امریکی افغانستان چھوڑ کر چلے گئے۔ حقیقتاً یہ ایک تاریخی لمحہ ہے۔ اور یہ بھی درست ہے کہ ویتنام میں دس سال اور افغانستان میں 20سال امریکہ جن قوتوں سے ان ممالک کو بچانے کے لئے میدان میں اتر اتھا۔ آخر میں انہی قوتوں کے آگے ہارمان کر میدان جنگ انہی قوتوں کے حوالے کر گیا۔ جنگ و یت نام میں امریکہ کمیو نزم کے پھیلاؤ کو روکنے کے مشن اور اسے بریک لگانے کے لئے میدان میں آیا تھا۔ اور افغانستان میں دہشت گردی کے خلاف اس کے جذبے تھک ہار کر اسے پسپائی پر مجبور کر گئے۔ ایسا لگتا ہے کہ ویتنام کی شکست اور عراقی ریاست کی توڑ پھوڑ امریکہ کو کچھ نہیں سکھا سکی تھی۔ 1995ء میں اسامہ بن لادن سوڈان میں ایک کمپنی میں کام کرتا تھا۔ یہ کاروباری شخص تھا دلچسپ بات یہ ہے کہ افغانستان پر روسی تسلط کے دور میں یہی اسامہ بن لادن امریکیوں کا ہیرو تھا۔ اس نے 1979ء کے بعد افغانستان میں روس کے خلاف مزاحمت کرنے والوں کو نہ صرف مجتمع کرنے میں ایک کردار ادا کیا تھا۔ بلکہ القاعدہ کے ذریعے وہ یہاں پرروسیوں کی آنکھوں میں بھی کھٹکتا تھا۔ 1996 ء میں سوڈان نے سعودی عرب اور امریکہ کو یہ پیشکش کی تھی کہ اگر وہ چاہیں تو سوڈان اسامہ بن لادن کو ان کے حوالے کر سکتا ہے۔ لیکن اس وقت ان دونوں ممالک نے یہ پیشکش قبول نہیں کی تھی۔ یہ بات قابل غور ہے کہ اپنی دلیری، حکمت عملی اور آخر تک لڑنے کے جذبے نے اسامہ کو افغان طالبان اور دوسرے جنگجو گروپوں میں ایک ہیرو کے طور پر متعارف کرایا۔ مجھے دوبارافغانستان دیکھنے کا اتفاق ہوا۔ میں نے افغانستان اس وقت بھی دیکھا جب روسیوں نے اس پر قبضہ کیا تھا۔ اور اس وقت بھی جب 90کی دہائی میں افغانستان پر طالبان کی حکمرانی تھی، ہم چند صحافی ایک تنظیم کے زیر اہتمام اس دورے میں بیشتر لوگوں سے ملے۔ جب ہم ایک تنگ سی کوٹھری نما گھر میں داخل ہوئے تو قالین کے بوسیدہ سے ٹکڑے پر ایک سرخ و سپید نوجوان بیٹھا تھا۔ اس کے سامنے پڑے پیالے سے بھاپ اٹھ رہی تھی۔ وہاں موجود ایک شخص نے ہماری خاطر مدارت کے لئے سوکھی نان کے چند ٹکڑے رکھ دئیے اور بھاپ میں لپٹنے قہوہ کے چند پیالے یہ منظر ہم سب کے لئے حیران کن تھا۔ وہ خود بھی سوکھی روٹی قہوہ میں ڈبو کر کھا رہے تھے یہ وہ لوگ تھے۔ افغانستان کی سر زمین پر جن کا حکم چلتا تھا میں نے سوچا واقعی یہ اس اعزاز کے اہل ہیں کیونکہ حضرت عمر بن خطابؓ اور حضرت عمر بن عبدالعزیزؓ کے بعد شاید یہی وہ لوگ ہیں جن کے دروازے پر کوئی دربان نہیں۔ ہم اس چھوٹے سے کوٹھری نماایوان اقتدار سے باہر نکلے تو وہاں ایک عجیب کابل دیکھا، ایک ایسا پر امن مطمئن اور شاداں کابل جسے دیکھ کر کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ یہی وہی شہر ہے۔ جس کے ٹیلی ویژن سینٹر سے 21برس تک گندی فلمیں نشر ہوتی رہیں۔