اپنی تاریخ کی طویل جنگ لڑنے کے بعد بالآخر امریکہ نے افغانستان سے انخلاکافیصلہ کرلیا ۔امریکہ کو بہرحال ایک دن ضرور نکلناتھا لیکن ڈونلڈ ٹرمپ کی جلد بازی نے امریکی سسٹم کو ایسا کرنے پر شاید وقت سے پہلے مجبور کردیا کہ بس جناب، بہت ہوگیا…اتنا ہی کافی ہے۔دوحہ میں چھ روزہ مذاکرات کے نتیجے میں جہاں امریکہ نے افغانستان سے ڈیڑھ سال کے اندر اپنی افواج کے انخلا پر حامی بھرلی ہے وہاں طالبان نے بھی افغان سرزمیں کو داعش اور دوسری عسکریت پسند تنظیموں کا محفوظ پناہ گاہ نہ بننے اور امریکہ کے خلاف استعمال نہ ہونے کی یقین دہائی کرائی ہے۔اسی طرح طرفین نے ایک دوسرے کے قیدیوں کو بھی آزادکرنے پر اتفاق کرلیاہے ۔ طالبان کا امریکی انخلا کا دیرینہ مطالبہ تو پورا ہوگیا یا یوں سمجھیے کہ تین ہفتوں میں طالبان کا افغان سرزمیں سے ختم کرنے کا امریکی خواب سترہ سال کے طویل عرصہ بعدبھی شرمندہ تعبیر نہ ہوسکا جسے امریکہ کی شکست قرار دینے میں کوئی دورائے نہیں ہوسکتیں۔ایک اندازے کے مطابق امریکہ نے اس طویل جنگ میں ڈیڑھ ٹریلین ڈالر (یعنی لگ بھگ ڈیڑھ ہزار ارب ڈالر) جھونکا دیئے لیکن اسے خاطر خواہ کامیابیاں نہیں ملیں۔اس حوالے سے دیکھا جائے تو افغان طالبان مستحق داد ہیں کہ انہوں نے گوریلا کارروائیوں کے ذریعے نہ صرف ایک سپرطاقت کا مقابلہ کیا بلکہ اسے ایک دن مذاکرات کی بھیک مانگنے اور واپسی کی راہ لینے پربھی مجبور کردیا ۔ سوال مگر یہ ہے کہ کیا طالبان امریکہ فری افغانستان میں گھائل افغان عوام کے زخموں پر مرہم رکھ سکیں گے یا خاکم بدہن معاملات ماضی کی طرح جنگی اور خونی رہیں گے ؟اس طویل جنگ کے دوران لاکھوں کی تعداد میں بے گناہ افغان شہری اپنی زندگیوں سے ہاتھ دھوبیٹھے ، لاکھوں کی تعداد میں لوگ عمر بھر کیلئے اپاہج ہوگئے، افغان معیشت کا بری طرح ستیاناس ہوگیا۔اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ کے مطابق سنہ2009ء کے بعد سے ہرسال چھ سے نوہزار کے درمیان عام افغان شہری اس جنگ کے دوران مارے گئے ہیں۔ کیا طالبان امریکی انخلا کے بعد جنگ زدہ افغانستان کی روٹھی ہوئی قوم کے دل جیتنے میں بھی کامیاب ہوپائیں گے ۔ یہ ایک اہم سوال ہے جس کا جواب اب طالبان کے پاس ہے ۔طالبان اگر اپنے آپ کو ماضی کی پوزیشن پر لانے کی کوشش کریں گے تو یہ آپشن ان کو بہت مہنگا پڑے گا کیونکہ عالمی دنیا تو کُجا ، افغان عوام ، موجودہ افغان حکومت اور افغانستان کی مختلف الخیال سیاسی جماعتوں کو بھی طالبان اس صورت میں قبول نہیں ہونگے ۔ آج سے بیس بائیس برس پہلے بھی ان کی حکومت کو بمشکل دوتین اسلامی ملکوں نے تسلیم کیا تھا لیکن اب کی بار بھی اگر وہ اسی آپشن پر کاربند رہیں گے تو میرے خیال میں انہی ملکوں کی بھی ان سے بن نہیں پائے گی۔ افغان حکومت کے بارے میں روز اول سے طالبان کا یہ موقف رہاہے کہ امریکی پشت پناہی کے سہارے کھڑی اس حکومت کی کوئی حیثیت نہیں ہے ۔ اسی لئے تو افغان سرزمیں کے اس اہم اسٹیک ہولڈر سے تاحال براہ راست بات چیت اور مذاکرات کو وہ بے مقصد قرار دے رہے ہیں۔ دیکھا جائے تو اب کی بارطالبان افغانستان کے مستقبل کے بارے میں خاصے لچکدار دکھائی دیتے ہیں ۔ ان کے کئی ذمہ دار لوگوں کویہ کہتے سنا ہے کہ ’’ بیرونی فورسز کے انخلا کے بعد وہ ایک ایسی حکومت کی تشکیل چاہتے ہیں جس میں ملک کی تمام اقوام اور سیاسی جماعتیں شامل ہونگی لیکن دوسری طرف وہ موجودہ افغان حکومت کو کسی طور بھی خاطر میں لانے کیلئے تیار نظرنہیں آتے ہیں۔پچھلے دنوں قطر میں طالبان کے سیاسی دفتر کے رکن شیر محمد عباس ستانکزئی کاایک انٹرویو سننے کو ملا جس میں انہوں نے موجودہ افغان حکومت کے بارے میں کیے گئے سوال کے جواب میں اپنے اسی پرانے موقف کو دہرایا جسے وہ پہلے سے اپناچکے ہیں۔ ان سے جب پوچھا گیا کہ کیا وہ امریکہ کے انخلا کے بعد افغان حکومت کے ساتھ مفاہمت کا کوئی راستہ نکالنے کا ارادہ رکھتے ہیں کیونکہ وہاں پر پہلے سے باقاعدہ ایک منظم حکومت کام کررہی ہے ، وہاں پر ادارے اور فوج موجودہے توجواب میں جناب ستانکزئی نے افغان حکومت کی ہر حیثیت کی نفی کرتے ہوئے کہا کہ ان کے ہاں اس حکومت کی کوئی وقعت نہیں ہے ‘‘۔ اب اگر امریکہ کے انخلا کے بعد طالبان کا افغان حکومت اور موجودہ ڈھانچے کے بارے میں بھی وہی رویہ رہا جس کا وہ اظہار کرتے آئے ہیں تو افغانستان کے مستقبل کیلئے ایک اور بدشگونی ہوگی ۔افغانستان اور افغانوں کے وسیع تر مفاد میںطالبان کیلئے اب یہ ناگزیر ہوچکاہے کہ ماضی کی آپشن پر غور کرنے کی بجائے وہ ایک ایسے افغانستان کو اپنا مطمح نظر بنالیں جو افغانستان کے تمام اقوام ، سیاسی جماعتوں اور موجودہ حکومت کے ساتھ ساتھ بین الاقوامی دنیا کو بھی منظور ہو۔خدا کرے کہ امریکی انخلا کے بعد طالبان افغان وطن کے تمام اسٹیک ہولڈرز سے مل کر باہمی مذاکرات اور مفاہمت کے ذریعے ایک ایسے خوشحال، پرامن اور آزاد افغانستان کی تشکیل وتعمیر کو اپنا فریضہ سمجھیں ۔ دعاہے کہ افغانستان ہمیشہ ہمیشہ کیلئے امن وآشتی کا گہوارہ بنے تاکہ یہاں کا پوراخطہ مزید اضطراب اور خون آشامی سے بچے۔ آسیا یک پیکر آب وگل است ملت افغان در آں پیکر دل است از کشاد او کشاد آسیا از فساد او فساد آسیا،