پاکستانی دفتر خارجہ نے افغان طالبان کو علاج کی سہولت فراہم کرنے کے الزام مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ افغانستان کے من گھڑت بیانات اور الزامات سے دونوں ملکوں کے تعلقات متاثر ہونگے جبکہ افغانستان نے ابھی تک اپنے اس الزام کے کوئی شواہد بھی فراہم نہیں کیے جن میں کہا گیا تھا کہ غزنی میں جھڑپوں میں زخمی ہونے والے افغان طالبان کو پاکستانی ہسپتالوں میں علاج معالجے کی سہولتیں دی جا رہی ہیں۔ افغانستان کا اب یہ وطیرہ بن چکا ہے کہ وہ اپنی ہر برائی پاکستان کے سر تھوپنے کی کوشش کرتا ہے اور اپنے زخموں کا علاج پاکستان پر الزام تراشی میں تلاش کرتا ہے۔ دوسری طرف پاکستان کا رویہ اس کے ساتھ ہمیشہ دوستانہ اور ہمدردانہ رہا ہے لیکن افغانستان بھارتی شہ پر اپنے برادر مسلم ملک ہی کو طعن و تشنیع اور الزام تراشیوں کا نشانہ بناتا رہتا ہے۔ دیکھا جائے تو افغانستان کا حالیہ بے بنیاد الزام پاکستانی معاملات میں مداخلت کے مترادف ہے۔ اس کے برعکس پاکستان ہمیشہ سے افغانستان سمیت اپنے تمام پڑوسی ملکوں کے اندرونی معاملات میں عدم مداخلت کے اصول پر کاربند رہا ہے۔ افغانستان کی اس طرح کی الزام تراشیاں اب اس کا وہم بن چکی ہیں اور وہم کا علاج حکیم لقمان کے پاس بھی نہیں تھا۔ موجودہ افغان انتظامیہ کو تو شاید اتنا بھی یاد نہیں کہ وزیر اعظم عمران خان نے انتخابات میں اپنی جیت کے بعد پہلی ہی تقریر میں اس عزم کا اظہار کیا تھا کہ ہم افغانستان کی مشکلات کو سمجھتے ہیں اور انہیں حل کرنا چاہتے ہیں۔