افغانستان سے امریکی فوجی انخلاء پربھارت کی چیخیں نکل رہی ہیں جس کی تازہ مثال مقبوضہ کشمیرکی پولیس کے سابق ڈائریکٹر جنرل کے راجندرا کمارکی ہے۔ راجندراکمارکا افغانستان سے امریکی فوج کے انخلا ء پر کہناہے کہ افغانستان سے امریکی فوجی انخلاء سے ریاست جموں وکشمیر کے حالات پر نمایاں اثرات مرتب ہونے کے علاوہ اس سے کشمیری مجاہدین کے حوصلے بلند ہوں گے۔ان کاکہناتھا کہ وادی میں سرگرم مسلح نوجوانوں کو مائل کرنے کے لیے سوشل میڈیا کا استعمال کیا جارہا ہے لیکن بھارتی فورسزکے پاس اس کا مقابلہ کرنے کے لیے کوئی میکانزم موجود نہیں ہے۔ کے راجندرا کاکہناتھاکہ ریاست میں اس وقت 25000 عسکریت پسندی چھوڑ چکے ہیں جن میں سے 10فیصدپھر سے عسکریت کو جوائن کرنے کا منصوبہ بنارہے ہیں۔کشمیر پولیس کے سابق ڈائریکٹر جنرل نے نئی دہلی پر الزام عائد کرتے ہوئے کہا کہ ان کے ہاں کشمیر سے متعلق کوئی ٹھوس پالیسی موجود نہیں ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیوںافغانستان سے امریکی فوجی انخلاء پربھارت کی چیخیں نکل رہی ہیں۔افغانستان میں طالبان کی حکومت کے سقوط کے بعد بھارت امریکہ کو یہ باورکراتارہاکہ9/11کے بعد جب وہ افغانستان میں آیاتواب ہمیشہ ہمیشہ کے لئے اس کی موجودگی اس خطے کے لئے بہت اہمیت کی حامل ہے اوراگروہ افغانستان چھوڑ کرچلاجاتاہے تواس پورے خطے میں طالبان چھاجائیں گے۔ اس طرح بھارت ایک طرف امریکی آشیر باد سے سامان حرب تیار کر تارہا ہے تودوسری طرف دنیا کی حمایت بھی حاصل کر نے کی کوشش کررہاتھاکہ اسے افغانستان اوراس خطے کاتھانیداربنایاجائے۔ اسی کی آڑ میں بھارت پہلے کرزئی اورپھر اشرف غنی حکومت کی مدد کر چکا ہے اور دو بلین ڈالرز سے زیادہ انہیںدے چکا ہے۔ بھارت کی طرف سے ان دونوں حکومتوں کے ساتھ فوجی تعاون واشتراک کوبڑھایاگیا۔ شواہدموجودہیں کہ اس اشتراک اورتعاون کے باعث افغانستان میں امریکی فوجی کیمپوں میں بھارتی فوجی اہلکاراوراسکی ملٹری انٹیلی جنس موجودہیں اوروہ امریکی فوجیوں کے ساتھ مل کر آپریشن میں حصہ لے رہے ہیں۔ بھارتی فوجیوں کی ہلمند کے امریکی کیمپوں میں موجودگی کی بازگشت ہندوستان کے کچھ اخبارات میں بھی سنائی دی ہے۔اگرچہ بھارت کی جانب سے اس خبر کو محض الزام قرار دیا جارہا ہے لیکن مبصرین کا کہنا ہے کہ بھارت اس حقیقت سے صرف اس لیے انکار کر رہا ہے کہ اس سے کہیں اسکی چانکیہ پالیسی طشت از بام نہ ہو اوراسے افغان طالبان کے براہ راست غیض و غضب کا سامنا نہ کرناپڑ جائے۔