امریکہ اور نیٹو افواج کے انخلاء سے پیدا ہونے والی افغانستان میں افراتفری ملک میں ایسا انسانی بحران جنم دے رہی ہے جس کے اثرات افغانستان پر ہی نہیں بلکہ پورے خطے پر پڑیں گے۔ امریکی اور نیٹو افواج کے انخلا ء کے عمل کے ساتھ ہی خانہ جنگی کے حالات پیدا ہونے شروع ہوگئے ہیں جو معصوم لوگوں کی ہلاکتوں اور جنگ سے بھاگ نکلنے والے خاندانوں کے آلام و مصائب پر منتج ہورہے ہیں ۔ جمعہ کو وقوع پذیر ہونے والے حالات نے اقوام متحدہ تک کو تشویش میں مبتلا کردیا ہے اور اسے سلامتی کونسل کا ہنگامی اجلا س طلب کرنا پڑا۔ افغان بحران سے ابھرنے والے انسانی المیے کے پس منظر میں طالبان کی جنوبی اور مشرقی افغانستان میں پیش قدمی ، افغان فوج کی طرف سے کی گئی کاروائیاں اور امریکی طیاروں کی بمباری شامل ہے۔ اس پر مستزاد اسلام آباد اور کابل کے درمیان بدگمانی اور تعلقات میں کشیدگی حالات کو مذید پیچیدہ بنا رہی ہے۔دونوں فریق ایک دوسرے پر شدت پسندوںکو پناہ دینے کا الزام لگا رہے ہیں۔ طالبان نے ایک بڑی اور علامتی فتح میں صوبہ نمروز کے دارلحکومت زرنج پر جمعہ کے دن قبضہ کرلیا ہے ۔ یہ شہر ان بہت سارے دارلحکومتوں میں سے ایک ہے جس کا بڑے عرصے سے طالبان نے محاصرہ کیا ہوا تھا اور یہ تاثر عام تھا کہ طالبان متوقع افغان مذاکرات میں اپنی پوزیشن بہتر کرنے کے لیے ایسا کر رہے ہیں۔ نمروز ایک صحرائی علاقہ ہے اور زرنج میں تقریبا پچاس ہزار افراد آباد ہیں۔ صوبے کے گورنر ، عبدالکریم براہوی چاہ بہار ضلع میں بلوچ آبادی کی پناہ میں چلے گئے ہیں۔ نیمروز پر حملہ طالبان کئی مہینوںکی پیش قدمی کا نتیجہ ہے جو امریکی اور نیٹو افواج کے انخلا کے ساتھ شروع ہوئی تھیں۔ اس وقت جب کہ امریکی اور نیٹو افواج اس مہینے کے اختتام تک ملک سے اپنا انخلا تیزی سے مکمل کرنے جا رہی ہیں ،افغانستان کے 421 اضلاع اور ضلعی مراکز میں سے نصف سے زیادہ طالبان کے ہاتھ لگ چکے ہیں۔ اگرچہ بہت سے اضلاع دور دراز علاقوں میں ہیں لیکن ان میں سے کچھ نہایت ہی اسٹریٹجک اہمیت کے حامل ہیں کیونکہ ان کی وجہ سے ایران ، تاجکستان اور پاکستان کے ساتھ منافع بخش سرحدی گزرگاہیں طالبان کے ہاتھ لگ گئی ہیں۔ طالبان نے پچھلے مہینے پاکستان کی سرحد پر واقع سپن بولدک قصبے پر قبضہ کرلیا تھا جو افغانستان کی مصروف ترین سرحدی گزرگاہوں میں سے ایک ہے۔ ہزاروں افغانی اور پاکستانی روزانہ یہ سرحد عبور کرتے ہیں اور یہاں سے کراچی کی بندر گاہ سے خوراک اور دیگر ضروریات زندگی سے لد ا سامان گزرتا ہے۔ پاکستان کو پچھلے مہینے اپنی مغربی سرحدوں پر لڑائی کی شد ت کی وجہ سے اس گزرگاہ کے علاوہ کچھ دوسری گزرگاہوں کو بھی عارضی طور پر بند کرنا پڑا تھا۔ تاہم طالبان نے جمعہ کو سرحدی گزرگاہ کو بند کر دیا جس کی وجہ سے سے خوراک سے لدے سیکڑوں ٹرک پھنس گئے ہیں ۔ پاکستان کے ساتھ ایک اہم سرحدی گزرگاہ پر قبضے کے ردعمل میں افغان اور امریکی طیاروں نے جمع کوہلمند میں طالبان کے ٹھکانوں پر حملہ کیا۔ افغانستان کے ایلیٹ کمانڈوز لشکر گاہ میں تعینات ہیں ، جنہیں افغان فوج اور امریکی فضائیہ کی مدد حاصل ہے۔ افغان حکام کے مطابق ہلمند کے 10 میں سے 9 اضلاع پر طالبان کا کنٹرول ہے۔شدید لڑائی کی وجہ سے ہزاروں افغان بے گھر ہوکر صحرا نما ماحول میں کسمپرسی کی حالت میں زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ جن شہروں کے اندر جہاں لڑائی جاری ہے ان میںہزاروں افراد پھنسے ہوئے ہیں اور اپنے گھروں سے محفوظ مقامات پر منتقل ہونے تک سے قاصر ہیں۔قندھار میںہزاروںافغانی عارضی کیمپوں میں پناہ لے رہے ہیں اور انہیں بالکل پتہ نہیں کہ وہ اپنے بچوں کے لیے کھانا کہاں سے لائیں گے۔ لشکر گاہ میں ، بھوک کے خلاف برسرپیکار عالمی تنظیم کا دفتر فضائی حملے میں تباہ ہوگیا۔ خیریت یہ رہی کہ تنظیم ایک ہفتہ پہلے ہی اپنا دفتر بند کر چکی تھی۔ طالبان نے افغانستان کے سرکاری میڈیا سینٹر کے ڈائریکٹر جو اس سے قبل افغان صدر اشرف غنی کے ترجمان رہ چکے تھے، کو جمعہ کے روز کابل میں گھات لگاکر ایک حملے میں قتل کردیا۔ یہ واردات قائم مقام وزیر دفاع پر ناکام حملے، جس میں آٹھ افراد ہلاک اور بیس زخمی ہوگئے تھے ،کے چند روز بعد کی گئی۔ اسلام آباد کے کابل کے ساتھ تعلقات پریشان کن حد تک خراب ہیں۔ دونوں فریق ایک دوسرے پر عسکریت پسندوں کو پناہ دینے کا الزام لگاتے ہیں۔ کابل افغان طالبان رہنما وں کی پاکستان میں رہائش اور اس کے ہسپتالوں میں جنگجوؤں کے علاج پرمضطرب ہے تو اسلام آباد تحریک طالبان پاکستان کی افغانستان میں محفوظ پناہ گاہوں پر یشان۔ افغانستان کے لیے اقوام متحدہ کی ایلچی ڈیبورا لیونز نے کہا ہے کہ افغانستان کی تیزی سے بگڑتی ہوئی صورتحال میں انسانی ہلاکتوں کی تعداد انتہائی پریشان کن ہے۔ جمعہ کو کابل سے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے ہنگامی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ افغان جنگ ایک نئے ، مہلک اور زیادہ تباہ کن مرحلے میں داخل ہو چکی ہے۔ قندھار ، ہرات اور لشکر گاہ کے صوبائی دارالحکومت خاصے دباؤ میں ہیں اور یہ طالبان کی جانب سے شہری مراکز پر اسلحہ کے زور پر قبضہ کرنے کی واضح کوشش ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ اس حکمت عملی کا انسانی نقصان انتہائی پریشان کن ہے اور سیاسی پیغام اس سے بھی زیادہ پریشان کن۔ لیونز کے مطابق لشکر گاہ میں صرف 10 دنوں میں 104 شہری ہلاک ہوئے ہیں۔انہوں نیاپیل کی ہے کہ سلامتی کونسل اس لڑائی کومذاکرات کے ذریعے روکا جائے اس سے پہلے کہ جیتنے کے لیے کچھ بھی باقی نہ بچے۔