قدرت نے کچھ ایسی حکمت رکھی ہے کہ انسان موت اور سورج کو زیادہ دیر تک ٹکٹکی باندھ کر نہیں دیکھ سکتا ۔حقیقت یہی ہے کہ کوئی طاقت قبر کی رات اور آخری سانس کو ٹال نہیں سکتی۔ جب سے انہیں کرونا ہوا تھا اور ڈاکٹروں کے چہروں پر پھیلی ہوئی مایوسی کے سبب دھڑکا ہر وقت لگا رہتا تھالیکن سننے کو کوئی تیار نہیں تھا لیکن موت برحق ہے اور رفیق افغان کا سفر زندگی بھی تمام ہوا۔ تنازعات، شکایتیں، غلط فہمیاں، دوریاں، قربتیں، تلخیاں، عزم و حوصلہ، اندیشے، دھڑکے، بے خوفی رفیق افغان کی زندگی کے رنگ تھے۔ صحافت کی ایک اور نامور شخصیت ہم سے رخصت ہوئی ۔ رفیق افغان مرحوم کی شخصیت جرأت اور مزاحمت کا اس طرح نشان تھی جس طرح ان کے قابل تعظیم استاد محمدصلاح الدین مرحوم صحافت میںہمت اور جر أت کا استعارہ تھے۔ ان کا اخبارامت ، چبتھے ہوئے سوالات اور چونکا دینے والی خبروں سے بھرا ہوتا تھا۔خود رفیق افغان بڑی حیران کن شخصیت کے مالک تھے۔ رفیق افغان کی صحافت کا اپنا اسٹائل تھا، میں نے ایک بار ان سے پوچھا یہ مہم جوئی کرتے ہوئے آپ کو ڈر نہیں لگتا؟کہنے لگے جو رات قبر میں لکھی ہے وہ کوئی بدل نہیں سکتا۔ سہم کر صحافت کی تو کیا کیا۔ اپنے رپورٹرز کو ہدایت کر رکھی تھی خبر مکمل تحقیق کے بعد فائل کریں پھر دباؤ آتا تو ڈٹ جاتے۔ متنوع انداز کے انسان تھے۔ حضور نبی کریمﷺکا ذکر ہوتا تو آنکھیں نم ہو جاتیں۔ ہمارے بہت ہی پیارے دوست نصیر ہاشمی نے طویل عرصے تک ان کے ہاں خدمات انجام دیں۔ انہیں سلا م کرنے جاتے تو کبھی کبھار رفیق افغان سے ملاقات ہو جاتی تھی ۔افغانستان کے معاملات پر وہ ایک انسا ئیکلو پیڈیا تھے۔ انگریزی، اردو، پشتو اور فارسی میں عبور رکھتے تھے۔ درحقیقت ان کے دبنگ اسٹائل نے انہیں ہماری صحافت کا ایک منفرد باب بنادیا تھالیکن اس کا اپنا چسکہ تھا، ایم کیو ایم کے حولے سے ان کے اخبار کی خبروں اور تحریروں میں ایک جارحانہ انداز ہوتا تھا۔ لیکن سچی بات یہ ہے کہ ایم کیو ایم کے ووٹر اور سپورٹر بڑی تعداد میں ان کے اخبار کو پڑھتے تھے۔ امت کے بعض کالم نگاروں کی شگفتہ نثر نگاری اعلیٰ معیار کی ہے رفیق افغان کی زندگی تنازعات سے پر تھی۔ میں نے پوچھا آپ حالات اور واقعات سے الجھتے اور لڑتے دکھائی دیتے ہیں۔مسکر ا کر کہنے لگے میں زندگی میں اتنا مصروف رہا کہ مجھے تو پتہ ہی نہیں چلا کہ لڑکپن کس دن رخصت ہوا ،جوانی کب آئی اورکب ڈھلی ،ادھیڑ پن کب ختم ہوا اور بڑھاپا کس گھڑی شروع ہوا۔میں نے اپنے تئیں ایک بامقصد پْر جوش اور پْر خطر زندگی گزاری ہے۔ میں نے جنگی جہازوں کی گھڑ گھڑاہٹ اور توپوں کی دھمک سنی ہے،بموں کی تباہ کاریاں دیکھی ہیں۔میں نے پوچھا آپ تو افغانیوں کو کسی بھی صحافی سے زیادہ جانتے ہیں ہم نے انہیں پناہ دی آنے والوں میں ہر کلاس کے لوگ تھے یہ واپس کیوں نہیں جاتے؟ کہنے لگے جس بستی میں ایک بار موت گزر جائے وہاں زندگی کو نمو پانے میں صدیاں درکار ہوتی ہے۔ انہوں نے بڑی تفصیل سے بتایا کہ افغانستان میں کیا کچھ ہونے والا ہے؟ میں نے یہ انٹر ویو چند سال قبل کیا تھا اب ہر بات جوں کی توں سچ ثابت ہو رہی ہے۔ افغان گھر سے نکلے تو پاکستان ان کیلئے جائے امان بن گیا لیکن دنیا میں جن کے لئے ایک بھی انصار نہ ہو انہیں نقل مکانی کی حماقت کبھی نہیں کرنی چاہئیے۔ رفیق افغان کو ہم صحافت کے جس پیمانے پر بھی جانچیں یا اختلاف کریں ، یہ بات طے ہے کہ وہ بے باک اور نڈر صحافی تھے۔ اپنے سسر محمدصلاح الدین کی وفات کے بعد انہوں نے صحافت میں ان کے مشن کو آگے بڑھایا۔ روس 1979میں جب افغانستان پر قابض ہوا تو ایک مزاحمتی تحریک شروع ہو گئی وہ پروفیسر برہان الدین ربانی اور گل بدین حکمت یار سے بہت متاثر تھے۔ اس مزاحمتی تحریک نے رفیق افغان کو بھی عملی زندگی میں قدم رکھنے کے ساتھ اپنا ایک باہمت کردار تفویض کرنے کا موقع فراہم کیا۔ جب ربانی اور حکمت یار رائے عامہ کو روسی تسلط کے خلاف پاکستان میں ہموار کرنے کے لئے نکلے تو رفیق افغان ان کے ترجمان کے طور پر ان کے ساتھ ہوتے۔ یہ رفیق افغان کا زمانہ طالب علمی تھا، وہ کراچی یونیورسٹی میں پڑھتے تھے۔ یہ وہ دور تھا جب ان کی مولانا صلاح الدین سے ملاقات ہوئی ان دونوں کے مابین مشترکہ تعلق کی وجہ بھی افغانستان تھا۔ صلاح الدین کیصدر ضیائالحق اور جنرل حمید گل سے ذاتی تعلقات تھے ،جب رفیق افغان سے ان کے تعلقات استوار ہوئے تو انہوں نے اپنے قریبی ساتھیوں خصوصاً گلبدین حکمت یار سے مشورے کے بعد اپنی بیٹی سعدیہ کا رشتہ رفیق افغان سے کر دیا۔ یہ نکاح وزیر اعظم گل بدین حکمت یار نے پڑھایا۔ مولانا صلاح الدین کا داماد بننے کے بعد رفیق افغان کا صحافت میں رجحان اور دلچسپی بڑھ گئی کیونکہ ان کا اوڑھنا بچھونا ہی بھی لکھنا پڑھنا تھا۔ پھر وہ صلاح الدین صاحب کی شہادت کے بعد ان کے جانشین بن گئے۔ اس دوران وہ خاندانی اورگھریلو طور پر ایک شدید بحران کا شکاربھی رہے، تکبیر کے معاملات بھی وجہ تنازعہ بنے لیکن اس میں کوئی شک نہیں کہ وہ ایک قابل صحافی بے باک ایڈیٹر اور زبردست صلاحتیوں کے منتظم تھے۔ ایک بارمیں نے ان سے دریافت کیا کہ آپ پر الزام لگتا ہے کہ آپ ایجنسیوں کے آدمی ہیں کہنے لگے ہر گز نہیں یہ بات آپ کیسے کہہ سکتے ہیں۔ میں نے کہا حکیم محمد سعید کے قتل کے بعد وزیر اعظم نواز شریف نے اس حوالے سے ایم کیو ایم کو جس طرح چارج شیٹ کی تھی اس کا زیادہ تر حصہ دو دون پہلے آپ کے اخبار میں چھپ چکا تھا۔ کہنے لگے خبر حاصل کرنے کے لئے ہمارے اپنے ذرائع ہوتے ہیں اور پھر وزیر اعظم تو لا محدود اختیارات کا مالک ہو تا ہے۔ سارے ادارے اور ایجنسیاں اس کے ماتحت ہوتی ہیں۔ رفیق افغان اب اس دنیا میں نہیں رہے ہم ان پر جتنی چاہیں بات کر لیں ان کا دنیاوی کر دار ختم ہو گیا ہے۔ جب بھی میں کسی صحافی یا قلم کار کے بارے میں لکھتا ہوں مجھے بے اختیار مرحوم ممتاز مفتی یادآجاتے ہیں جو اکثر کہا کرتے تھے ’’لکھنا ایک کام ہے اس کو دوسرے تک پہنچانا دوسرا کام۔ میں لکھ سکتا ہوں لیکن دوسرے تک پہنچا نہیں سکتا ہے کیونکہ یہ کام خدا نے اپنے ہاتھ میں لے رکھا ہے وہ جس لفظ کو چاہے سینے سے پار کر دے اور جس تحریر اور کتاب کو چاہے ردی کی دکانوں پر ذلیل و خوار کر دے‘‘ اس ملک میں ہزاروں لوگ لکھ رہے ہیں لیکن ان کی تحریریں اثر سے خالی ہیں اس کی ہر گز وجہ یہ نہیں کہ وہ برا لکھتے ہیں محنت نہیں کرتے یا ان کے پاس کہنے کیلئے کچھ نہیں ایسا ہر گز نہیں،لیکن بد قسمتی سے ان کے الفاظ کو دوسرے تک پہنچنے کی اجازت نہیں ملی۔ انہیں تیر بن کر سینوں میں اترنے کا حکم نہیں ملا،بس یہی بات باقی سب لفظوں کا گورکھ دھندہ ہے اور شاید یہ بھی حقیقت ہے کہ زندوں کی تعریف کرنا ہمارادستور نہیں، اللہ رب العزت سے دعا ہے کہ وہ رفیق افغان جیسے بے باک صحافی کے ساتھ اپنے رحم و کرم کامعاملہ فرمائے۔