جہاں 1995ء کے آخر تک روٹی ملتی نہ ملتی واڈکا کی بوتلیں اور بئیر کے ٹن ضرور ملتے تھے جہاں جہاد کے بعد آپس میں برسرپیکار ’’مجاہدین‘‘ دوسرے کمانڈر پر شپ خون ماکر اس کے علاقے سے لڑکیاں اٹھا لے جاتے تھے، جہاں سارے محل حویلیاں کوٹھیاں کھیت اور باغ مال غنیمت بانٹے جا چکے تھے۔ میں نے اپنے میزبان سے پوچھا آپ نے چوتھائی صدی سے بگڑے اس معاشرے پر کیا پڑھ کر پھونکا کہ پچھلے دو برس سے یہاں چوری نہیں ہوئی۔ چیزوں کے نرخ اوپر نیچے نہیں ہوئے۔ کسی نہ کسی کا گلانہیں کاٹا ،کسی نے خواتین کی طرف آنکھ بھر کرنہیں دیکھا۔ کسی نے جھوٹ نہیں بولا۔ کسی چیز پر نا جائز قبضہ نہیں ہوا۔ میزبان سے سنجیدگی سے جواب دیا۔ کچھ بھی تو نہیں ہم نے صرف انصاف قائم کیا۔ معاشرہ خود ہی سدھر گیا۔ میں نے پوچھا ’’کیسے‘‘؟ بہت ہی سیدھے طریقے سے ہم نے اعلان کیا۔ جس نے آج کے بعد جرم کیا، وہ خود کو قرآن و سنت کے مطابق سزا کے لئے تیار پالے۔ اور بس میں نے تجسس سے پوچھا آپ کا طریقہ کیا تھا۔ انہوں نے بڑے اطمینان سے جواب دیا ،ہم نے اعلان کیا کہ جن کی جائیدادوں اور زمینوں پر دوسرے لوگ قابض ہیں، وہ ثبوت لے کر آجائیں ہم دو گھنٹے میں قبضہ دلادیں گے۔ لوگ آگئے ہم نے واقعی دو گھنٹے میں قبضہ دلا دیا، ہم نے قاتل پکڑا اور دو گھنٹے میں فیصلہ کر کے فارغ کر دیا ،ہم نے گراں فروش کو پکڑا اور پکڑ کر دو گھنٹے میں الٹا لٹکا دیا، کو ئی چور ہمارے ہتھے چڑھا، ہم نے دو گھنٹے میں ہاتھ کاٹ کہ دوسرے ہاتھ میں پکڑا دیا اور بس پھر امن ہی امن سکون ہی سکون۔ میں نے پوچھا چنگیزی اقدامات کا کیا نتیجہ نکلا ،کہنے لگے ہم نے کاغذ کے ٹکڑوں پر کچی پینسل سے ہندسے لکھ کر کہا۔ یہ نوٹ ہیں پورے دو سال تک لوگوں نے انہیں نوٹ سمجھا افغانستان میں انہی سے ساری خریدو فروخت ہوئی۔ کابل میں ٹیکسی کا نظام ایک سولہ سال کے بچے کے حوالے کر دیا۔ آج تک کوئی شکایت نہیں آئی، نرخ پر اس قدر قابو ہے کہ کابل یونیورسٹی کا پروفیسر ہزار روپے تنخواہ میں گزارا کرتا ہے۔ گورنر صبح سے شام تک سڑکوں پر گشت کرتے ہیں، کوئی بھی شخص انہیں روک کر شکایت کر سکتا ہے جس کا ازالہ فوراًہوتا ہے میں نے پوچھا آپ لوگ دو گھنٹے میں انصاف کیسے کر لیتے ہیں، انہوں نے ہنس کر کہا’’منصف کی نیت صاف ہو۔ اور دل میں ایمان کی رتی اور خوف خداء تو انصاف کے لئے دو گھنٹے دو صدیاں ہوتی ہیں۔ میں نے افغانستان کا وہ روپ بھی دیکھا جب روسی پر افغانستان کے قبضے کے بعد ہم وہاں ایک وفد کی صورت میں گئے تھے۔ اس دورے کا بندوبست جماعت اسلامی نے کیا تھا۔ اس وقت محترم قاضی حسین احمد اس کے امیر تھے۔ اس دورے کی یادیں تو بہت ہیں۔ لیکن یہ دیکھ کر بڑی حیرانگی اور افغانیوں کی جرات اور غیور ہونے کا ثبوت تھا۔ کہ ہمیں ایک پہاڑی سلسلے میں ایک غارنما رہائش میں لے جایا گیا جہاں ڈرائی فروٹ اور قہوہ سے تواضع کی گئی اس دوران ایک طیارے کی گھڑ گھڑاہٹ سنائی دی، معلوم ہوا یہ روس کا جنگی جہاز ہے۔ (جاری ہے)