15 فروری 1989ء روسی فوجیں جنیوا معاہدے کے تحت انتقال اقتدر کے بغیر افغانستان سے نکل گئیں۔ پاکستان کے پشاور اور راولپنڈی جیسے معاہدوں کے ذریعے پہلے دو ماہ صبغت اللہ مجددی، بعد ازاں چار ماہ کے لیے پروفیسر برہان الدین ربانی کو عبوری صدر بنایا گیا۔ چار ماہ کی مدت پوری ہونے کے بعد بھی ربانی اقتدار سے الگ نہ ہوئے۔ پاکستان کو کابل اور شمال کے اندر تخریبی سیاست اور پکنے والی کھچڑی سے آگاہی نہ تھی۔ ان عبوری حکومتوں سے قبل ہی کابل ہتھیایا جا چکا تھا۔ ڈاکٹر نجیب اللہ وطن پارٹی اور ملک کی صدارت سے زبردستی الگ کر د یے گئے۔ یہ سب کارمل گروپ جسے ببرک کارمل کے بھائی محمود بریالئی، جنرل نبی عظیمی، جنرل بابا جان، رشید دوستم،جنرل مومن اور دوسرے جنرلوں و کمانڈروں نے بنایا۔ پرچمی گروہ شمال کی ملیشیائوں بالخصوص رشید دوستم کی گلم جیم ملیشیاء نے ڈاکٹر نجیب اللہ کو کابل سے نکلنے نہ دیا۔ ان ملیشیائوں کو ڈاکٹر نجیب ہی نے کابل میں داخل ہونے کی دعوت دی تھی۔ میخائل گور باچوف کے بعد کی روسی حکومت نے افغانستان میں مداخلت جاری رکھی۔ پرچمی اور شمال کی سیاسی و عسکری گرہوں کو بدستور اسلحہ کی کھیپ جاری رہی۔ ان دو عبوری حکومتوں میں نئی دہلی کا اثر و رسوخ بڑھتا رہا۔ روسی افواج کے نکلنے کے بعد ایران کی جانب سے ان حلقوں کی اسلحہ و مالی مدد کی جاتی۔ شمال پر مشتمل الگ وحدت کی پزیرائی تہران کی جانب سے بھی ہوتی رہی۔ افغانستان میں صورتحال مزید پیچیدہ و کشیدہ ہوتی گئی۔ کمیونسٹ دوبارہ کابل کے اندر طاقتور بنائے گئے۔ ملک سے نکلنے کا موقع نہ پاکر ڈاکٹر نجیب اقوام متحدہ کے دفتر میں پناہ لینے پر مجبور ہوئے۔ ڈاکٹر نجیب اقوام متحدہ کے خصوصی نمائندے بینن سیوان پلان قبول کر چکے تھے۔ جس کے تحت 1992ء کے اپریل کے آخر میں اختیار پندرہ افراد پر مشتمل کمیشن کو دیا جاتا۔ جس کے بعد 45دنوں بعد 150مجاہد کمانڈروں اور با اثر افغان رہنمائوں کے درمیان اقوام متحدہ کی نگرانی میں جنیوا یا انقرہ میں اجلاس ہوتا۔ جہاں انتقال اقتدار یا وقتی حکومت کا فیصلہ کیا جاتا۔ ڈاکٹر نجیب اللہ نے اٹھارہ مارچ کو تسلیم کیا تھا کہ وہ کمیشن بننے کے بعد صدارت سے الگ ہو جائیں گے۔ نجیب اللہ کی اس آمادگی کے بعد انتقال اقتدار کی راہ میں رکاوٹ گویا ہٹ گئی۔ لیکن اس سے قبل ہی پرچمیوں، رشید دوستم وغیر کی جانب سے ڈاکٹر نجیب اقتدار سے بیدخل کر دیے گئے۔ ڈاکٹر نجیب اللہ نے اقوام متحدہ کے دفتر میں پناہ لیتے ہی بینن سوان کو فون پر صورتحال سے آگاہ کر دیا، اْن سے فوراً کابل پہنچنے کی درخواست کی۔ ’’بینن سیوان‘‘ اسلام آباد کے دورے پر تھے۔ جہاں سے وہ بلا تاخیر کابل پہنچ گئے۔ مگر کابل ائر پورٹ پر رشید دوستم اور پرچمی فورسز نے اْنہیں جہاز سے اْترنے نہ دیا۔ ان گروہوں نے امن منصوبے کو ناکام بنایا۔یہ بات درست نہیں کہ جہادی تنظیمیں اقتدار کے لیے لڑ پڑیں۔ حقیقت یہ ہے کہ روسی انخلا سے پہلے کابل پر قبضے کی منصوبہ بندی ہو چکی تھی۔ ڈاکٹر نجیب بھی اقتدار سے چمٹے رہے۔ صبغت اللہ مجددی نمائشی صدر تھے، جبکہ عبوری صدر پروفیسر برہان الدین ربانی افغانستان کی تقسیم اور شمال کے علاقوں میں پشتون مخالف رحجان و تعصبات اْبھارنے کے کھیل کا حصہ تھے۔ چونکہ افغانستان میں مرکزیت نہ رہی۔ اس لحاظ سے ان تخریبی منصوبوں کی کامیابی یقینی اور آسان دکھائی دینے لگی۔ گلبدین حکمت یار بالخصوص اس گندے کھیل کی راہ میں بڑی رکاوٹ تھے۔ کمیونسٹ باقیات ربانی کی جمعیت اسلامی، احمد شاہ مسعود، رشید دوستم اور حزب وحدت وغیرہ نے یک جا ہو کر درحقیقت حزب اسلامی کے خلاف بند باندھ لیا۔ حزب اسلامی کوکابل میں داخل ہونے نہیں دیا گیا۔ احمد شاہ مسعود کے عساکر تو جہاد کے شروع کے سال میں روسی فوج کے ساتھ ملک کر حزب اسلامی کے خلاف لڑتے۔ افغانستان کی تقسیم کی منصوبہ بندیوں کے بارے میں کئی افغان رہنما، تجزیہ کار، دانشور اور مورخین لکھ چکے ہیں، جو بہت بھیانک ہے۔ انتشار اور طوائف الملوکی کے ایام میں افغانستان کے علاقے مزار کے مقام پر مارچ 1992ء میں نوروز کے دن جب مزار شریف میں جھنڈا بلند کرنے کی خانقائی رسم ادا کی جا رہی تھی عین اس دوران ایک اہم اجلاس بھی منعقد تھا۔ جس میں پرچم پارٹی کے جنرل نبی عظیمی، پروفیسر برہان الدین ربانی کی جمعیت اسلامی کے رہنما اور کمانڈر احمد شاہ مسعود، گلم جیم ملیشیاء کے سربراہ رشید دوستم، حزب وحدت اسلامی کے سربراہ عبدالعلی مزاری اور وسطی ایشیاء کے ملک کے ازبکستان کے ایک سیاسی رہنما ’’ازار خان بیگ‘‘ شریک تھے۔ یہ ازبک رہنما وسطی ایشیاء اور افغانستان کے ازبکوں کے اتحاد کے لیے سرگرم تھا۔ اس اکٹھ میں ڈاکٹر نجیب اللہ کو مزید معاملات سے الگ کر نے پر بات ہوئی۔ نیز سیاسی و انتظامی کمیٹیاں بھی بنائی گئیں۔ سیاسی کمیٹی میں احمد شاہ مسعود، ببر ک کارمل کا بھائی محمود بریالئی، اکرم پیگیر، علامہ عبدالعلی مزاری اور چند دیگر جبکہ انتظامی کمیٹی 32جنرلوں پر مشتمل تھی۔ جن میں افغان پرچم پارٹی یعنی سابق کمیونسٹ باقیات کے جنرل نبی عظیمی، جنرل آصف دلاور، جنرل رشید دوستم، جنرل مومن، جعفر نادری، جنرل قسیم فہیم اور دوسرے شال تھے۔ فیصلہ ہوا کہ سیاسی کمیٹی کے سربراہ احمد شاہ مسعود اور انتظامی کمیٹی کے سربراہ جنرل نبی عظیمی ہوں گے۔ طے ہوا کہ ڈاکٹر نجیب اللہ کے ہٹائے جانے کے بعد اقوام متحدہ کی نگرانی میں نئی حکومت بنائی جائے گی۔ 22مارچ کو ایک اور اجلاس میں ڈاکٹر نجیب کی جگہ احمد شاہ مسعود صدر، عبدالعلی مزاری وزیر اعظم اور رشید دوستم کو وزیر دفاع بنانے کا فیصلہ ہوا۔ دراصل فارسی بولنے والوں کی یہ مجوزہ حکومت ملک کی تقسیم کی طرف پیش رفت کی سعی تھی۔بات سمجھنے کی یہ ہے کہ جو کچھ کابل کے اندر اور باہر ہو رہا تھا اس کے بعد جنیوا معاہدہ سے امید لگانا لاعلمی و نری حماقت تھی۔ گلبدین حکمتیار یہی سمجھاتے رہے جو پاکستان کے اہل دانش و ارباب اقتدار کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا۔ دیکھا جائے تو پاکستان کی جانب سے عبوری حکومتوں کی تشکیل کی مشق کی، ناسمجھی اور مداخلت تھی۔ ان حالات کی کوکھ سے افغانستان کے اندر متحدہ تاجکستان اور جمہوریہ ہزارستان اور افغانستان کا نام خراسان رکھنے کی آوازیں اْٹھیں۔ جیسے پچھلی سطور میں لکھا گیا ڈاکٹر نجیب کی حکومت میں ’’مزار‘‘ کے داخلی راستے اور ’’سالنگ ٹنل‘‘ پر ’’بہ خراسان مستقل خوش آمدید‘‘ کے بورڈ آویزاں کیے گئے۔ بعد کے دنوں میں ہزارستان جمہوریت کا نقشہ منظر عام پر آیا۔ 1997ء میں جب طالبان کی حکومت تھی تو اْستاد محمد محقق نے بی بی سی کو انٹرویو میں افغانستان کو سات صوبوں میں تقسیم کرنے کا مطالبہ پیش کیا۔ کنفیڈریشن کی باتیں ہونے لگیں۔ طالبان دور میں روس اور ازبکستان نے افغانستان کے شمالی صوبے طالبان عملداری سے محفوظ رکھنے کی پوری کوشش کی۔