پلاسٹک کے سلیپر اور کندھے پر کلاشنکوف لٹکائے ٹینکوں ‘ہیلی کاپٹروں‘52بمبار جہازوں بکتر بند گاڑیوں کے خلاف لڑتے ہوئے فتح یاب ہو رہے ہیں۔ انہوں نے جنگ کے میدان مذاکرات کی میز ڈپلومیسی کے میدان میں بڑے بڑوں کو مات دی۔ تاریخ دم سادھے سارا منظر اپنے اندر جذب کرتے ہوئے محو حیرت ہے،سب کے سارے اندازے غلط ثابت کر دیے گزشتہ ایک ماہ میں ہر میدان اور ہر متکبر کی گردن ان کے پائوں میں دبی ہے۔اشرف غنی جو اپنی حکومت اور صدارت سے ایک انچ ہٹنے پر راضی نہیں تھا،اس کی آنکھیں اندھی‘کان بہرے ہو رہے۔اس کے اپنے ہاتھ پائوں عقل و خرد ایک ایک کر کے جواب دے گئے۔دو مہینوں میں دوسرا فوجی سربراہ برطرف کیا جا چکا ہے،وزیر خزانہ بھاگ گیا بدزبان صالح امراللہ سرحد پار پناہ لے چکا ہے،جن جنگجوئوں کی آمد کا انتظار اور بہادری پر ناز تھا،ان میں کوئی گرفتار ہوا ‘دوسرا انجام بخیر پا کر طالبان سے مل گیا،رشید دوستم اردوان کو منہ دکھانے سے رہا۔انڈیا میڈیا رپورٹس کے مطابق امریکہ نے اشرف غنی کو اقتدار سے دستبردار ہونے کا کہہ دیا ہے۔اس کالم کے شائع ہونے تک طالبان دو تہائی صوبوں پر قبضہ کر چکے ہونگے کابل ان کی دسترس میں ہے صرف ستر میل دور وہ حملہ کرنے کے لئے اپنی قیادت کے حکم کا انتظار کر رہے ہیں،پورے ملک کے طویل و عرض میں عوام کی طرف سے مزاحمت تو دور کی بات کوئی آواز اٹھی نہ چھوٹا موٹا جلوس نہ احتجاج ان کی تیز رفتار پیش قدمی عوام کی پشت پناہی کا زندہ ثبوت ہے۔چین‘ایران‘روس‘ انہیں اپنے دارالحکومتوں میں مدعو کر چکے ہیں۔برطانیہ تسلیم کرنے کا مشروط اشارہ دے رہا ہے۔امریکہ افغان حکومت کو اعتماد میں لئے بغیر طالبان سے معاہدہ کر کے ان کو پہلے ہی تسلیم کر چکا ہے۔چھوٹی موٹی دبی دبی خوفزدہ دھمکیاں دینے والی یورپی یونین اور اقوام متحدہ بالآخر ان کی حکومت تسلیم کریں گے۔ اب صاف کھائی دیتا ہے کہ کوئی دوسرا فریق افغانستان میں بچا ہی نہیں جس سے طالبان حکومت سازی کے لئے مذاکرات کریں۔تاجک‘ازبک‘ ہزارہ کی ایک بڑی تعداد ان کے ساتھ شامل ہے۔وسیع البنیاد حکومت کے وہ خود تنائی ہیں۔یقینا خطہ امریکہ کے تکبر اور انڈیا کی ریشہ دیوانی اور اسرائیل کی سازشوں سے بچ نکلا ہے: افغان باقی ‘کہسار باقی الحکم اللہ الملک اللہ