امریکہ میں نائن الیون کا واقعہ اٹھارہ برس پہلے رونما ہوا ۔اس واقعے کے بعد امریکہ نے دہشتگردی کے خلاف ایک جنگ شروع کرنے کی ٹھان لی جس کانام وار آن ٹیرررکھا گیا۔ وار آن ٹیرر کے تحت امریکہ نے ان لوگوں سے نمٹنا تھا جو القاعدہ کی طرح ورلڈ ٹریڈ سنٹرپر حملوں میں براہ راست ملوث تھے یا پھر افغان طالبان کی شکل میں اس تنظیم کے سہولت کار تھے۔ وار آن ٹیرر کے آغاز میں اس وقت کے امریکی صدر جارج بش نے اعلان کیا تھا کہ امریکی حکومت صرف چند ہفتوں میں دہشتگردوں سے نمٹے گی۔ نائن الیون واقعے کو اب اٹھارہ برس بیت گئے ہیں لیکن دہشت گردی کے خلاف جنگ اب بھی اپنے اختتام کو نہیں پہنچی ہے ۔ سوال یہ ہے کہ کیا امریکہ کے اس مشن کا مقصد حقیقت میں ان لوگوں سے نمٹنا تھا یا اس جنگ کی آگ پر مزید تیل چھڑکنا اس کا اصل مقصد تھا؟ دعویٰ تو امن اور استحکام لانے کا کیا گیاتھا لیکن سچی بات یہ ہے کہ اٹھارہ سال کی اس طویل جنگ میں امریکہ خطے میں اٹھارہ دن کیلئے بھی امن قائم نہیں کرسکا۔حامد کرزئی دس سال سے زیادہ عرصہ تک افغانستان کے صدر رہے ۔ جاتے جاتے کرزئی صاحب کوبھی عین القین ہوگیا تھاکہ امریکہ کے عزائم وہی نہیں ہیں جس کا انہوںنے یہاں آتے وقت اظہار کیا تھا ۔ حامد کرزئی بارہا یہ سوال اٹھاچکے ہیںکہ امریکہ افغان خطے میں امن لانے میں دلچسپی نہیں رکھتا بلکہ اس ہاتھی کے دکھانے کے دانت کچھ اور کھانے کے اور ہیں ۔ دولت اسلامیہ (داعش) کی افغانستان میں موجودگی کے حوالے سے پچھلے سال تو انہوں نے یہاں تک کہاتھاکہ افغانستان میں مذکورہ تنظیم کے جنگجووں کو امریکی اڈوں سے اسلحہ مل رہاہے ۔ان کا کہنا تھا کہ امریکہ جب سے افغانستان میں آیا ہے اس کے آنے سے ملک میں شدت پسندی اور عدم استحکام میں اضافہ ہوا ہے۔پچھلے سال افغانستان کے ننگرہار صوبے میں9800 کلو وزنی بم (مادر آف آل بم MOAB)گرانے کے بعدتو کرزئی صاحب اتنے دل برداشتہ ہوئے تھے کہ باقاعدہ طور پر امریکی افواج کی انخلا کیلئے تحریک شروع کرنے کا اعلان کیا۔ وار آن ٹیرر یا دہشت گردی کے خلاف جنگ لڑنا محض ایک دھوکہ تھا اور اس دھوکے کے ذریعے امریکہ نے بہت سے لوگوں کو بے وقوف بنایااور آج تک بہتوں کو بے وقوف بنارہاہے۔ اس پورے عرصے میں امریکہ نے منافقت کی اس جنگ کے نام پر نہ صرف افغانوں پر امن حرام کیے رکھا بلکہ ساتھ ساتھ پاکستان( بالخصوص قبائلی علاقہ جات اور خیبر پختونخوا)کے لوگوں کو بھی اس کی بھاری قیمت چکانی پڑی۔ امریکہ کو یقین تھا کہ اس جنگ کی آڑ میں وہ اس خطے میں رہ کر اپنا شکار بہترکھیل سکتاہے ۔ جغرافیائی اہمیت کا حامل یہ خطہ ماضی کی بہ نسبت اس وقت کہیں زیادہ امریکہ کی شیطانی اہداف کیلئے مفید ثابت ہورہاہے ۔ایک طرف مستقبل کا معاشی سپر طاقت چین پر نظر رکھنا اور اس کو سبق سکھانا اس کا مطمع نظر ہے تو دوسری طرف وہ اپنی موجودگی اپنے حلیف بھارت کیلئے بھی ناگزیرسمجھتاہے ۔اسی طرح یہاں رہ کروہ داعش کے اثر ورسوخ کو بھی بڑھا سکتاہے اوروسط ایشیائی ریاستوں کے ساتھ ساتھ پاکستان کے ایٹمی اثاثوں پربھی نظر رکھ سکتاہے ۔ اسی لئے تو اس جنگ میں ہرقسم کے نقصانات اٹھانے سے بھی دریغ نہیں کرتا۔ یہ جنگ امریکی تاریخ کی طویل ترین جنگ ہے جس میں اب تک اس کے 2400فوجی ہلاک ہوئے ہیں اور840ارب ڈالرسے زیادہ اس کے اوپر جنگی اخراجات آئے ہیں۔ کہا جاتاہے کہ یہ اخراجات بھی نہ صرف جنگوں پر کیے گئے اخراجات میں سب سے زیادہ ہیں بلکہ یہ اس رقم سے بھی زیادہ ہے جو امریکہ نے جنگ عظیم دوئم کے بعد مغربی یورپ کی تعمیر پر مارشل پلان کے تحت اٹھائے تھے۔اب امریکا کی ریشہ دوانیاں سب پر عیاں ہوگئی ہیں طالبان اس وقت امریکہ سے انتقام صرف اور صرف افغان حکومت سے جامع مذاکرات اور مفاہمت کی صورت میں لے سکتے ہے ۔ ہرسال ہزاروں معصوم لوگ اس خانہ جنگی میں شہید اور ہزاروں زخمی ہوتے ہیں لیکن امریکی نقصان ان نقصانات کا عشر عشیر بھی نہیں بنتا ہے ۔ کیا افغان مسلمانوں کے وسیع تر مفاد میںمفاہمت کی پالیسی اختیار کرنا اس وقت بہترین آپشن نہیں ہے ؟ اسی طرح پاکستان کیلئے بھی اب یہ ناگزیر ہوچکاہے کہ وہ افغان پالیسی پر نظرثانی کرے اور اس جنگ سے نکلنے میں اپنی عافیت سمجھے جس کا خمیازہ افغانستان کے ساتھ ساتھ اسے بھی مختلف صورتوں میں چکانا پڑرہاہے۔