پاکستان نے پاک افغان ٹرانزٹ ٹریڈ ایگریمنٹ پر اپنا وعدہ پورا کرتے ہوئے افغان بھارت تجارت کے لئے واہگہ بارڈر کھولنے کا فیصلہ کیا ہے۔اس فیصلے کو عمومی طور پر دنیا میں سراہا جا رہا ہے اور پاکستان کی امن دوست پالیسی سے جوڑ کر دیکھا جا رہا ہے تا ہم افغانستان کے ماضی کے پاکستان مخالف اقدامات اور بھارت کو اس معاہدے میں شامل کرنے کی ضد نے کچھ خدشات پیدا کیے ہیں۔ پھر کشمیر کے معاملے پر حساسیت بجا طور پر موجود ہے۔ دفتر خارجہ کا کہنا ہے کہ پاکستان افغانستان کے ساتھ تعلقات بہتر بنانے کے اصول پر کاربند ہے۔ پاکستان اور افغانستان کے مابین 2010ء کے معاہدے کے تحت افغانستان کو اپنی اشیا واہگہ کے ذریعے بھارت بھیجنے کی اجازت دی گئی تاہم یہ معاہدہ بھارت کو یہ اجازت نہیں دیتا کہ وہ اپنی مصنوعات واہگہ کے ذریعے افغانستان کو بھیج سکے۔ گزشتہ ہفتے پاکستان دو طرفہ تجارت کے لئے انگور اڈہ،طورخم اور کھرلاچی بارڈر کھول چکا ہے۔ افغانستان کے لئے پاکستان کے نمائندہ خصوصی محمد صادق کا کہنا ہے کہ پاکستان سرحد کے دونوں جانب معاشی سرگرمیوں کے فروغ کا خواہاں ہے۔ جدید دنیا میں وہ ملک سب سے قریبی دوست سمجھا جاتا ہے جس کے ساتھ سب سے مضبوط تجارتی اور معاشی تعلقات استوار ہوں۔ اچھے تجارتی تعلقات اس بات کا ثبوت ہوتے ہیں کہ دونوں ملک ایک دوسرے کا ہاتھ تھام کر معاشی ترقی کی طرف بڑھنا چاہتے ہیں۔ تجارتی معاہدے یا تجارتی سہولت فراہم کرنے کے معاہدے ایک دوسرے کی خیر خواہی کی علامت ہوتے ہیں۔ پاک افغان ٹرانزٹ ٹریڈ معاہدے کی ایک تاریخ ہے۔2010ء میں جب یہ معاہدہ عمل میں آیا تو اس وقت امریکہ افغانستان میں بیٹھا تھا۔ افغانستان میں حامد کرزئی کی حکومت تھی۔ پاکستان کو اپنی تزویراتی ضرورت کے لئے افغانستان سے تعلقات بہتر بنائے رکھنا تھے۔ پاکستان نے ہمیشہ ہمسایہ ممالک کے ساتھ پرامن تعلقات کو اپنی ترجیح قرار دیا۔ پاک افغان ٹرانزٹ ٹریڈ معاہدے کے بعد بھارت نے تخریبی حکمت عملی کے تحت اس معاہدے کی تشریح خود ہی کر کے بھارتی مصنوعات پاکستان راہداری کے ذریعے افغانستان بھیجنے کی بات کی۔ معاہدے میں واضح طور پر یہ ہونے کے باوجود کہ صرف افغانستان واہگہ کے راستے بھارت اشیا برآمد کر سکتا ہے، بھارت نے افغانستان کے لیے واہگہ کے راستے برآمدات کی اجازت دینے کا مطالبہ کر دیا۔پاکستان نے اس مطالبے پر واضح کرنا ضروری سمجھا کہ پاک افغان ٹرانزٹ معاہدہ دو طرفہ ہے، یہ سہ فریقی معاہدہ نہیں۔ یہ امر کسی سے پوشیدہ نہیں کہ پاکستانی معیشت برسہا برس سے افغانستان اور ایران کی سرحدوں سے ہونے والی سمگلنگ سے متاثر رہی ہے۔ دنیا کے کئی ممالک سے گاڑیوں کے ٹائر‘ گاڑیاں‘ برقی آلات‘ موبائل فون‘ کمپیوٹر اور دیگر سامان افغانستان کے لئے کراچی کی بندرگاہ پہنچتا ہے۔ یہاں سے کنٹینروں میں بند یہ سامان افغانستان روانہ کر دیا جاتا ہے۔ کسٹم اہلکاروں اور مقامی گروہوں کے گٹھ جوڑ سے اکثر ایسے کنٹینر افغانستان داخل ہونے سے پہلے غائب ہو جاتے ہیں اور ان میں بھرا سامان مقامی مارکیٹوں میں پہنچ جاتا ہے یا پھر افغانستان سے یہ مال دوبارہ خفیہ راستوں سے پاکستان آ جاتا ہے۔ اس سمگلنگ کی وجہ سے اربوں روپے کا ٹیکس سرکاری خزانے میں جمع نہیں ہو پاتا۔ ایسے کاروبار سے قانون شکن عناصر مضبوط ہوتے ہیں اور ریاست کے لئے کئی طرح کے خطرات کا سبب بنتے ہیں۔ پاکستان ماضی میں بھارت کے ساتھ باہمی تجارت کو بڑھانے کی بات کرتا رہا ہے۔ یہ بات چیت جامع مذاکرات کے اس عمل کا حصہ تھی جس میں تنازع کشمیر کے حل کی تلاش میں پاکستان اور بھارت ایک دوسرے کا نکتہ نظر سمجھنے کی کوشش میں رہے۔ اس وقت حالت یہ ہے کہ 5اگست 2019ء میں مقبوضہ کشمیر کی خصوصی آئینی حیثیت ختم کرنے کے بعد بھارت نے پاکستان کے ساتھ تعلقات کو انتہائی کشیدگی کی سطح پر پہنچا دیا ہے۔ مقبوضہ کشمیر اور آزاد کشمیر کے درمیان تجارتی عمل اکثر معطل رہتا ہے۔بھارت کنٹرول لائن پر روزانہ گولہ باری کر رہا ہے۔ گزشتہ برس فروری میں بھارتی طیاروں نے پاکستان کی حدود کی خلاف ورزی کر کے اشتعال پھیلا دیا۔ پاکستان کے ہاتھوں 2طیاروں کی تباہی کے باوجود بھارت کی اشتعال انگیزی جاری ہے۔ ان حالات میں جب بھارت جانی دشمن بنا ہوا ہے یہ ممکن نہیں کہ اسے اپنا مال پاکستان کے راستے افغانستان میں بھیج کر منافع کمانے کا موقع دیدیا جائے۔ بھارت اگر افغانستان کے لئے واہگہ کے ذریعے برآمدات چاہتا ہے تو اسے کشمیر سمیت تمام تنازعات کو پرامن طریقے سے حل کرنا ہو گا۔ افغانستان میں پہلے حامد کرزئی اور پھر موجودہ صدر اشرف غنی کئی بار پاکستان کی طرف سے دوستی کے لئے بڑھا ہوا ہاتھ جھٹک کر بھارت کے کہنے پر اس کے لئے پاکستان سے تجارتی راہداری کا مطالبہ کرتے رہے۔ یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ افغانستان کے لئے سبزیوں‘پھلوں‘ ادویات سمیت بہت سا مال روزانہ افغانستان جاتا ہے۔ افغانستان نے بھارت کے بہکاوے میں آکر پاکستان سے تجارتی تعلقات کم کئے۔ پاکستان کی 5ارب ڈالر کی برآمدات 2ارب ڈالر تک آ گئیں۔ اس کے باوجود پاکستان نے افغان عوام کے لئے گندم، آٹا اور مشینری جیسی ضروری اشیا کی رسد میں کمی نہ آنے دی۔ افغانستان کو بھارت کے لئے برآمدات کی سہولت دے کر پاکستان نے اپنے موقف سے انحراف نہیںکیا۔ اس تجارت کے نتائج سے بہرحال یہ امید کسی حد تک وابستہ کی جا سکتی ہے کہ پاکستان اور افغانستان خطے میں پروان چڑھتے تجارتی بلاک کا زیادہ فعال حصہ بن جائیں گے۔