ریاستیں دنوں، مہینوں ، برسوں میں نہیں دھائیوں میں ابھرا اور بکھرا کرتی ہیں۔ پہلی جنگ عظیم کے بعددہائیوں کی سرد جنگ کے بعد امریکہ دنیا کی واحد غیر متنازعہ سپر پاور بنا۔ دہائیوں تک سپر پاور تسلیم کئے جانے کے احساس تفاخر اور دنیا کو اپنے مرضی سے چلانے کے خمار کے بعد آج جوبائیڈن وارثت میں ملے احساس تفاخر کے بوجھ تلے دبے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔ نئے امریکی صدرکو توسیع پسندانہ پالیسیوں کے باعث بکھرا ہوا اور جنگوں میں بے دریغ وسائل جھونکنے سے معاشی طور پر لڑکھڑاتا امریکہ ملا ۔ یہ بش سینئر انتظامیہ کا احساس تفاخر ہی تھا جس نے امریکہ کو سوویت یونین کی تحلیل کے بعد وارسا پیکٹ سے نکلنے دنیا پر امریکہ کی حکمرانی پر اکسایا ۔ امریکہ نے اپنے نیٹو اتحادیوں کے ساتھ گریٹر مڈل ایسٹ کے تصور میں امریکی مفادات کے تحفظ کے لئے خطہ میںفوجی موجودگی کو ضروری سمجھا اور پہلی خلیجی جنگ میں کود گیا۔ امریکہ کا احساس تفاخر اور دنیا پر امریکی دھاک بٹھانے کی پالیسی کلنٹن دور میں بھی جاری رہی ۔کلنٹن نے بھی دنیا میں امریکہ کے لئے نئی منڈیاں تلاش کرنے اور جمہوریت کے فروغ کے نام پر امریکی تسلط برقرار رکھنے کی پالیسی جاری رکھی۔ بش سینئر اور کلنٹن کی دنیا کو امریکی مفادات کے سانچے میں ڈھالنے کی پالیسیوں پر عالمی سطح پر عدم مزاحمت نے بش جونیئرکے دل میںکمزور ممالک اور ان کے وسائل پر قبضہ کی خواہش کو جنم دیا۔9/11کے بعد بش جونیئر نے دہشت گردی کے خلاف نام نہاد جنگ کے نام پر محض دو سال میں دو ممالک پر جنگ مسلط کر دی۔ بش جونیئر کی جنگ پسندی اور توسیع پسندانہ دور صدارت نے کمزور اقوام کو اپنی آزادی کی حفاظت کا حوصلہ بخشا اور افغان بے سروسامانی میں دنیا کی واحد سپر پاور سے بھڑ گئے۔ پھر سنگلاخ چٹانوں میں پلنے والے افغانیوں نے واحد سپر پاور کی جدید ٹیکنالوجی اور تباہ کن ہتھیاروں اور بے پناہ وسائل اور طاقت کے احساس تفاخر کو اپنے لہو میں ڈبو دیا ۔عراق کے عوام نے تیل پر امریکی قبضہ کی خواہش کو تیل کے کنوئوں میں آگ سے اٹھنے والے دھوئیں میں اڑا دیا۔ افغانستان اور عراق میں بہنے والے انسانی خون اور انسانی جسموں کے اڑتے چھیتڑوں نے عالمی سطح پر امریکی پالیسیوں کے خلاف نفرت اور مزاحمت کے جذبات کو ابھارا۔ امریکی معیشت اپنی ہی شروع کی گئی جنگوں کے آگے ڈھیر ہونا شروع ہوئی دوسری طرف امریکی ڈیزی کٹر دھماکوں کے شور میں چین خاموشی سے معاشی اور عسکری لحاظ سے مضبوط ہوتا گیا۔ اوباما کے دور تک پہنچتے پہنچتے امریکہ کے جنگی جنون کی حالت میر تقی میر کے اس شعر سے مختلف نہ تھی: زخم جھیلے داغ بھی کھائے بہت دل لگا کر ہم تو پچھتائے بہت اوباما نے اپنے دور اقتدار میں امریکہ کے لئے تباہ کن ثابت ہونے والی جنگوں سے پیدا ہونے والے معاشی بحران سے نکلنے کے لئے امریکی سٹریٹجک مفادات کا دائرہ محدود کرنے کی کوشش ضرور کی مگر اوباما بھی چین کو معاشی اور عسکری لحاظ سے دنیا کی بڑی قوت بننے سے روک نہ سکے ۔