پاک افغان کرکٹ میچ نے سوشل میڈیا پر دونوں ممالک کے سخت گیر عناصر کو ایک دوسرے کے خلاف صف آرا کردیا۔ چند ایک شر پسند یا ممکن ہے سپانسرڈ افغان شہریوں نے پاکستانی کھلاڑیوں اور شائقین کرکٹ کے ساتھ بدسلوکی کی ہو۔لیکن ملک کے طول وعرض میں ’’نمک حرام‘‘ کے طعنوں کا طوفان اٹھادینا کہاں کی دانشمندی اور انصاف ہے؟افغان ذرا سی اپنی مرضی کیا کرتے ہیں کہ پاکستانیوں کے تن وبدن میں آگ لگ جاتی ہے۔ اکثر کہتے ہیں ہماری بلی ہمیں ہی میاؤں۔ یہ طرزعمل دیکھ اور سن کر برسوں پرانے واقعات حافظے کی سکرین پر بجلی کی طرح کوندتے ہیں۔ یمن کے تنازعہ میں شریک ہونے اور اپنی افواج سعودی عرب روانہ کرنے سے حکومت پاکستان نے انکار کیاکیاکہ عرب حکمرانوں ہی نہیں عام شہریوں نے بھی ایک طوفان بدتمیزی اٹھادیا۔ ان کے وہم وگمان میں بھی نہ تھاکہ پاکستان بھی انکار کی سکت رکھتاہے۔ عربوں کے اس طرز عمل نے اہل پاکستان کو بہت افسردہ کیاتھا۔ تلخ حقیقت یہ ہے کہ افغانوں کے ساتھ ہمارا تعلق برابری اور مساوات کے اصولوں پر مبنی نہیںبلکہ قومی اور گروہی اغراض سے بندھا ہوا ہے۔ ان کی کامیابیوں اور کامرانیوں کو ہم سے اکثر لوگ اپنی پسندیدہ عینک سے دیکھنا چاہتے ہیں۔ مہاجرین کو پناہ دینے کا احسان جتایا جاتاہے اور بہت تکرار کے ساتھ۔اس بحث میں یہ فراموش کردیا جاتاہے کہ افغانستان کے جہاد کی پرورش ہمارے حکمران طبقے نے اپنی مرضی اور اسٹرٹیجک ضرورت کے تحت کی تھی ۔سوویت یونین کے خلاف بننے والے عالمی محاذ کا ہم سرگرم حصہ بنے ۔ جنگ کے فوائد حکمرانوں اور ان کے حاشیہ برداروں نے سمیٹے اور نقصانات اٹھانے کے لیے شہریوں کو آگے کردیاگیا۔ اسی کی دہائی میں پاک افغان سرحدی پٹی پر سینکڑوں کی تعداد میں عربوں اور امریکیوں کی شہ او رمالی تعاون سے مدارس قائم کیے گئے۔ عالم یہ تھا کہ افغانوں کے لیے معمول کے سکولوں کا نصاب بھی سی آئی اے کا مرتب کردہ تھا۔ مقصد ایک ایسی نرسری تیار کرنا تھا جو جنگجو ہو اور آخری سانس تک سوویت یونین کا مقابلہ کرنے پر رضا مند ہو۔مذہب کو افیون کی طرح برتا گیا۔انسان جو بوتا ہے وہ کاٹتاہے۔ شدت پسند اور بے لچک ہونا افغانوں کا خاصہ ہے۔ کوہساروں کی کوکھ سے جنم لینے والے اکثر اکھڑ مزاج ہوتے ہیں۔ حالت جنگ میں مسلسل رہنے کی بدولت اکھڑے رہنا ان کے مزاج کا مستقل حصہ بن گیا۔ پشاور کے مہاجر کیمپوں میں اس خاکسار کو ایک نہیں درجنوں بار جانے کا موقع ملا۔ قسم پرسی کی زندگی افغانوں پر مسلط ہوئی۔ امداد ان کے نام پر آتی ڈالروں کی بوریوں میں تقسیم بڑے بڑے ایوانوں میں ہوجاتی۔ بریگیڈئر محمدیوسف جو برسوں تک افغان سیل کے سربراہ رہے انہوں نے افغانستان پر ایک تہلکہ خیز کتاب لکھی ۔بتاتے ہیں کہ کس طرح افغانستان کے جہاد کو راولپنڈی سے ہو کر چلایا گیا۔ اشتراک کا یہ عالم تھا کہ سی آئی اے کے سربراہ ولیم کیسی ہر ماہ صبح صادق راولپنڈی کے چکلا ائر پورٹ پر اترتے اور خاموشی سے پاکستانی ہیلی کاپٹر پر افغان سرحد کی جانب روانہ ہوتے۔ کہاجاتاہے کہ دوسری عالمی جنگ کے بعد دونوں ممالک کے اشتراک سے دنیا کاسب سے بڑا خفیہ آپریشن کیاگیا۔ اسی کی دھائی میں ہتھیاروں اور پروپیگنڈے پراربوں ڈالر امریکیوں نے صرف کیے۔ اتنی ہی رقم عربوں نے بھی فراہم کی۔یورپ اور جاپان بھی مسلسل کمک فراہم کرتے رہے۔ امداد اور اشتراک کا مقصد ایک ایسی نسل تیار کرناتھا جو سوویت یونین کی بربادی تک چین کی نیند نہ سوسکے۔ سوویت یونین کی فوج افغانستان سے بے نیل مرام واپس لوٹی۔