کہنے کامطلب یہ ہے کہ بھارت امریکی سیڑھی کا سہارا لے کر افغانستان کے فوجی معاملات میں خود کو اس انداز میں شامل کرنے کی منصوبہ بندی کر رہا ہے کہ جب امریکا اور نیٹو فورسز کو افغانستان چھوڑ کر جانا پڑ جائے تو بھارت افغانستان میں ان کی جگہ لے سکے۔تاہم اشرف غنی حکومت اور بھارت کے مابین بڑھتے ہوئے تعاون پر، پاکستان کئی بار تحفظات کا اظہار کر چکا ہے۔ پاکستان کہہ رہاہے کہ بھارت افغانستان کی سرزمین پاکستان کے خلاف استعمال کر رہا ہے۔ بالفاظ دیگربھارت علاقے کاتھانیداربننے کی کوششیں کررہا ہے ۔لیکن بھارت کایہ خواب چکنا چور ہو چکاہے ۔جب بھارت کی دال گل نہ سکی اورامریکہ افغانستان سے فوجی انخلاء پرمجبورہوگیاتوبھارت ڈرامہ رچاکرامریکہ کو کشمیر یاد دلا رہاہے کہ اگروہ یہاں سے گیاتوکشمیرمجاہدین کااڈہ بن جائے گاجوبھارت کے ٹکڑے ٹکڑے کرکے رکھ دیں گے ۔پرامریکہ بھارت کے مگرمچھ کے آنسوکوسمجھتاہے اوروہ اس کی مصنوعی چیخوں اوراسکے آنسوئوں کی طرف مطلق التفات نہیں کررہاکیوںکہ اسے اس امرکاخوب اندازہ ہوچکاہے کہ بھارت اپنے ناجائزاورحقیرمفادات کیلئے امریکیوں کو افغانستان میں مسلسل مرواناچاہتاہے لیکن امریکی فوجی بھارت کے لئے افغانستان کے کوہ وجبل اوردروں اورچٹانوں میں مرتے نہیں رہیں گے ۔ خیال رہے امریکی صدرٹرمپ نے حال ہی میں افغانستان سے اپنی فوج میں تخفیف کرنے کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ افغانستان سے 7000امریکی فوجیوں کو واپس بلایا جائے گا۔21دسمبر 2018ء جمعہ کوامریکی صدر ٹرمپ نے افغانستان میں اپنی پالیسی میں اچانک واضح تبدیلی لاتے ہوئے اپنے فوجیوں کی کل تعداد میںنصف تعدادکوواپس بلانے کا حکم دیا ہے۔ اس پیش رفت کے پیچھے کون سے عوامل کارفرما ہیں،کیا یہ امریکہ اور طالبان کے درمیان حال ہی میں ہونے والے مذاکرات کا نتیجہ ہے؟ابھی یہ واضح نہیں کہ اس فیصلے کا 17/18 دسمبر کو متحدہ عرب امارات میں ہونے والے مذاکرات سے کوئی تعلق ہے بھی یا نہیں۔ اگر یہ واقعی ان امن مذاکرات کا نتیجہ ہے تو پھر فی الحال کافی یکطرفہ نظر آ رہا ہے کیونکہ طالبان نے اب تک کسی طرح کی رعایت کا عندیہ نہیں دیا ہے۔فی الوقت افغانستان میں 14000 امریکی فوجی موجودہیں۔ اس کے علاوہ نیٹو اور اتحادی ممالک کے تقریبا 8000فوجی بھی افغانستان میں موجود ہیں۔2011-2012ء میں ایک وقت ایسا بھی تھا جب افغانستان میں 150000 کے قریب غیر ملکی قابض افواج طالبان کے خلاف برسر جنگ تھے۔ صدر اوبامہ کے دور میں افغانستان سے غیر ملکی افواج کا انخلا شروع ہوا اور 2014ء تک امریکہ اور نیٹو نے افغانستان میں عسکری آپریشنز ختم کر دیے تھے اور امریکی افواج کی تعداد 14000تک پہنچ گئی تھی ۔