حزب اسلامی افغانستان کے سربراہ اورسابق افغان وزیر اعظم انجینئر گلبدین حکمت یار نے جماعت اسلامی کے مرکز منصورہ میں خطاب کرتے ہوئے کہا کہ افغانستان میں افغان عوام کی حقیقی نمائندہ حکومت کا قیام وقت کی ضرورت ہے۔ دوسری طرف افغانستان میں دھماکے میں 11افراد ہلاک جبکہ 64زخمی ہو گئے ہیں۔ امریکہ اور طالبان کے مابین دوحہ معاہدے کے بعد اس بات کا قوی امکان پیدا ہوا تھا، کہ اب افغانستان میں امن قائم ہو گا۔افغانوں کو سکھ اور چین سے زندگی گزارنے کا موقع ملے گا۔ متحارب گروپ باہمی اتفاق و اتحاد سے عوام کے جان و مال کی حفاظت یقینی بنانے کے لئے کردار ادا کریں گے۔ افغان عوام اپنی مرضی سے حکمران منتخب کر سکیں گے۔بدقسمتی سے متحارب گروپوں نے ہتھیار پھینکے نہ ہی بین الافغان مذاکرات شروع ہو سکے ہیں۔افغان عوام بدستور انتظار کی سولی پر لٹکے ہوئے ہیں ۔ اس سارے معاملے میں بڑی رکاوٹ افغان صدر اشرف غنی ہیں، کیونکہ افغان صدر کو اپنا اقتدار ختم ہونے کا خوف لاحق ہو چکا ہے، یہی وجہ ہے کہ جب امریکہ نے 8صفحات پر مشتمل مسودہ افغان حکومت کو ارسال کیا، تو اشرف غنی نے اسے ماننے سے انکار کرتے ہوئے کہا کہ: جب تک وہ زندہ ہیں عبوری حکومت نہیں بننے دیں گے۔ اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ اشرف غنی کو افغان عوام کے جان و مال سے اپنا اقتدار زیادہ عزیز ہے۔ افغانستان کے مستقبل کے حوالے سے 18مارچ کو ماسکو میں ایک کانفرنس کی تیاری ہو رہی ہے، جس میں جماعت اسلامی افغانستان کے امیر صلاح الدین ربانی‘ سابق نائب صدر احمد ضیا مسعود اور یونس قانونی نے شرکت کا اعلان کیا ہے،حزب اسلامی کے سربراہ انجینئر گلبدین حکمت یار نے بھی گزشتہ روز منصورہ میں اس بات کی تصدیق کی کہ روس اور ترکی کی کانفرنسز میں حزب اسلامی کا وفد شرکت کرے گا ۔اس کے علاوہ افغان طالبان کو بھی اس کانفرنس میں شرکت کی دعوت مل چکی ہے۔ اس سے واضح ہوتا ہے کہ اشرف غنی تنہا رہ چکے ہیں۔ افغانستان کے متحارب گروپوں اور قد آور لیڈران میں سے کوئی بھی اس کے ساتھ کھڑا نظر نہیں آ رہا۔ حزب اسلامی افغانستان نے چند روز قبل کابل میں ایک لاکھ افراد کے ساتھ مظاہرہ کر کے غنی حکومت سے مطالبہ کیا تھا کہ ملک میں امن بحا ل کیاجائے‘ ٹارگٹ کلنگ روکی جائے اور قومی خزانے میں ہونے والی بدعنوانی کا خاتمہ کیا جائے۔ گلبدین حکمت یار نے ایک لاکھ کارکنوں کے ساتھ حکومت کو دس دن کی مہلت دیتے ہوئے کہا تھا کہ اگر ان کے مطالبات پورے نہ کئے گئے تو احتجاج کا دائرہ کار بڑھایا جائے گا۔