افغانستان کی بدلتی ہوئی صورتحال پر بات کرنے سے پہلے عرض کرنا چاہتا ہوں کہ یوم دفاع پورے ملک میں جوش و خروش اور اس دعا کیساتھ منایا گیا کہ کشمیر کو آزادی ملے اور پاکستان میں امن و سلامتی ہو۔ اب ہم اپنے موضوع کی طرف آتے ہیں کہ طالبان نے پنج شیر کی مکمل وادی پر قبضے کا دعویٰ کیا ہے جبکہ احمد مسعود کا کہنا ہے کہ جنگ جاری ہے اور ملک گیر بغاوت کریں گے۔ طالبان ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے یہ بھی کہا کہ پاکستان کے تحفظات دور کریں گے ۔ آئین پر کام ہو رہا ہے۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ حکومت سازی میں تاخیر کی وجہ تکنیکی ہے۔ افغانستان کی بدلتی ہوئی صورتحال پر وسوسے جاری ہیں۔ ابھی تک یقین سے کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ عالمی برادری بھی وقت کا انتظار کر رہی ہے۔ اشرف غنی کی حکومت کے خاتمے سے صورتحال یکسر تبدیل ہو چکی ہے۔ طالبان کی آمد سے سب سے زیادہ تکلیف بھارت کو پہنچی ہے۔ اشرف غنی کے دور میں بھارت نے افغانستان کی سر زمین کو پاکستان کیخلاف استعمال کیا اور سازشوں کے جال بچھائے۔ اب بھارت کی طرف سے بیان آیا ہے کہ ہم طالبان کو کہتے ہیں کہ افغانستان کی سر زمین کو بھارت کیخلاف استعمال نہیں ہونا چاہئے حالانکہ بھارت خود یہ گھنائونا کھیل کھیلتا رہا ہے جس کی ہم مذمت کرتے ہیں۔ دنیا کے تمام ممالک کو ایک دوسرے کی آزادی اور خود مختاری کیلئے کشادہ دلی سے کام کرنا چاہئے۔ کشمیریوں کو بھی اُن کے حقوق ملنے چاہئیں ۔ یہ مسلمہ حقیقت ہے کہ بدلتے ہوئے عالمی تناظر میں دیکھا جائے تو پاکستان کو یقینا بہت سے چیلنجز کا سامنا ہے۔ افغانستان کی نئی صورتحال سے ایک لمحہ کیلئے بھی بے خبر نہیں رہنا چاہئے۔ یہ بھی مسلمہ حقیقت ہے کہ دنیا میں نئے بلاک وجود میں آرہے ہیں۔ ہمسایہ ملک چین کے ساتھ پاکستان کی بے مثال دوستی ہے۔ اس دوستی کو آگے بڑھنا چاہئے کہ یہ دوستی خطے میں امن و خوشحالی کی ضامن ہے۔ اب سی پیک پر کام ہو رہا ہے۔ اس منصوبے کو پایہ تکمیل تک پہنچنا چاہئے کہ یہ پاکستان اور خطے کی بہتری کا منصوبہ ہے۔ دوحا معاہدے کے نتیجے میں امریکی افواج کا افغانستان سے انخلاء ہو چکا ہے۔ طالبان نے اقتدار سنبھال لیا ہے۔ افغانستان میں دیگر مسائل کے علاوہ خوراک اور ادویات کی کمی درپیش آسکتی ہے۔ اس لئے افغانستان کو تنہاء نہیں چھوڑنا چاہئے ۔ اقوام متحدہ اور عالمی طاقتوں کو اس سلسلے میں مثبت کردار ادا کرنا چاہئے۔ خطے کی بہتری کیلئے امن ضروری ہے۔ یہ امن افغانستان میں تمام سٹیک ہولڈرز کے باہمی اتفاق کے نتیجے میں ممکن ہو گا۔ خدانخواستہ افغانستان میں موجود مختلف گروپوں میں اتفاق نہ ہوا تو بد امنی کا خطرہ ہے اور اس بات کا بھی خطرہ ہے کہ بد امنی کی صورت میں لوگ ہجرت پر مجبور ہوں اگر ایسا ہوا تو اس کا زیادہ بوجھ پاکستان پر پڑے گا۔ پہلے بھی پاکستان قریباً چالیس سال سے افغان مہاجرین کی میزبانی کا فریضہ سر انجام دے رہا ہے۔ پاکستان کی معیشت تباہ ہو چکی ہے۔ اب پناہ گزینوں کا مزید بوجھ پاکستان کی معیشت کیلئے مشکل ہو گا۔ جس قدر ممکن ہو امن کیلئے کام کیا جائے ورنہ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ امریکہ نے اربوں ڈالر کا جو اسلحہ چھوڑا وہ افغانستان میں بدامنی کیلئے استعمال ہو اور خدانخواستہ ایسا ہوا تو اس کے اثرات ہمسایہ ممالک پڑ سکتا ہے۔ بدلتی ہوئی عالمی صورتحال پر اقوام متحدہ اور ترقی یافتہ ممالک کو اپنا کردار ادا کرنا چاہئے اور جو وسائل جنگوں پر خرچ ہو رہے ہیں یہ وسائل غربت کے خاتمے اور انسانی ترقی کے حوالے سے خرچ کئے جانے چاہئیں۔ یہ بھی دعا ہے کہ امریکہ نے اربوں کا جو اسلحہ چھوڑا ہے وہ ایک دوسرے کیخلاف جنگ میں استعمال نہ ہو۔ یہ تمام باتیں حساس ہیں اور یہ تمام معاملات پارلیمنٹ میں آنے چاہئیں اور پارلیمنٹ میں اس پر گفتگو ہونی چاہئے۔ افغانستان کی سرحد ایران کیساتھ بھی لگتی ہے۔ ایران میں بھی افغان مہاجرین پہنچے ہیں۔ افغانستان کی سرحد تاجکستان، ازبکستان اور ترکمانستان کیساتھ بھی لگتی ہے وہ بھی مسلمان ریاستیں ہیں مگر نہ وہ قبول کرتے ہیں اور نہ ہی افغان مہاجرین وہاں کا رخ کرتے ہیں۔ صرف آٹے میں نمک برابر مقدار وہاں جاتی ہے جبکہ پاکستان مہاجرین کا بوجھ برداشت کرنا پڑتا ہے۔ افغان مہاجرین کی آمد سے پاکستان میں امن و امان کا مسئلہ پیدا ہوا۔ اے پی ایس پشاور کا سانحہ یاد آتا ہے تو ہر ذی روح کانپ جاتا ہے۔ اب اگر دوبارہ مہاجرین کی آمد کا سلسلہ شروع ہوتا ہے تو خوف اور خدشات ہیں کہ خدا نہ کرے کہ پہلے جیسے حالات پیدا ہوں۔ اس لیے ضروری ہے کہ تمام معاملات کو سنجیدگی کیساتھ دیکھا جائے۔ روس کے خلاف لڑی جانیوالی جنگ کے نتیجے میں افغانستان سے چالیس لاکھ رجسٹرڈ اور چالیس لاکھ سے زائد نان رجسٹرڈ افغان مہاجرین پاکستان میں آئے۔ پاکستان میں سب سے بڑا افغان مہاجرین کیمپ ڈیرہ اسماعیل خان میں بنا۔ اس کی بھاری قیمت پورے ملک کو ادا کرنا پڑی۔وسیب کا ضلع بنوں پہلے ہی سرائیکی بولنے والوں سے چھن چکا ہے۔ اب ٹانک اور ڈی آئی خان میں توسیع پسندی کا عمل جاری ہے جس کے نتیجے میں وہاں نہ صرف امن و عامہ کے مسائل پیدا ہو چکے ہیں بلکہ سرائیکی آبادی تیزی کیساتھ اقلیت میں تبدیل ہو رہی ہے۔ ہماری بدقسمتی ہے کہ پہلے دن سے عالمی طاقتیں پاکستان کو اپنی ضرورتوں کی آماجگاہ بنا رکھا ہے۔ دنیا میں پہلے دو بلاک امریکہ اور روس تھے۔ روس تقسیم ہوا اور وہ کئی ٹکڑوں میں بٹ گیا تو دنیا کی چودھراہٹ کا ٹھیکہ امریکہ نے لے لیا۔ یورپ نے بھی نہ صرف یہ کہ امریکہ کی اطاعت قبول کر لی بلکہ اُس کے اتحادی بھی بن گئے۔ جاپان نے اقتصادی ترقی کی کچھ دیگر ممالک بھی اقتصادی طور پر مستحکم ہوئے مگر حیران کن ترقی چین نے کی ہے۔ اب روس کی جگہ چین نے لے لی ہے۔ جہاں امریکہ عسکری طاقت ہے وہاں چین بہت بڑی اقتصادی اور افرادی طاقت کے طور پر سامنے آیا ہے۔ پاکستان جیسے ترقی پذیر ممالک کو اپنی بقاء کیلئے سوچنا ہے اور دیکھنا ہے کہ ہم کہاں اور کس پوزیشن میں کھڑے ہیں۔ اسی لحاظ سے پاکستان کو بھی اپنی پوزیشن کے بارے میں غور کرنا ہے۔