یوں تو یہ ایک خط ہے جو اس وقت دنیا کے نقشے پر اپنے آپ کو واحد سپر پاور سمجھنے والی قوت امریکہ کے وزیر خارجہ نے افغانستان کے صدر کو لکھا ہے۔ لیکن خط میں ایک جیتی جاگتی کہانی نظر آتی ہے، ایک تصویر دکھائی دیتی ہے۔ ایک ایسی تصویرجس میں آپ کو افغان صدر اشرف غنی دست بستہ، سر جھکائے، کورنش بجائے نظر آئے گا، جسے اس کے ’’آقا ‘‘کا پیغام پڑھ کر سنایا جا رہا ہو۔ خط کے مندرجات پڑھنے کے بعد چشمِ تصور میں آنے والی اس تصویر کے پیچھے ایک تاریخ ہے جو انیس سال اور پانچ ماہ پر پھیلی ہوئی ہے۔ اس کہانی کا آغاز گیارہ ستمبر 2001ء کی صبح کو ہوا تھا، جب نیو یارک کی سب سے بلند و بالا عمارت ’’ورلڈ ٹریڈ سنٹر‘‘ پر دو مسافر طیارے ٹکرائے تھے۔ پہلا طیارہ ٹکرانے کے بعد ہوائی کے ساحلوں سے لے کر آسٹریلیا کے جنگلات تک لوگ اپنے اپنے ٹیلی ویژن سیٹوںکے سامنے نظریں ٹکائے بیٹھ گئے تھے۔ دھوئیں کے بادل اٹھتے رہے، لوگ عمارت سے کودتے رہے۔ نیویارک کی گلیوں میں چیختے چلاتے، دوڑتے بھاگتے لوگوں کا ٹی وی سکرینوں پر نظر آنا، فائر فائٹرز کا اندر گھسنا، مدد کی کوشش کرنا، ٹاوروں کا اپنے ہی قدموں پر دھڑام سے گرنا، چیخ و پکار، خوف و ہراس، غم و غصہ اور پھر خوفناک خاموشی کے بعدبیک زبان ایک انتقامی آواز بلند ہوئی، ’’یہ سب اس ملا عمرؒ کے افغانستان سے منظم کیا گیا ہے‘‘۔ اس ملک پر الزام دھر دیا گیا، جہاں ٹیکنالوجی کے نام پر ٹیلی فون کی لائن اور مواصلات کے نام پر ریلوے لائن تک موجود نہیںتھی۔ پوری دنیا کے عوام اور حکومتوں نے جو براہ راست مناظر دیکھے وہ دنیا میں ایک شاندار ’’ابلاغی مہم‘‘ (Media Strategy)کے طور پر آئندہ آنیوالی صدیوں میں پڑھائے جاتے رہیں گے۔ اگر یہ سب امریکہ نے خود کیا تھا تو اتنا تھوڑا سرمایہ خرچ کر کے اور اتنا تھوڑا نقصان برداشت کر کے پوری دنیا میں اسلام، مسلمان، جہاد اور افغانستان کے خلاف اس قدر شدید نفرت کسی اورابلاغی طریقے سے نہیں پیدا کی جاسکتی تھی اور اگر یہ سب القاعدہ نے کیا تھا تو اتنے کم وسائل کے ہوتے ہوئے دنیا کی واحد سپر پاور کو اس طرح بے بس و مجبور دکھانے والے مناظر بھی کئی گھنٹے تک براہ راست نہیں دکھائے جاسکتے تھے۔ہر صورت میں یہ ایک ’’میڈیا ایونٹ‘‘ ضرور تھا۔ اس واقعے کے بعد دنیا بھر کے تمام ممالک کی نمائندہ عالمی تنظیم اقوامِ متحدہ نے عالمی برادری کو اس نہتے افغانستان پر امریکہ کی سربراہی میں چڑھ دوڑنے کا لائسنس دے دیا۔ کون سا ملک تھا جو ذرا سی آواز بھی نکالتا۔ اس لمحے کے افغانستان کو یاد کریں، آسمانوں سے آگ کے بادل برساتے جہاز، تاجکستان کے راستے کابل میں گھستے سپاہی، ہر طرف بھاگتے دوڑتے لوگ، جنہیں پڑوسی ملک بے بس کر کے امریکہ کے حوالے کررہے تھے ، گوانتا ناموبے کا بدترین قید خانہ اور ایسے لاتعداد عقوبت خانے۔ حمایت تو بہت دور کی بات، کسی شخص نے اگر کلمۂ خیر بھی ’’ملا عمرؒ‘‘ کی حکومت کے بارے میں ادا کرنے کی کوشش کی تو اسے دہشت گردوں کا ساتھی اور سہولت کار یا شدت پسند قرار دے کر اٹھا لیا گیا، خوفزدہ کیا گیا، تشدد روا رکھا گیا یا پھر اسے مسلسل نگرانی میں لے لیا گیا۔ یہ انیس سال ایک ایسی جنگ کے سال تھے جس کی انسانی تاریخ میںمثال نہیں ملتی۔ ایسا تو کبھی تاریخ میں ہوا ہی نہیں کہ پوری دنیا بحیثیت مجموعی صرف چند ہزار ’’افراد‘‘کے خلاف اپنے تمام وسائل کے ساتھ اکٹھی ہو گئی ہو۔ کون تھا جو اسوقت یہ سوچ بھی سکتا ہو کہ اکتوبر 2001ء کے بعد کبھی افغانستان میں طالبان کا وجود بھی نظر آئے گا۔ کئی سال تک یہ تاثر مضبوط کیا جاتا رہا کہ اب افغانستان کی شکل بدل کر رکھ دی جائے گی۔ دنیا کا کونسا ایسا ملک تھا جو ’’دہشت گردی‘‘ کے خلاف اس جنگ میں امریکہ اور اس کی حواری عالمی برادری کا حصہ نہ تھا۔ انڈونیشیا سے لے کر مراکش تک اور یمن سے لے کر کرغستان تک تمام اسلامی ممالک اورتمام مغربی ممالک میں مسلمانوں کے ساتھ جو بیتی ہے، اس کی تاریخ جب کبھی بھی مرتب ہو گی، تو مؤرخ یہ ضرور لکھے گا کہ عالمی سطح پر کسی نظریے اور نظریاتی اقلیت کو نشانہ بنا کر ایذا رسانی (Persecution)کی ایسی مثال تاریخ میں نہیں ملتی۔تاریخ میں اکثر ایسا ہوتا رہا ہے کہ ایک ملک میں اگر کسی اقلیت کے خلاف ظلم روا رکھا جاتا تو لوگ ہجرت کر کے کسی دوسرے ملک میں جا کر پناہ لے لیتے۔ لیکن گیارہ ستمبرکے بعد طالبان کے لیئے نرم گوشہ رکھنے والوں کے لیے دنیا میں کوئی جائے پناہ نہ تھی۔ ایسے دہشت کے ماحول میں افغانستان میں ایک ’’ٹوڈی‘‘ حکومت ’’قائم‘‘ کی گئی۔ ایک ایسی حکومت جس کے دست و بازو بھی عالمی طاقتوں کے تھے اور اس حکومتی ’’مجسمے‘‘ کی ٹانگیں بھی ادھار کی تھیں۔ حامد کرزئی سے لے کر اشرف غنی تک کوئی ایک بھی ایسا نہ مل سکا جو اس قابل ہو کہ ایک آواز بلند کرے اور افغان عوام اس پر لبیک کہہ اٹھیں۔ یہ تمام حکمران انیس سال تک ریت کی بوریوں کا کام دیتے رہے جس کے پیچھے سے عالمی اتحاد کی افواج ’’طالبان‘‘ پر حملہ آور ہوتیں۔ لیکن اس جنگ کا نتیجہ حیران کن نکلا، ایک دن ریت کی بوریوں کے پیچھے چھپا ہوا امریکہ شکست کے خوف سے باہر نکلا اور ایک ایسی میز پر آبیٹھا جس پر طالبان کے لیڈر ایک فاتح کی حیثیت سے اس سے اپنی شرائط منظور کروا رہے تھے۔ پسپائی اور ذلت کی بھی کوئی حد ہوتی ہے۔ کسی بڑی عالمی طاقت کی ایسی پسپائی اور ذلت تو جدید و قدیم تاریخ میں نہیں ملتی۔ بڑی عالمی طاقت کی شکست خود اس کے لیے اتنی اذیت ناک نہیں ہوتی، جتنی اس کے بل بوتے پر کھڑے ہو کر اپنا قد بلند کرنیوالے ’’بونوں‘‘ کے لیے ہوتی ہے۔ مراعات چھن جانے، غداری کی قیمتیں نہ ملنے اور مصنوعی اقتدار کے دن ختم ہونے کا خوف انہیں سونے نہیں دیتا۔ وہ اپنی پوری کوشش کرتے ہیں کہ یہ عالمی طاقت اپنا ظلم مزید جاری رکھے کیونکہ اسی طاقت کی چھاؤں میں تو ان کا اقتدار قائم تھا۔ امریکہ کے وزیر خارجہ نے خط کا آغاز اشرف غنی اور اس کی ٹیم کی اسی خواہش کی پذیرائی سے کیا ہے۔ امریکہ وزیر خارجہ لکھتا ہے ’’آپ سے گفتگو کی میں نے بہت قدر دانی کی ہے۔ اس گفتگو کے نتیجے میں ہمیں امریکہ کی افغانستان میں اپنی حکمتِ عملی پر نظر ثانی کرنے میں بہت مدد ملی ہے۔ آپ اور آپ کی ٹیم کے خیالات نے ہماری سوچ بچار اور غور و غوص کوایک نئی توانائی عطا کی ہے‘‘۔ خط کا یہ آغاز بتا تا ہے کہ امریکہ اس خطے سے نکلنے سے پہلے اپنے اتحادیوں کو ایسا مضبوط دیکھنا چاہتا ہے تاکہ ان کی وجہ سے اس کا پس پردہ اقتدار یہاں قائم رہے۔ دوسری جانب اس خطے میں موجود وہ پڑوسی ممالک بھی امریکہ کی ٹانگ پکڑ کر اسے روکنے کی کوشش میں ہیں۔یہ ممالک سمجھتے ہیں کہ اگر امریکہ یہاں سے چلا گیا تو افغانستان میں بننے والی آزاد و خود مختار طالبان حکومت خطے کے عوام کے دلوں میں اسقدر اہمیت اختیار کر جائیگی کہ اس کے اثر و نفوذ سے کوئی ملک نہیں بچ سکے گا۔ایک ایسی پر عزم حکومت جس نے پوری عالمی برادری کو شکست دی تھی۔ اسی لیے خط کے تیسرے پیرے میں جو پہلا قدم اٹھانے کا عندیہ دیا گیا ہے وہ یہ ہے کہ امریکہ اقوامِ متحدہ کے تحت ایک ایسی کانفرنس بلائے گا جس میں روس، چین، پاکستان، ایران، بھارت اور امریکہ شامل ہونگے۔ان تمام طاقتوں کو اندازہ نہیں ہے کہ یہ ممالک ہوں یا ساری عالمی برادری، افغانستان کی تقدیر وہی تحریر کرے گا جو زمین پر اپنا حکم نافذ کرنے کی اہلیت رکھتا ہوگا اور یہ اہلیت صرف طالبان کے پاس ہے۔ افغان طالبان جانتے ہیں کہ انہوں نے یہ فتح مذاکرات سے نہیں بلکہ ’’جہاد‘‘ سے حاصل کی ہے اور وہ یہ بھی جانتے ہیں کہ شہدا کی قربانیاں میزوں پر ہاری نہیں جاتیں۔ اس خط کے منظر عام پر آنے کے بعد طالبان کا صرف ایک ہی ردِ عمل تھا، ’’ہم نے کبھی جہاد کو اپنی حکمتِ عملی سے خارج ہی نہیں کیا‘‘۔