حزب اسلامی نے اگر ایسا کیا تو اس سبھی افغانو ں کے شامل ہونے کی توقع ہے ،کیونکہ اس وقت افغانستان میں حکومت نام کی کوئی چیز ہی نہیں ،غنی حکومت کی رٹ کابل کے صدارتی محل کے سائے کے ساتھ ہی ختم ہو جاتی ہے ۔ درحقیقت افغانستان میں بدامنی اس قدر اپنے پنجے گاڑھ چکی ہے کہ خلق خدا کا سانس لینا محال ہے۔ اغوا کے ڈر سے 400تاجر ترکی منتقل ہو چکے ہیں, چند روز قبل افغان تاجر سوا94لاکھ پاکستانی روپے تاوان دے کر رہا ہوا ہے، تمام تر ثبوت دینے کے باوجود غنی حکومت نے اغوا کاروں کے خلاف کوئی ایکشن نہیں لیا۔ اس سے اس تاثر کو تقویت ملتی ہے کہ غنی حکومت شہریوں کے اغوا اور تاوان میں برابر کی شریک ہے۔ افغانوں کی جان و مال کی حفاظت بھاری پگڑیوں ‘ گھنی دا ڑھیوں اور لمبی عبائوں والا سخت کوش قبیلہ ہی کر سکتا ہے۔ جنہوں نے اپنے دور اقتدار میں افغانوں کو ایسا امن و سکون دیا کہ کابل سے قندھار تک ایک مثالی امن قائم ہو چکا تھا۔ اس وقت افغانستان میں بدامنی کا دور دورہ ہے، جس کی وجہ سے کسی کی جان و مال محفوظ نہیں۔ گزشتہ روز بھی ہرات میں پولیس چیک پوسٹ کے قریب کار بم دھماکے میں درجن سے زائد مکان تباہ ہو گئے ہیں جبکہ 11افراد جاں بحق اور 64زخمی ہوئے ہیں۔2001ء سے افغانستان ویسے ہی میدان جنگ کا منظر پیش کر رہا ہے۔ رہی سہی کسر اب متحارب گروپ پوری کر رہے ہیں جبکہ کالعدم داعش اور جرائم پیشہ گروپ بھی اس موقع سے بھرپور فائدہ اٹھا رہے ہیں۔ امریکہ نے مئی 2021ء میں افغانستان سے انخلا کا اعلان کر رکھا ہے۔ افغان طالبان اور گلبدین حکمت یار سمیت تمام لیڈروں کا یہی موقف ہے کہ امریکی افواج افغانستان سے نکل جائے اور عالمی طاقتیں افغانستان کی تعمیر نو کے لئے امداد کا اعلان کریں۔ اس وقت افغانوں کو ایک حقیقی نمائندہ حکومت کی ضرورت ہے، جو افغان عوام کی ترجمان ہو اور افغانوں کے مسائل حل کرنے کا عزم رکھتی ہو۔ ماسکو اور ترکی کانفرنس سے وہ تمام شک و شبہات بھی دور ہو جائیں گے جن کی آڑ میں اشرف غنی اقتدار کے ساتھ چمٹے ہوئے ہیں۔ جنگ بندی کمیشن بننے کے بعد طالبان بھی اس کی مخالفت نہیں کرینگے کیونکہ اس میں انہیں اپنی جدوجہد کے ثمرات نظر آنا شروع ہو جائیں گے۔ گلبدین حکمت یار سمیت دوسرے تمام افغان لیڈران کو بھی چاہیے کہ وہ طالبان کے ساتھ مل کر اپنے ملک کو ایک عظیم ملک بنانے کا عزم کریں۔ کیونکہ اب افغان عوام بھی جنگ سے عاجز آ چکے ہیں۔ کئی نسلیں بے مقصد جنگ کا ایندھن بن چکی ہیں۔ اس لئے تمام افغان دھڑوں کو مل کر اپنے فروعی اختلافات کو ملک و قوم کے وسیع تر مفاد میں قربان کر کے افغانستان کی تعمیر نو کے لئے کوششیں کرنی چاہیئں۔