امریکہ کی افغانستان میں ذلت آمیز شکست کے بعد اب دوسری شکست ان سیکولر، لبرل، جمہوریت پرست تجزیہ نگاروں کی ہورہی ہے جو گزشتہ ایک سال سے یہ واویلا مچا رہے تھے کہ اگر امریکہ افغانستان سے چلا گیا تو وہاں ایک ایسی خانہ جنگی کا سماں ہوگا کہ تاریخ میں کسی نے نہ دیکھا ہو۔ مہاجرین کے قافلے پاکستان کا رخ کریں گے اور افغانستان میں خانہ جنگی کے نتیجے میںپاکستان میں دہشت گردی کو فروغ ملے گا۔ گزشتہ ماہ،6 جولائی 2021ء کو ٹیکنالوجی پرستوں کا ’’دیوتا‘‘ رات کی تاریکی میں اپنے سب سے محفوظ ٹھکانے ’’بگرام ایئرپورٹ‘‘ سے بھاگ نکلا۔ پجاریوں کو علم تک نہ ہوا۔ سب سے بڑا ’’پروہت‘‘ جو افغان حکومت سنبھالے بیٹھے تھا، اسے بھی اپنے اس ’’دنیاوی معبود‘‘ کے بھاگنے کی خبر نہ ہوسکی۔ آج اس واقعہ کو اڑتیس دن ہوچکے ہیں، لیکن تجزیہ نگاروں کا ایک خواب بھی پورا نہیں ہوا۔ جب امریکہ بگرام سے بھاگا تو اس وقت پچاسی فیصد افغانستان پر طالبان کا کنٹرول تھا اور تمام ضلعی مراکز ان کے حصار میں تھے۔ امریکہ نے جانے سے پہلے ہی اپنے ان ’’وفاداروں‘‘کو اشارہ کیا کہ اب تم وہ غیرتِ افغانی دکھاؤ جس کا ہمیں گزشتہ دو سالوں سے طعنہ دے رہے تھے کہ اگر آپ چھوڑ بھی جاؤ تو ہم لڑتے رہیں گے۔ امریکی صدر جوبائیڈن نے بگرام ایئرپورٹ سے رخصتی کے اگلے دن کہا کہ ’’ساڑھے تین لاکھ افغان سکیورٹی افواج کو دنیا کی بہترین ٹریننگ میسر کی گئی، انہیں دُنیا کے جدید ترین اسلحے سے لیس کیا گیا اور ان کے پاس عالمی دفاعی نظام براستہ سیٹلائٹ رہنمائی میسر ہے۔ اب وہ جانیں اور طالبان جانیں‘‘۔ امریکیوں کو معلوم تھا کہ ان دودھ پینے والے مجنوؤں اور ’’بھاڑے کے ٹٹوؤں‘‘ کی مبلغ اوقات کیا ہے۔ اسی لیے 29فروری 2021ء کو امریکہ اور طالبان کے درمیان معاہدے کے بعد امریکہ نے انہیں میدان میں اُتار کر کھلی چھٹی دے دی۔ ایک سال پانچ ماہ امریکہ اور نیٹو کی تیار کردہ اس افغان فوج کو ملا، لیکن پسپائی، ہتھیار ڈالنے کی ذلّت و رسوائی اور سب سے بڑ ھ کر یہ کہ بددیانتی اور کرپشن کے الزامات کا ایسا عالم کہ امریکہ سے ملنے والا پچاس فیصد اسلحہ طالبان کو بیچ دیا گیا۔ اس ڈیڑھ سالہ لڑائی کی کوکھ سے یہ حقیقت برآمد ہوئی کہ آج پچانوے فیصد افغانستان پر طالبان کا قبضہ ہے۔ وہ تمام قانونی راستے جو ایران، تاجکستان، ازبکستان، ترکمانستان، چین اور ایران کو جاتے ہیں، جہاں سے سامانِ تجارت درآمد و برآمد ہوتا ہے اور انسانوں کی آمد ورفت بھی کنٹرول ہوتی ہے اس پر طالبان کا پرچم لہرا رہا ہے۔ صوبائی اور ضلعی ہیڈ کوارٹر محصور ہیں، جنہیں طالبان ایک ایک کر کے فتح کرتے جا رہے ہیں۔ اس ڈیڑھ سال کی فتح میں طالبان کے خلاف نہ عوام نے کسی قسم کے ہتھیار اٹھائے اور نہ ہی وہ احتجاج کی صورت سڑکوں پر نکلے۔ اس کے برعکس عالم یہ رہا کہ طالبان روزانہ افغان سکیورٹی فورسزکے ان ارکان کی لسٹ جاری کرتے رہے، جو افغان حکومت چھوڑ کر ان کے ساتھ ہتھیار ڈال کر شامل ہورہے تھے۔ اس مایوسی اور ناکامی کے عالم میں امریکی 6جولائی کو بگرام سے نکلے اور دوسرے بڑے حمایتی بھارت کا آخری ٹھکانہ مزارشریف 11اگست کو خالی ہوگیا۔ امریکہ اور بھارت کے بعد اب جو رسوائی ان تجزیہ نگاروں اور دانشوروں کا مقدر ہو رہی ہے وہ بھی دیدنی ہے۔ یہ گزشتہ دو ماہ سے ایڑیاں اچکا اچکا کرطورخم اور سپین بولدک کے بارڈر کی طرف دیکھ رہے ہیں کہ وہاں سے افغان مہاجرین کا ریلہ آئے گا، طالبان کے ظلم و ستم کی کہانیاں بیان کرے گا، پاکستان کی حکومت انہیں بارڈر پر روکے گی، ایک تماشہ لگے گا۔ رات کو ’’سُرخی پاؤڈر لگائے اینکر ز‘‘ طالبان کے تشدد کا تذکرہ کریں گے اور اسلام کی شدت پسندی پر گفتگو ہو گی۔ پاکستانی نہیں بلکہ عالمی تجزیہ نگاروں کی مایوسی کا بھی عالم ویسا ہی ہے کہ ڈھونڈنے کے بعد انہیں مہاجرین کے کیمپ کی ایک تصویر ملی اور وہ بھی قندھار کے ان شہریوں کی جو شہر میں لڑائی کی وجہ سے اس کے مضافات میں آ کر آباد ہوئے ہیں اور طالبان ان کی دیکھ بھال کر رہے ہیں۔ بالکل ویسے ہی جیسے سوات اور قبائلی علاقہ جات کے لوگ آئی ڈی پیز ہوئے تھے۔ افغان قوم کا طالبان پر اسقدر اعتماد ہے کہ ڈیڑھ سال کے دوران کوئی اپنا گھر بار چھوڑ کر نہیں بھاگا، البتہ سکیورٹی فورسز ضرور بھاگیںیا پچیس ہزار مترجم اور سہولت کار ضرور اپنی ویزہ درخواستیں لے کر امریکہ کی ایمبیسی کے دروازہ پر جاکھڑے ہوئے۔ یہ شکست صرف تجزیہ نگاروں اور دانشوروں کی نہیں بلکہ امریکی اور مغربی ممالک کی امداد کی راہ دیکھتے ہزاروں موم بتی مافیا والوں کی بھی ہے۔ وہ جو مدتوں سے اس وقت کی راہ دیکھ رہے تھے کہ امریکہ نکلے گا تو چاروں طرف ایسا غدر مچے گا کہ ہر کسی کو پریشانی میں بھاگنا پڑے گا۔ پاکستان مستقل طور بد امنی اور معاشی بد حالی کا شکار ہو گا، چین کی راہداری کھٹائی میں پڑے گی اور یوں ان این جی اوز کا کاروبار چمکے گا، جو مہاجرین کی آباد کاری، شدت پسندی کے خلاف جدوجہد اور دیگر مصنوعی نعروں کی بنیاد پر امریکہ اور مغرب سے پیسہ کمائیں گی۔ ا ن ’’ظالموں‘‘ کی توقعات کے برعکس سب کچھ اتنی خاموشی سے ہوتا چلا جا رہا ہے کہ کسی کو یقین نہیں آرہا۔ اگر افغانستان میں قتل و غارت اور خونریزی کی چھوٹی موٹی فوٹیج بھی انہیں میسر آئی ہوتی تو اسوقت دنیا بھر کا میڈیا چیخ رہا ہوتا۔ حیرت یہ ہے کہ سوشل میڈیا والوں کو بھی طالبان کو بدنام کرنے کیلئے بیس سال پرانی ویڈیو کا استعمال کرنا پڑ رہا ہے۔ حسرتِ ناکام سے لٹکے ہوئے ان چہروں کا عالم یہ ہے کہ پھر بھی روز چینل پر بیٹھ کر اور اخبارات میں اپنی تحریروں سے یہ آج بھی خواب دیکھتے اور دکھاتے ہیں کہ افغانستان میں خانہ جنگی ہونے والی ہے، مہاجرین آنے والے ہیں، پاکستان میں دھماکے ہوں گے، شدت پسندی بڑھے گی۔ اس مختصر سے این جی او زدہ سیکولر، لبرل، دانشورانہ گروہ کے برعکس پاکستان کے عوام کا ایک بھرپور طبقہ ایسا ہے جو اپنے دلوں میں یہ خواہش لیے بیتاب رہتا ہے کہ اس ملک پر کب اور کیسے اسلام کا عادلانہ نظام نافذ ہو گا۔ دلوں میں اس خواہش کی آبیاری قیامِ پاکستان کی تحریک کے دور سے چلی آرہی ہے۔ یہ وہ ’’مذہبی فیکٹر ‘‘ ہے جو گزشتہ ستر سالوں میں بار بار مایوس ہوا ہے۔ کبھی مذہبی سیاسی جماعتوں کے ہاتھوں اور کبھی مین سٹریم جمہوری پارٹیوں کے اسلامی تشخص کے فریب سے۔ اس طبقے کے اندر دینی غیرت و حمیت کسی پارٹی ڈسپلن کی محتاج نہیں ہے۔ یہ کسی قسم کی مصلحت کا قائل بھی نہیں ہوتا۔۔ اس طبقے کو علامہ خادم حسین رضویؒ نے ایک نعرے کے ساتھ منظم کیا تھا کہ ’’رسول اللہ ﷺ کے دین کو تخت پر لانا ہے‘‘۔ ان کی نوے فیصد تقاریر اسی نعرے کے گرد گھومتی تھیں۔شاید اسی نعرے کا خوف تھا کہ اس سیاسی پارٹی پر اتنی عجلت میں پابندی لگائی گئی۔ آج اگر کوئی بغور دیکھے تو اس پارٹی میں دیگر مسالک کے بے شمار لوگ بھی شامل ہوچکے ہیں۔ تحریک لبیک کے علاوہ ایک طبقہ وہ بھی ہے جو گزشتہ بیس سالوں سے کبھی طالبان کی حمایت، کبھی مجاہدین کے ساتھ، کبھی القاعدہ سے تعلق کے نام پر مار کھائے جا رہا ہے۔ ان میں بہت سے گوانتا ناموبے سے بگرام تک جیلیں بھی بھگت چکے ہیں۔ گیارہ ستمبر کے بعد ان میں ایک نئی روح داخل ہوئی تھی، لیکن پاکستان میں ان کے گروہوں میں بھارتی دخل اندازی اور دیگر عوامل نے اسے توڑ کر رکھ دیا۔ یہ سب بکھر گئے۔ آج یہ دونوں گروہ منتشر ہیں۔ پنجاب اور سندھ کے تقریباً ہر شہر میں تحریک لبیک اور خیبر پختونخواہ اور بلوچستان میں اسلامی انقلاب کے داعین۔ یہ دونوں اب تک جمہوریت میں اپنا راستہ تلاش کیا کرتے تھے۔ دُنیا بھی ان سے سوال کرتی کہ جمہوریت کے علاوہ اور کونسا راستہ ہے کہ تم برسراقتدار آئو گے۔ لیکن طالبان اگر افغانستان میں برسراقتدار آ گئے، انہوں نے وہاں شریعت نافذ کر دی تو پھر اس سوال کا عملی جواب موجود ہو گا کہ اسلام کے نفاذ کیلئے جمہوریت کے علاوہ بھی راستے موجود ہیں۔ ایسے لمحے میں یہاں ایک ایسی تحریک جنم لے سکتی ہے جو خالصتاً پاکستانی ہو گی اور جس کی قوت کے مقابلے میں کوئی نہ ٹھہر سکے۔