سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے سیفران میں چیف کمشنر برائے افغان مہاجرین نے بتایا کہ 8 لاکھ 24 ہزار افغان مہاجرین کو مہاجر کارڈ دیئے گئے اور دو لاکھ مہاجرین کے بنک اکائونٹس کھولے گئے ہیں۔ انہوں نے یہ انکشاف بھی کیا کہ افغان باشندوں کا تعلیمی نصاب الگ ہے تاہم حکومت نے ان کے نصاب کی مانیٹرنگ کا فیصلہ کیا ہے کیونکہ ریاست کے خلاف تعلیمی نصاب پر حکومت کے تحفظات ہیں اور نصاب میں ڈیورنڈ لائن و مقبوضہ کشمیر کے معاملہ پر نصاب میں ابہام ہے۔ چیف کمشنر افغان مہاجرین کے ان انکشافات سے صاف معلوم ہو رہا ہے کہ افغان مہاجرین کس قسم کے تعلیمی نصاب پر عمل پیرا ہیں۔ جب وہ ریاست پاکستان میں رہ رہے ہیں اور حکومت پاکستان ہی ان کے لئے سب کچھ کر رہی ہے تو الگ نصاب بنانے کی انہیں اجازت کیوں دی گئی؟ پاکستان گزشتہ چالیس برس سے افغان پناہ گزینوں کی نگہداشت کر رہا ہے۔ انہیں یہاں ان کے وطن جیسا ماحول دیا گیا۔ لیکن ان مہاجرین کی طرف سے پاکستان سے قطعی اور واضح وفاداری کا اظہار آج تک نہیں ہوا۔کیا ان کو یہ اجازت دی جا سکتی ہے کہ وہ پاکستان کے اندر رہتے ہوئے اپنا الگ تعلیمی نصاب بنائیں؟لہٰذا ان کے موجودہ تعلیمی نصاب کا ازسر نو جائزہ لیا جائے اور انہیں اس امر کا پابند بنایا جائے کہ وہ پاکستان میں نافذ تعلیمی نصاب پر عمل کریں۔ اگر انہیں سب حقوق مل رہے ہیں تو انہیں وفاداری بھی پاکستان کے ساتھ ہی نبھانی چاہئے۔