دوسری عالمگیرجنگ کے بعد امریکہ ایک عالمی طاقت کے طور پر دنیا کے نقشے پر ابھرا جب برطانیہ جیسی ورلڈ پاور دوسری عالمی جنگ کے نتیجے میں کمزور ہو چکی تھی اور اس کے لئے عالمی سٹیج پر قائدانہ کردار ادا کرنا ممکن نہیں رہا تھا۔ اِس سے پہلے بیسویں صدی کی دوسری دہائی میں لینن کی قیادت میں کیمونسٹ اِنقلاب آ چکا تھا اور مغربی جمہوری نظام کے مقابل ایک متبادل سیاسی اور معاشی نظام پیش کر دیا گیا تھا۔ اگرچہ دوسری عالمی جنگ عظیم میں امریکہ، برطانیہ، فرانس اور سوویت یونین نے اکٹھے ہو کر ایشائی اور یورپی فاشسٹ طاقتوں کا مقابلہ کیا مگر سابق سوویت یونین کی کیمونسٹ آئیڈیالوجی اور اِس کا ممکنہ فروغ امریکہ کے لیے قابلِ قبول نہیں تھا ،اِ س لیے اَمریکہ نے صدر ہیری ایس ٹرومین کے صدارتی عہد میں مارچ 1947 میں ٹرومین ڈاکٹرائین(Truman Doctrine) متعارف کروایا جس کے تحت امریکہ نے دنیا بھر میں سوویت کیمونزم کے پھیلاؤ کو روکنے کی پالیسی مرتب کی جو بعد میں عالمی سیاست میں "سرد جنگ" (Cold War )کے نام سے مشہور ہوئی اور تقریبا پچاس سال تک جاری رہنے کے بعد بالآخر سابق سوویت یونین کے ٹوٹنے کے نتیجے میں اِختتام پزیر ہوئی۔ جس کے بعد عالمی سیاست کے افق پر امریکہ واحد عالمی سپر پاور کے طور پر سامنے آیا جسے سیاسی، معاشی اور ثقافتی میدان میں کسی بھی ملک کی جانب سے کوئی چیلنج درپیش نہیں تھا جبکہ مغربی لبرل جمہوری نظامِ حکومت دنیا کا واحد مقبول نظامِ حکومت سمجھا جانے لگا۔ جس کو عہد حاضر کے معروف سیاسی مفکر فرانسس فو کو یاما نے اپنی مشہور کتاب " اَینڈ آف ہِسٹری " میں پیش کیا ہے۔ پھر گیارہ ستمبر 2001 میں واشنگٹن میں پینٹاگون کی عمارت اور نیو یارک کے ٹوئن ٹاورز پر دہشت گردی کے حملے کے بعد امریکہ نے دہشت گردی کو اپنے لیے اور دنیا کے امن کے لیے ایک نئے خطرہ کے طور پر پیش کیا اور اکتوبر 2001 میں امریکہ نے دنیا پر اپنی طاقت کی دھاک بٹھانے کے لیے افغانستان پر چڑھائی کردی۔ اِس طرح دنیا پر رعب اور دبدبہ قائم کر نے کا امریکہ کا دیرینہ خواب پورا ہوا۔ یہ ایک علیحدہ بات ہے کہ بیس سال کے بعد وہی امریکہ پسپا ہو کر افغانستان سے نکلا ہے۔ اَگر امریکہ کی تاریخ پر نظر ڈالیں تو پتہ چلتا ہے کہ امریکی ریاست کے قیام سے ہی امریکی مفکرین نے امریکی قوم کو The Chosen One کے طور پر پیش کیا . اِس کا مقصد دنیا میں اپنی روایات (جنہیں امریکی برتر سمجھتے ہیں) اور مغربی جمہوری نظام کو ایک بہترین طرزِ حکومت کے طور پر پیش کرنا اور پھیلانا تھا۔ پہلی دفعہ 1900 کے امریکی صدارتی الیکشن کی مہم کے دوران امریکہ کی خارجہ پالیسی، الیکشن کے ایک ایشو کے طور پر بحث و مباحثوں کا حصہ بنی تھی، اِس سے پہلے پوری ایک صدی تک امریکی خارجہ پالیسی کبھی بھی امریکی صدارتی الیکشن کا موضوع نہیں رہی۔ بیسویں صدی کے پہلے پچاس برسوں میں امریکہ نے عالمی سیاست میں اَپنا مقام بنایا اور دوسری جنگِ عظیم کے خاتمے پر مغربی یورپ کے اِتحادیوں سمیت اقوامِ عالم کی قیادت کرنے کے لیے بھرپور تیاری کے ساتھ میدان میں اتر چکا تھا۔ سابق سوویت یونین کے ٹوٹنے اور اس کے نتیجے میں سرد جنگ کے اختتام کے بعد اکیسویں صدی کے پہلے عشرے نے افغانستان اور عراق کے خلاف امریکہ کے یکطرفہ اقدامات کی شکل میں بین الاقوامی سیاست میں امریکی تسلط ابھر کر سامنے آیا۔ افغانستان پر امریکی افواج کا حملہ اصل میں امریکہ کی اس سوچ کی عکاسی کرتا ہے جو اس نے دنیا پر اپنا تسلط قائم کرنے کے لیے پہلے دِن سے اپنائی ہوئی تھی۔ نائن الیون کے حملے کا کسی بھی طور پر جواز فراہم نہیں کیا جا سکتا مگر جس طریقے سے امریکہ نے طاقت کے نشے میں چور ہو کر معصوم اور بے گناہ افغان شہریوں سے بدلہ لیا اور بیس سال تک افغانستان پر جنگ مسلط رکھی وہ قابلِ مذمت ہے۔ نائن الیون کو ہونے والے حملوں کے ردِعمل میں امریکی فوجی جواب دراصل exceptionalism American کا باقاعدہ اظہار تھا جس کی مثال اس وقت کے امریکی صدر جارج بش کا خطاب کے الفاظ سے پیش کی جاتی ہے کہ " ایک وقت اگر ایسا آئے کہ ہمارے ( یعنی امریکہ) کے اِتحادی بھی امریکہ کا ساتھ چھوڑ جائیں تو بھی ہم (یعنی امریکہ ) پیچھے نہی ہٹیں گے اور اکیلے یہ جنگ لڑیں گے کیونکہ یہ امریکہ ہے" اور اِسی تناظر میں صدر بش کی حکومت کا اقوامِ عالم کے لیے یہ کھلا بیان کہ یا تو وہ ( دنیا کے باقی ممالک) امریکہ کے ساتھ ہیں یا اسکے مخالف ہیں۔ امریکہ کی خارجہ پالیسی کے بغور مطالعے سے یہ پتہ چلتا ہے کہ امریکی قیادت پہلے بھی اِس قِسم کے خیالات کا اِظہار کر چکی تھی۔ مثال کے طور پر صدر بل کلنٹن کی حکومت کی دوسری مدت کی خارجہ سیکریٹری میڈلین البرائیٹ نے بھی ایک موقع پر کہا تھا کہ "امریکہ کے مفادات کو جہاں خطرہ ہوگا وہاں امریکہ کسی طور پیچھے نہیں ہٹے گا کیونکہ ہم امریکہ ہیں"۔ اِس طرح نائن الیون کے واقعے سے بھی ایک دہائی پہلے سے ہی امریکہ اپنا ذہن بنا چکا تھا کہ اِسے دنیا کی واحد سپر پاور کے طور پراقوامِ عالم کو اپنی طاقت کا مظاہرہ دکھانا ہے تاکہ مستقبل میں کسی بھی قسم کا سامنے نہ آسکے۔ اب افغانستان میں امریکہ کی شکست اور بے آبرو اِنخلا کے بعد جہاں ایک طرف کسی بھی دوسرے ملک میں امریکہ کی تنہا مداخلت کے اِمکانات بہت حد کم ہو گئے ہیں وہاں ستمبر 2021 کے بعد عالمی سیاست بھی ایک نئے دور میں داخل ہو گئی ہے اور وہ ہے ’’چین کا دور‘‘۔ وہ کیسا وقت ہوگا جب چین دنیا پر حکمرانی کرے گا؟ اِس موضوع پر کسی اور کالم میں اِظہارِ خیال کریں گے ۔