یقین کیجئے ‘رومن امپائر کے شاہ معظم جب بھی اپنی قلمروکے صوبائی دارالحکومت کے دورے پر تشریف لاتے ہیں تو ان کے پروٹوکول کا جاہ و چشم‘ ان کے ’’روٹ‘‘ لگنے کے تام جھام اور شاہی سواری گزرنے کے لرزہ براندام کرنے والے مناظر دیکھ کر دل باغ باغ ہو جاتا ہے کہ اس بھری دنیا میں اور کون ہے جو اس باب میں ہمارے وطن کی ہمسری کر سکے۔ کہاں وہ ’’الیکٹڈ‘‘ دور کے بے حیثیت وزیر اعظم چپ چاپ دورہ کرتے تھے کہ اس کا علم اگلے روز اخبار پڑھ کر ہی ہوتا تھا۔ کہاں یہ دور کہ میلوں لمبی ٹریفک کی قطاریں شہر کے ایک سے دوسرے سرے تک‘‘ باادب ‘ باملاحظہ نگاہ روبرو ‘ حد ادب‘ کا رینگنا نقارہ بن جاتی ہیں۔ ایسے پروٹوکول سے ایک ضمنی فائدہ یہ ہوتا ہے کہ مخالفوں کو پتہ چل جاتا ہے کہ چار لوگ شاہ کی عزت کرنے والے بھی ہیں(پہلے چار سو ہوا کرتے تھے) ٭٭٭٭٭ سرکار کل لاہور تشریف لائے اور آتے ہی دو چیزوں کا نوٹس لیا۔ پہلا نوٹس گیس کے ہوش اڑا دینے والے بلوں کے بارے میں تھا۔ اس بار یہ بل کئی کئی گنا زیادہ آئے ہیں اور ایک رات پہلے ہی ایل این جی‘ سی این جی کے سکینڈلز والے غلام سرور خاں ان کا دفاع کرتے ہوئے انہیں جائز قرار دے چکے تھے۔ انہوں نے فرمایا‘ لوگ عیاشی کریں گے تو بل بھی بھریں گے۔ اب سرکار نے نوٹس لیا ہے تو یہ کسی نے نہیں بتایا کہ چند روز پہلے ہی سارے اخبارات میں یہ خبر چھپی تھی کہ حکومت نے ڈیڑھ سو ارب خسارے کا بوجھ سارے کا سارا گیس کے صارفین پر ڈالنے کا فیصلہ کیا ہے۔ یہ جو کئی گنا اضافے کے بل آئے ہیں تو یہ اسی فیصلے پر عملدرآمد کی پہلی قسط ہے۔ کیا سرکار نے حکومت کے اس فیصلے کا بھی نوٹس لیا؟ کیا حکومت اور ہے‘ سرکار اور ؟ یا یہ بھی فکاہیہ ڈرامے کا کوئی ایکٹ ہے۔ خود ہی حکم دیا‘ پھر خود ہی نوٹس لے لیا۔ واللہ جواب تمہارا نہیں۔ ٭٭٭٭٭ دوسرا نوٹس سرکار نے حکمران جماعت کی میڈیا ٹیموں کو ہدایت کی ہے کہ وہ میڈیا سے رابطے مضبوط کریں۔ کمزورتر میڈیا سے مضبوط تر رابطے‘ کیا راست متناسب فارمولا ہے۔ لوگ کہتے ہیں‘ سرکار نے کوئی تیاری نہیں کی تھی۔ بس کرسی سنبھالنے کی جلدی تھی۔ کم از کم میڈیا کے باب میں یہ الزام غلط ہے۔ یہاں تو خوب تیاری تھی اور کَس کے تیاری تھی کہ آتے ہی میڈیا کا سر کیسے کچلنا ہے۔ پھر دنیا نے دیکھا‘ میڈیا کا سر کیسے کچلا جاتا ہے۔ ہر چینل اور اخبار کو جان کے لالے پڑ گئے۔ میڈیا سے مضبوط رابطوں کی تعارفی تشریح سرکار نے ایک دو برس پہلے ہی کر دی تھی۔ ارباب انصاف کا ایک جلسہ تھا۔ شرفائے انصاف نے ایک خاتون رپورٹر کی ٹھکائی کر دی‘ کچھ مغلظات بھی ارشاد فرمائیں۔ خاتون روپڑی اور کسی طرح’’سرکار‘‘ کے سامنے جا پہنچی‘ فریاد کی‘ دکھڑا سنایا اور انصاف کی طالب ہوئی۔ سرکار نے سنا اور فرمایا جائو اپنی رپورٹنگ ٹھیک کرو‘‘ رابطے مضبوط کرنے کی ہدایت اسی تشریح کے پھیلائو کا سگنل تو نہیں؟ ٭٭٭٭٭ امریکی صدر ٹرمپ نے کہا ہے کہ امریکی فوج افغانستان سے نکل جائے گی لیکن اپنی انٹیلی جنس سروس کے یونٹ وہیں رکھے گی تاکہ دشمن کی سازشیں ناکام بنا سکے۔ دشمن یعنی روس۔ اور مزید مفہوم یہ کہ ڈائن چلی جائے گی‘ بتیسی چھوڑ جائے گی۔ بہت سے لوگوں کو اعتبار ہی نہیں آ رہا ہے کہ امریکہ افغانستان سے چلا جائے گا۔ ویسے بھی ’’ٹائم فریم‘‘ مذاکراتی عمل‘ ضمانتوں وغیرہ کا جھمیلا ایسا پیچیدہ ہے کہ جاتے جاتے برس دو برس بھی لگ سکتے ہیں اور اس دوران نیت بھی تو بدل سکتی ہے ۔امریکہ برہمہ چاری بن گیا ہے تو کیا اعتبار‘ کب یہ برہمہ چاری پھر سے بلات کاری بن جائے۔ بہت سے لوگ یہ سوچ سوچ کر پریشان ہیں کہ امریکہ نکل گیا تو پھر افغانستان میں کیا ہو گا؟ امن یا بدامنی؟ بھئی سوچنے کی کیا بات ہے ایک بات تو ہو گی۔ کسی نے اپنے ساتھ بیٹھے ہم سفر سے پوچھا ‘ کیا خیال ہے‘ آج کا میچ کون جیتے گا۔ پاکستان یا آسٹریلیا۔ ہم سفر نے باوثوق انداز میں بتا دیا کہ پاکستان جیتے گا۔ وہ نہ جیت سکا تو پھر آسٹریلیا جیتے گا۔ لکھ لو… بس ایسا ہی افغانستان کے بارے میں ہے اور حق سچ کی بات یہ ہے کہ دونوں صورتوں کے حق میں حالات ہیں۔ اس وقت جتنے بھی سٹیک ہولڈر ہیں۔ روس‘ بھارت‘ چین ‘ روس‘ ترکی‘ ایران‘ سعودی عرب ان میں سے سوائے بھارت کے کوئی بھی نہیں چاہتا کہ طالبان مختار کل ہو جائیں۔ بھارت کا معاملہ حیرت ناک بلکہ ماورائے حیرت ہے۔ اس نے حالیہ برسوں میں طالبان میں اپنی لابی بنا لی ہے اور مضبوط بھی کی ہے۔ تو پھر ہو گا یوں کہ اگر تو وسیع البنیاد حکومت بن گئی تو ٹھیک ورنہ سبھی اپنے گھوڑوں کو شہ دیں گے‘ لڑائی بڑھے گی۔ طالبان کو افغان عوام کے 20سے 25فیصد حصے کی حمایت حاصل ہے۔ یعنی وہ اکریت نہیں لیکن سب سے بڑا گروپ ضرور ہیں۔ حکمت یار کوئی 5فیصد حصے کی نمائندگی کرتے ہیں اور اتنی ہی حمایت کے کچھ دوسرے مذہبی دھڑے بھی۔ یہ سب مل جائیں(ایسا ممکن تو ہے) تو یہ گروپ 35‘40فیصد حمایت کے ساتھ سب سے بڑا گروپ ہو گا۔ ازبک تاجک الگ ہی رہیں گے۔ ان کے پیچھے ترکی ہے اور روس بھی جو بھی ہو نئے افغانستان میں سبھی پڑوسی ملکوں کے ’’سٹیک‘‘ نظر آ رہے ہیں۔ لیکن سب سے زیادہ بھگتان بھگتنے والے ملک کے لئے گنجائش کم ہوتی جا رہی ہے۔ وجہ کچھ معلوم ہے‘ کچھ شاید نامعلوم بھی۔ خلاصہ یہ ہے کہ امریکہ اور طالبان کے درمیان کوئی معاملہ طے ضرور ہوا ہے۔ ٹرمپ نے انٹیلی جنس والی جو بات کی۔ وہ اسی کا اشارہ ہے اور یہی نہیں‘ افغانستان میں امریکہ کے کچھ اڈے بھی قائم رہیں گے۔17سالہ جنگ سے کچھ امریکہ نے سیکھا ہے تو کچھ طالبان نے بھی سیکھا ہے۔