ایک سپر پاورکی ہیبت اور طاقت کو ہم نے اپنی آنکھوں سے خاک میں ملتا دیکھا۔ امریکیوں نے بوریا بستر سمیٹااور سات سمند ر پار سدھار گئے۔اقتدار پر قبضے کی کشمکش میں افغانستان خانہ جنگی کا شکار ہوگیا۔ جلتی پر تیل کا کام ایران اور بھارت نے کیا۔القائدہ نے بھی افغانستان کو اپنا مرکز بنا کر امریکہ ہی نہیں عرب حکمرانوں سے بھی ٹکر لے لی۔ روس اگرچہ زخم چاٹ رہاتھا لیکن اس نے بھی اپنے اتحادیوں کو اسلحہ فراہم کرنا شروع کردیا۔ہاتھیوں کی اس لڑائی میں افغان شہری دربدر ہوگئے۔ افغان شہریوں کی فلاح وبہبود بارے کسی نے نہ سوچا۔ جنگ کا ایندھن بننے والوں کی معاشی بحالی کا کوئی مارشل پلان نہ بن سکا۔ نائن الیون کے بعد مغربی دنیا اور بھارت کے دروازے عام افغانون کے چوپٹ کھل گئے۔ہزاروں نوجوانوں کو یورپ ، امریکہ ، جاپان، بھارت حتیٰ کہ چین کے تعلیمی اداروں میں اعلیٰ تعلیم وتربیت حاصل کرنے کا موقع ملا۔ مغرب میڈیا میں پاکستان مخالف پروپیگنڈے پر تبصرے کی چنداں ضرورت نہیں۔ میڈیا ہی نہیں تحقیقی ادارے اور یونیورسٹیاں بھی پاکستان کی بھداڑاتیں۔ فلمیں بنی ، کتابیں لکھیں گئی حتیٰ کہ دنیا ساری نے اسلام آباد کو افغانستان کے عدم استحکام کا ذمہ دار قراردیا۔ جوابی بیانیہ کئی جگہ نہ پاسکا۔پاکستان کے نقطہ نظر کو پذیرائی نہ ملی۔ افسوس! پاکستان افغانستان کی ترقی اور استحکام کے سفر میں ہم رکاب نہ ہوسکا۔ طالبان کے ساتھ قربت نے اسے افغانستان میں اجنبی بنادیا۔ کابل کے حکمرانوں نے ایک بھی لمحہ ضائع کیے بغیرپاکستان کا بوریا بستر گول کیا۔اسی زمانے میں افغانستان میں میڈیا کا بے پناہ پھیلاؤ ہوا۔ایک سو اسی کے لگ بھگ ایف ایم ریڈیو اسٹیشن قائم ہوئے۔ 75 ٹی وی اسٹیشن ہیں۔ اخبارات اور رسائل کی تعداد سینکڑوں میں ہے۔ سوشل میڈیا اطلاعات تک رسائی کا پہلا ذریعہ بن گیا۔اس سارے منظرنامہ میں پاکستان عمومی طور پر غائب رہا۔ اہل پاکستان نے افغانستان کو ہمیشہ سکیورٹی کے عدسے سے دیکھا۔ چنانچہ کابل میں آج ایک بھی پاکستانی صحافی نہیں پایاجاتا۔ان کے میڈیا میں ہمارا کوئی اثر ورسوخ نہیں۔ افغانوں کو تکنیکی مہارت مغربی یا بھارتی ماہرین فراہم کرتے ہیں۔ مالی وسائل بھی وہاں ہی سے آتے ہیں۔ سوشل میڈیا میںبھی پاکستانی بیانیہ کہیں نظر نہیں آتا۔پاکستان اور افغانستان کے درمیان دوستانہ تعلقات قائم کرنے والوں کو اسلام آبادمیں چند برس قبل تک محب وطن نہیں سمجھاجاتاتھا۔ ماحول اب بدل رہاہے۔ جنرل قمر جاوید باجوہ نے گزشتہ ڈھائی برسوں میں ملک کے اندر اور اداروں میں ایک تعمیری اور مثبت طرز فکر پیدا کرنے کی مسلسل کوشش کی۔اعلیٰ سطح پر ریفارمز کا سلسلہ شروع کیا۔باجوہ ڈاکٹرائن کے مثبت نتائج سامنا آنا شروع ہوچکے ہیں۔ طالبان کے امریکہ اور بتدریج افغان حکومت کے ساتھ مذاکرات اور مفاہمت کی راہ ہموار کردی گئی۔سیاسی اور سفارتی فضا خوشگوار ہورہی ہے ۔تلخی اور بداعتمادی کے بادل چھٹ رہے ہیں۔ اعتماد اور دوستی کے رشتے بحال ہوتے نظر آرہے ہیں۔ اس ماحول کو برقرار رکھنے کے لیے افغانستان اور اس کی حکومت کے ساتھ اہل پاکستان کو محبت اور اخوت کا رشتہ اختیار کرنا ہوگا۔ مسابقت اور مقابلے کا نہیں۔ ان کے زخموں پر مرہم رکھنا ہوگا۔ سیاسی استحکام ، امن اور ترقی کے سفر میں ان کا شریک کار بننا ہوگا نہ کہ رقیب ۔ افغانستان کے ساتھ دوستانہ تعلقات استوار کرنے میں نفع نقصان کا حساب کتاب ترک کرکے ان کا ہاتھ تھامنے کی سوچ اپنانا ہوگی۔ یاد رکھیں صرف! محبت ہے فاتح عالم۔