جمعہ کو قندوزمیںہونے والا حملہ کابل پر طالبان کی حکومت کے قیام کے بعد افغانستان میں دہشتگردی کا دوسرا بڑا واقع ہے۔ جس میں تازہ اطلاعات کے مطابق اب تک سو کے قریب افراد شہید اور200 زخمی ہوئے ہیں۔یہ حملہ قندوز میں اہل تشیع کی ایک عبادت گاہ پر اس وقت ہوا جب جمعہ کی نمازادا کی جا رہی تھی۔حملے کی تصاوانسانی دل ودماغ کو جھجھوڑ کر رکھ دینے والی ہیں، جس میںمسجد کی دیواریں انسانی لہو سے خون آلود اورشہداء کے اعضاء دور دور تک بکھرے پڑے دکھائی دیتے ہیں۔ حملے کی ذمہ داری داعش کی مقامی شاخ آئی ایس کے(دولت اسلامیہ خراسان) نے قبول کی اور غالب گمان بھی یہی تھا کہ ایسی سفاکیت کے پیچھے زیادہ تر اس تنظیم ہی کا ہاتھ ہوتاہے۔ کابل پر قبضے کے بعد داعش خراسان کے دہشتگردوں نے کابل ایئرپورٹ میں لوگوں کے جم غفیر پر ہونے والے حملوں کی ذمہ داری قبول کی تھی جس میں ایک اندازے کے مطابق ایک سو ستر سے زیادہ افراد شہید اور دوسو کے قریب لوگ گھائل ہوئے تھے۔یہ بات اب کسی سے پوشیدہ نہیں رہی کہ پہلے سے زخم خوردہ افغانستان کیلئے اب داعش کی خونخوارتنظیم درد سر بنتی جارہی ہے۔ دوہزار تین میںعراق پر امریکی حملے کے بعد وہاں سے جنم لینے والی اس تنظیم کاڈھانچہ ، نیٹ ورک اور سفاکانہ مائنڈ سیٹ کسی بھی دوسری انتہا پسند تنظیم سے الگ ہے۔ دولت اسلامیہ اگرچہ دوہزار چھ میں ابو معصب زرقاوی کی ہلاکت کے بعد عراقی القاعدہ کی مدد سے قائم ہوئی تھی تاہم 2010ء میں اس تنظیم کا اثر و رسوخ اس وقت بڑھنا شروع ہوا جب اس کی قیادت ابوبکر البغدادی کے حصے میں آئی ۔ دو ہزار تیرہ تک اس نے نہ صرف عراق میں اپنی طاقت کا خوب لوہا منوایا بلکہ اپنے نیٹ ورک کو شام تک بھی بڑھایا جہاں بڑی تعداد میں جنگجووں نے صدر بشارالاسد کے خلاف جاری مزاحمتی تحریک کا ساتھ دیا۔ اسی سال اس تنظیم کو مختلف شدت پسند تنظیموں کاایک ملغوبہ بناکراس کانام ’’ دولت اسلا میہ فی العراق والشام‘ یا داعش ‘‘رکھاگیااور یہیں سے القاعدہ نے اس سے اپنی راہیں جدا کرلیں۔ عراق سے شام اور شام سے ہوتی ہوئی داعش نے دو ہزار پندرہ میں افغانستان کے مشرقی صوبے ننگرہار سے’’دولت اسلامیہ خراسان‘‘ کے نام سے اپنا فرنچائز کھولا اور شدت پسند کاروائیوں کا آغاز کردیا جہاں اس نے بہت جلد دوسرے علاقوں زابل، ہلمند، فرح اور لوگر تک اپنے نیٹ ورک کو وسعت دی۔ افغانستان میں داعش کی آمد اگرچہ افغان طالبان کیلئے ایک دوسرے محاذ کھولنے کا مترادف تھا تاہم انہوں نے بڑی حدتک اس کو ننگرہار کے بعض علاقوں تک محدود رکھا۔کہا جاتاہے کہ اس خطے میں داعش نے باقاعدہ طور پر خلافت طرز کی حکمرانی قائم کی اور ساتھ ساتھ ایف ایم ریڈیو کے نشریات کا بھی اہتمام بھی کیاجس کی نشریات پاکستان کے قبائلی علاقوں میں بھی سنائی دیتی ہیں۔ افغانستان میں داعش کی باقیات سے اب بھی انکار نہیں کیاجا سکتا تاہم یہ بہت محدود ہیں۔ ملک پر قبضے کے بعد افغان طالبان نے داعش کا قلع قمع کرنے کو اس وقت اولین ترجیح بنایا ہے اور باقاعدہ طور پر اس کے خلاف سخت کریک ڈاون کا آغاز کیاہے ۔یہاں یہ عرض کرتاچلوں کہ داعش اس وقت افغانستان میں حواس باختگی کی حالت میں ہے اور حالیہ سفاکانہ کارروائیاں اس تنظیم میں پائے جانے والے شدید غم وغصے کی غمازی کرتی ہیں۔ جیسا کہ میں نے پہلے ذکر کیا کہ داعش کا مائنڈ سیٹ ، اہداف اور طریقہ واردات سب انتہا پسند تنظیموں سے الگ ہے۔یہ محدود پیمانے پر ایک اسلامی ریاست کوقائم کرنے کے بجائے پوری مسلم دنیا کو خلافت کے دائر میں لانا چاہتی ہے ۔ دوسری طرف اس راسخ العقیدہ سنی تنظیم کا بڑا ہدف ایک خاص مسلک کو ٹارگٹ کرنا ہے ۔ داعش نے جس طرح عراق اور شام میں ایک خاص مسلک کے پیروکاروں کو اپنا ہدف بنائے رکھا، اسی طرح پاکستان میں بھی اس نے وقتاً فوقتاً اس مسلک لوگوں پر حملوں کی ذمہ داری قبول کی ہے۔دوہزار سترہ میںسندھ میںلال شہباز قکندر کے مزار پر ہونے والے اندوہناک حملے کی ذمہ داری بھی داعش ہی نے قبول کی تھی جس میں نوے کے قریب زائرین شہید ہوئے تھے۔حال ہی میں بلوچستان کے ضلع مچھ، مستونگ میں حملوں کے پیچھے بھی داعش کا ہاتھ تھا۔ اسی طرح خیبرپختونخوا باالخصوص قبائلی علاقوں میں بھی یہ تنظیم وقتاً فوقتاً محدود پیمانے پر اپنی موجودگی کا ثبوت دیتی رہی ہے۔ دوسال قبل اس تنظیم نے افغانستان کی طرز پر پاکستان میں ’’دولت اسلامیہ ولایۃ ‘‘ کے نام سے اپنا فرنچائز کھولا لیکن چھوٹے موٹے حملے کرنے کے علاوہ اسے یہاں پر خاطر خواہ کامیابی ابھی تک نہیں مل سکی ہے ۔افغانستان میں پچھلے چند سال کے دوران ایک ہی مسلک کے اجتماعات اور عبادت گاہوں میں جتنے بھی حملے ہوئے، اس کی ذمہ داری علانیہ طور پر اس تنظیم نے قبول کی ہے۔ ایک اہم سوال یہاں یہ پیدا ہوتاہے کہ داعش کی سرپرستی آخر کونسی قوتیں کررہی ہیں؟ بہت سے لوگ اور مبصرین داعش کو امریکہ اور اسرائیل کی پروردہ تنظیم سمجھتے ہیں جوکہ قابل قہم ہے تاہم ابھی تک ان دعووں کی انتہائی ٹھوس ثبوت سامنے نہیں آئے ہیں۔اس بارے میںسابق افغان صدر حامد کرزئی کا دعویٰ نظرانداز نہیں کیا جاسکتا جنہوں نے اپنے کئی انٹرویوز میں کہا تھا کہ افغانستان میں داعشی جنگجوئوں کو امریکی افواج سپورٹ کررہی ہے۔داعش سے نمٹنا صرف افغان طالبان کی ذمہ داری نہیں بلکہ خطے کے تمام ممالک( پاکستان، ایران، چائنا، وسطی ایشیائی ریاستیں اور روس )کے لئے اس ناسور کے بڑھتے ہوئے اثرات کو روکنا ناگزیر ہوچکا ہے کیونکہ مستقبل قریب میں یہ پورے خطے کوایک نئے عذاب سے دوچار کرنے کا خواب دیکھ رہی ہے۔