اوباما نے اپنے اقتدار میں غیر ضروری جنگوں سے گریز کی پالیسی اپنائی تاکہ امریکہ کی مڈل کلاس کی آسودگی کے لئے وسائل پیدا ہوں مگر اوباما کو بھی شام میں اپنی کھینچی ڈیڈ لائن کے بعد اس لاحاصل جنگ میں کودنا پڑا۔ جہاں میدان جنگ میں روس ماضی کے حساب بے باک کرنے کے لئے پیچ کھائے بیٹھا تھا۔ امریکہ کی توسیع پسندانہ پالیسی کے نتیجے میں اسلامی دنیا کے تین ممالک افغانستان، عراق اور شام امریکی بارود سے راکھ کا ڈھیر بن گئے مگر اس ڈھیر سے اٹھنے والی چنگاڑیاں امریکی معیشت کو بھسم کئے جا رہی تھیں۔ اوبامہ کی جنگ گریز پالیسی اورافغانستان، عراق اور شام کی جنگوں میں راکھ ہوئے امریکی تفاخر کو سمیٹتے ہوئے ڈونلڈ ٹرمپ نے امریکہ فرسٹ کا نعرہ لگایا۔ ٹرمپ نے امریکیوں سے لاحاصل جنگوں سے نکلنے کے وعدہ پر عمل کرتے ہوئے عراق، شام اور افغانستان سے امریکی فوجی واپس بلائے اور افغان طالبان سے رواں برس مئی تک افغانستان سے امریکی فوجیوں کے مکمل انخلا کا معاہدہ کیا۔ اس طرح ٹرمپ نے امریکہ کی داخلی پالیسی میں تبدیلیاں کیں مگر جنگی خارجہ پالیسی کے حوالے سے مجموعی طور پر اوباما کی پالیسی پر ہی عمل پیرا رہے۔ ستم ظریفی یہ کہ جنگوں سے بچنے کی خواہش کے باوجود یمن جنگ کے بالواسطہ حصہ بن گئے۔ اب جوبائیڈن کا امتحان شروع ہو چکا ہے۔ بائیڈن نے جہاں اقتدار کے پہلے ہی روز ٹرمپ کے بہت سے فیصلوں کو غیر موثر کیا ہے وہاں افغانستان سے امریکی فوج کی واپسی کے معاہدے پر نظر ثانی کا اعلان بھی کیا ہے۔ بائیڈن انتظامیہ کے فیصلے امریکہ کے مستقبل کا تعین کریں گے۔ جہاں تک بائیڈن کی شخصیت اور ان کی فیصلہ سازی کی قوت کے بارے میں قیاس کا تعلق ہے تو بائیڈن شاید ان چند ایک امریکیوں میں سے ہیں جو گزشتہ چار دھائیوں سے امریکی پالیسیوں کا حصہ چلے آ رہے ہیں بحیثیت سینیٹر بائیڈن نے 1980ء میں پانامہ جنگ کی حمایت کی تھی۔2000ء میں افغانستان جنگ کے بھی حامی رہے تھے۔ بائیڈن نے اپنے کیریئر میں صرف ایک ہی جنگ کی مخالفت کی تھی جو 1991ء کی گلف وار تھی۔ جس پر بھی بعد میں وہ غلطی کا اعتراف کر چکے ہیں۔ انسان کا ماضی اس کی شخصیت کا آئینہ ہوتا ہے بائیڈن کے ماضی کے حساب سے یہ اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ان کی پالیسی اوباما اور ٹرمپ کی جنگ گریز پالیسیوں سے مختلف ہو گی۔ بائیڈن یمن جنگ میں سعودی عرب کو ہتھیاروں کی فروخت پر پابندی کا عندیہ تو دے چکے ہیں مگر فلسطینیوں کی زمین پر اسرائیل کے قبضہ کے خلاف اقدامات کرنے سے انکاری ہیں۔ ریاستیں دنوں مہینوں نہیں دہائیوں میں بنا اور بکھرا کرتی ہے مگر بائیڈن کا چار سالہ اقتدار امریکہ کے مستقبل کا تعین ضرور کرے گا کہ ان کے اقتدار میں امریکی اپنے خبط عظمت سے نجات حاصل کرنے میں کامیاب ہوتے ہیں یا لاحاصل جنگوں کے ذریعے امریکہ سمیت دنیا کے لیے مزید تباہی کا راستہ چنتے ہیں۔